Daily Sub News:
2025-03-31@06:02:15 GMT

بوآو ایشیائی فورم: ہم جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

بوآو ایشیائی فورم: ہم جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں

بوآو ایشیائی فورم: ہم جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 28 March, 2025 سب نیوز


بیجنگ :رومانوی چیز سمندر نہیں، بلکہ ہم ہیں جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں”، یہ چینی ادب کے نوجوانوں کا سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر کہا جانے والا رومانوی جملہ ہے۔ ہر سال بہار کے موسم میں، چین کے ہائنان صوبے کا چھوٹا سا قصبہ بوآو عالمی سیاسی و تجارتی اشرافیہ کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ 2001 میں قائم ہونے کے بعد سے، بوآو ایشیائی فورم ایشیا کے سب سے بااثر اعلیٰ سطحی مکالمے کے پلیٹ فارمز میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے، اور اسے بین الاقوامی نقشے پر ایشیا کی آواز کے “انکیوبیٹر” کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ نرم سمندری ہواؤں کے درمیان، ایشیائی لوگ ایشیا کے ماضی ، آج اور کل کے بارے میں بات کرتے ہیں، مشترکہ ترقی اور ثمرات کے اشتراک کے امکانات پر غور کرتے ہیں۔

یہ منظر شاید مزکورہ رومانوی جملے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ عالمگیریت کے زوال اور جغرافیائی تنازعات میں اضافے کے موجودہ دور میں، ایشیاء کو اپنی آواز کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ایشیا عالمی اقتصادی ترقی کا 60فیصد حصہ ڈالتا ہے، لیکن اس کا عالمی حکمرانی کے نظام میں اثر و رسوخ اس کے متناسب نہیں۔ بوآو ایشیائی فورم کا اہم مقصد اسی خلاء کو پر کرنا ہے۔ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے (RCEP) کی بات چیت کو آگے بڑھانے سے لے کر ڈیجیٹل کرنسی کے تعاون پر تبادلہ خیال تک، بوآو فورم ایشیائی ممالک کے موقف کو ہم آہنگ کرنے اور مشترکہ اجماع کو پروان چڑھانے کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، اس فورم کا “ایشیائی نقطہ نظر ” زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی قواعد کو نئی شکل دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر، 2023 کے فورم میں “کاربن نیوٹرلٹی” کے موضوع پر توجہ مرکوز کی گئی، جہاں متعدد ممالک کے نمائندوں نے “گرین ٹرانسفارمیشن کے لیے ایشیاء کے 9 اقدامات” پیش کیے۔ مغربی معیارات کو غیر فعال طور پر قبول کرنے سے انکار اور “قواعد کی خود مختاری” کی یہ کوشش، بوآو ایشیائی فورم کو ڈیوس جیسے مغربی فورمز سے ممتاز کرتی ہے۔ فورم کے اثر و رسوخ میں اضافے کے ساتھ، مغرب سے شکوک و شبہات کی آوازیں بھی قدرتی طور پر سنائی دینے لگی ہیں: فورم صرف ایک “باتوں کا کلب” ہے، یہ “چین کے زیر تسلط” ہے، اور ایشیاء کی متنوع آوازوں کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہے؛ یہ “ریزورٹ میں قائم گفتگو کا مرکز” صرف “شاہانہ ماحول کے بدلے سفارتی حمایت حاصل کرنے” کی کوشش ہے، اور چین کے “جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے” کا ایک ذریعہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ نقطہ نظر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ بوآو ایشیائی فورم کا مقصد ہی ایک “غیر سرکاری، غیر منافع بخش” پلیٹ فارم کے طور پر کام کرنا ہے، جہاں مکالمے کو فروغ دینا مرکزی اہمیت رکھتا ہے نہ کہ فیصلے مسلط کرنا۔

