نیہا ککڑ میوزک کنسرٹ کے دوران کیوں روئی تھیں؟ گلوکارہ نے سچ بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
بھارت(نیوز ڈیسک)چند دن قبل بھارت کی مقبول گلوکارہ نیہا ککڑ کی جانب سے آسٹریلیا میں ہونے والے میوزک کنسرٹ کے دوران پھوٹ پھوٹ کر رونے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔اس وقت بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر رپورٹس تھیں کہ نیہا ککڑ کنسرٹ میں تین گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی تھیں، جس وجہ سے شائقین نے ان پر غصہ کیا اور وہ مداحوں کا غصہ دیکھ کر رو پڑی تھیں۔
لیکن اب گلوکارہ نے بتایا ہے کہ ان کے تاخیر سے آنے اور رونے کی وجہ کیا تھی؟
نیہا ککڑ نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں بتایا کہ ان پر تین گھنٹے تاخیر سے آنے کا الزام لگا کر ان کے خلاف غلط باتیں کی گئیں لیکن لوگوں کو سچ کا علم نہیں۔گلوکارہ نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ جن منتظمین نے آسٹریلیا میں ان کے کنسرٹ کا انعقاد کیا تھا، وہ عین موقع پر پیسے لے کر فرار ہوگئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے میوزک کنسرٹ میں مفت میں پرفارمنس کی جب کہ ان کی ٹیم میں شامل دیگر ارکان کو منتظمین نے کھانا تک فراہم نہیں کیا۔نیہا ککڑ کے مطابق منتظمین نے انہیں اور ان کی ٹیم کو رہائش کے لیے ہوٹل تک نہیں دیا تھا جب کہ کنسرٹ کے انتطامات بھی مکمل نہیں کیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ منتظمین نے کنسرٹ میں ساؤنڈ سسٹم لگانے والوں کو پیسے تک نہیں دیے تھے اور انہوں نے ساؤنڈ سسٹم تک نصب نہیں کیا تھا اور انہیں آخری وقت تک ایسا لگتا رہا ہے کہ شاید کنسرٹ منسوخ کردیا گیا ہے۔
گلوکارہ نے لکھا کہ منتظمین ان کے مینیجرز کا فون بھی نہیں اٹھا رہے تھے اور وہ سارے پیسے لے کر بھاگ گئے، ان کی ٹیم کے ارکان کو کھانا تک نہیں دیا گیا، کنسرٹ کی جگہ پر ساؤنڈ سسٹم نصب کرنے والوں کو پیسے تک نہیں دیے اور انہوں نے خود سارے انتطامات کروائے۔
نیہا ککڑ کے مطابق ان کے شوہر نے ہی ان کی میوزک ٹیم کو کھانا اور دیگر چیزیں فراہم کیں جب کہ ساؤنڈ سسٹم کو بھی انہوں نے پیسے دیے اور پھر انہوں نے مداحوں کی خاطر کنسرٹ کیا۔گلوکارہ نے لکھا کہ ان کے پاس بتانے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن وہ صرف اتنا ہی بتانا چاہتی ہیں، ان پر تنقید کرنا بند کی جائے، ان کی تاخیر کی وجہ کنسرٹ منعقد کرنے والے منتظمین تھے۔
اگرچہ نیہا ککڑ نے بتایا کہ کنسرٹ منعقد کرنے والے پیسے لے کر فرار ہوگئے اور انہوں نے انتظامات بھی نہیں کیے تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے فراڈ کرنے والے منتظمین کے خلاف کارروائی کی یا نہیں؟
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ساو نڈ سسٹم گلوکارہ نے بتایا کہ نے بتایا نیہا ککڑ انہوں نے تک نہیں اور ان
پڑھیں:
خواتین عید الفطر کی تیاریوں سے مایوس کیوں؟
رمضان کے آخری ایام میں عید کی تیاریوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ بازاروں میں خواتین کی بڑی تعداد عید کی تیاریاں کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ان میں سے بہت سی خواتین کا کہنا ہے کہ ہر چیز بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے عید کی تیاری کرنا بہت مشکل ہورہا ہے۔ دوسری طرف دکانداروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں اضافے کے ساتھ ہر چیز کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کی شرح میں کمی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فروری 2025 میں افراط زر کی شرح 1.5 فیصد رہی۔ لیکن اس کے باوجود عوام کی جیب پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔
اسلام آباد کی رہائشی فائزہ خان کہتی ہیں کہ عید کی شاپنگ ہر سال مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ برانڈز سے خریداری تو دور کی بات عام مارکیٹوں سے خریداری کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
’گزشتہ برس کے مقابلے میں ہر چیز 200 سے 500 روپے تک بڑھ چکی ہے۔ بچوں یا بڑوں کی کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو مناسب قیمت پر فروخت ہو رہی ہو۔ جو چیزیں سستی ہیں، ان کی کوالٹی ایسی ہے جو ان پیسوں کو بالکل بھی جسٹیفائی نہیں کرتی۔ ‘
’لیکن اس سب کچھ کے باوجود خاص طور پر بچوں کے لیے بجٹ نکالنا پڑتا ہے کیونکہ عید بچوں کی ہوتی ہے۔ اب سال میں 2 ہی عیدیں آتی ہیں۔ والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو بالکل بھی مایوس نہ کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی کے سبب وہ اپنی عید کی خریداری کا ارادہ تو نہیں رکھتیں کیونکہ عید پر گروسری اور بچوں کی تیاری ہی ہو جائے تو بڑی بات ہے۔
یہ بھی پڑھیےمیٹھی عید پر ملک بھر میں کون سے خاص پکوان روایت سے جڑے ہیں
کرن فاطمہ کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ عید کی تیاریوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عید کے کپڑوں کے لیے بازار کے بہت چکر لگائے مگر تمام برانڈز کے کپڑوں اور جوتوں کی قیمتیں قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے 5 ہزار روپے تک کس بھی برانڈ کا سوٹ آرام سے مل جایا کرتا تھا، لیکن اب تو 5 ہزار روپے میں صرف شرٹ بھی مشکل سے مل رہی ہے۔
’ ٹھیک ہے کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے مگر برانڈڈ کپڑوں کی قیمتیں حد سے زیادہ ہیں۔ ان کپڑوں کے ٹیگ پر لکھی قیمت اس آرٹیکل سے اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ آرٹیکل اس قیمت کے قابل نہیں ہوتا۔ اور مڈل کلاس کے لیے تو اب برانڈڈ کپڑے پہننا نہ ممکن ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مارکیٹوں میں مسلسل گھومنے پھرنے کے بعد انسٹاگرام پر انہیں ایک ایسا آن لائن اسٹور نظر آیا جس پر پاکستان کے ایک بہت مہنگے اور معروف برانڈ کی کاپیاں موجود تھیں۔ جب اس آن لائن اسٹور کو میں نے مزید ایکسپلور کیا تو اس پر ہو بہو ویسے ہی کپڑے بہت ہی کم قیمت میں دستیاب تھے۔
’ بس وہ دیکھتے ہی میں نے جلدی سے اپنے لیے ایک سوٹ آرڈر کیا جو مجھے پرسوں ہی ڈیلیور ہوا ہے، اور واقعی اس کی کوالٹی بھی بہت اچھی تھی اور اس پر جو کڑھائی ہوئی تھی وہ تو بالکل ویسی ہی تھی۔ وہ جوڑا اس برانڈ کی شاپ پر تقریباً 14 ہزار 500 کا تھا لیکن آن لائن مجھے وہ 5 ہزار 950 کا مل گیا۔‘
مزید پڑھیں عید پر فیملی کے ہمراہ سیاحتی مقامات کی سیر کے دوران کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
اقراء فاروق کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی تو شاید کبھی ختم ہی نہیں ہوگی۔ اب شاید ایسا لگتا ہے کہ ہم نے مہنگائی کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ عید ایسا موقع ہے جس کی تیاریاں نہ کی جائیں تو کیا فائدہ۔ کیونکہ میٹھی عید سال میں 1 ہی بار آتی ہے۔ چیزوں کی قیمتیں تو ویسے ہی ہیں بلکہ قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود اس تہوار کو تمام مسلمانوں کو جوش و خروش سے منانا چاہیے۔
حکومت اور بزنس کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ عید کے موقع پر اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرے جیسے پوری دنیا میں کرسمَس وغیرہ کے مواقع پر کمی کی جاتی ہے تاکہ ہر شخص کی استطاعت میں کپڑے، جوتے اور دیگر چیزیں خریدنا ممکن ہو۔ اور یہ درست ہے کہ عید کی تیاریوں کے لیے سستی اور معیاری چیزوں کا انتخاب کرنا اب ایک چیلنج بن چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خواتین عید الفطر