جیسا کہ فورم کے سابق سیکرٹری جنرل لی باو ڈونگ نے کہا کہ بوآو ایشیائی فورم ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر کھلے پن اور رواداری کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے، جہاں خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے اور مشترکہ چیلنجز پر بات چیت کی جاتی ہے۔ یہی باہمی تعاون اور مشترکہ جدوجہد کی روح بوآو ایشیائی فورم کی منفرد ثقافت ہے۔ بلاشبہ، بوآو ایشیائی فورم نہ تو “پرتعیش سفارت کاری” کا میدان ہے اور نہ ہی چین کے لیے ایشیائی رہنماؤں کو راغب کرنے کا “شاہانہ ریزورٹ”۔ جیسا کہ سنگاپور کے اسکالر کشور محبوبانی نے کہا، “آرام دہ ماحول میں، عہدیداروں کے لیے تعاون پر بات کرنا آسان ہوتا ہے۔” جب لوگ سنجیدہ مذاکرات کی میز سے نکل کر ناریل کے درختوں اور ریتیلے ساحل پر آتے ہیں، تو سخت خیالات کی دیواریں پہلے گرتی ہیں۔ اسی نرم اور مسلسل مکالمے میں، اسی “ایشیائی ہم آہنگ فضا” میں، ایشیائی ممالک نے RCEP اور گرین فنانس کو آگے بڑھایا ہے، اور کاربن نیوٹرلٹی کے دور کے لیے ایشیائی حل پیش کیے ہیں۔ بوآو کی کہانی صرف ایک چھوٹے ماہی گیر گاؤں کے عروج کی نہیں، بلکہ 21ویں صدی کے بین الاقوامی تعلقات کی ایک “صدی کی داستان” ہے: مکالمہ اور تعاون ہمیشہ تصادم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔

بوآو نے دنیا کو یہ ثابت کیا ہے کہ ایشیا کا مستقبل کسی اور کے لکھے ہوئے اسکرپٹ پر منحصر نہیں۔ یہاں کوئی “شاہانہ سفارت کاری” نہیں، صرف کھلاپن اور اختراعی تعاون ہے، اور یہی وہ بنیادی طاقت ہے جو ایشیاء کو عالمی تبدیلیوں میں اپنی حیثیت مستحکم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جیسا کہ چینی نائب وزیراعظم ڈنگ شیوئی شیانگ نے 27 تاریخ کی صبح بوآو ایشیائی فورم 2025 کے سالانہ اجلاس کے افتتاحی تقریب میں اپنے کلیدی خطاب میں اشارہ کیا کہ اس سال چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے ایشیائی ہم نصیب معاشرے کے تصور کی پیشکش کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ تمام فریقوں کی مشترکہ کوششوں سے ایشیائی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں شاندار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، جو دنیا کی مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

فی الحال، دنیا میں غیر مستحکم اور غیر یقینی عوامل نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کر، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا چاہیے، انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینا چاہیے، عالمگیر چیلنجز کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا چاہیے، ایشیائی گھر کی مشترکہ تعمیر کرنی چاہیے اور ایشیا اور دنیا کے لیے ایک روشن تر مستقبل تخلیق کرنا چاہیے۔ جب ایشیاء کے نمائندے سال بسال یہاں جمع ہوتے ہیں، تو وہ نہ صرف علاقائی تعاون کی داستان لکھتے ہیں، بلکہ تہذیبوں کے باہمی تبادلے کی نظم بھی تخلیق کرتے ہیں۔ یہاں، بانس کے جنگلوں میں ہونے والی ملاقاتیں گول میز مذاکرات کی جگہ لے لیتی ہیں، اور اجماع سمندر کی لہروں کی طرح خود بخود ابھرتا ہے۔ شاید یہی وہ پیغام ہے جو ایشیا کا بواو دنیا کو دینا چاہتا ہے: حقیقی تبدیلی کی قوت، اکثر نرم اور مسلسل مکالمے سے جنم لیتی ہے۔ و عریض صرف سمندر ہی نہیں، بلکہ ہمارے دل بھی ہیں جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: بوا و ایشیائی فورم کے طور پر کرتے ہیں کو فروغ چین کے کے لیے

پڑھیں:

بوآؤ میں دنیا کو چین کی ’’کشش ‘‘دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا، چینی میڈیا

بوآؤ میں دنیا کو چین کی ’’کشش ‘‘دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 29 March, 2025 سب نیوز


بیجنگ :بوآؤ فورم فار ایشیا کی 2025 کی سالانہ کانفرنس ختم ہو گئی ہے۔ چار دنوں میں 60 سے زائد ممالک اور خطوں کے تقریباً 2,000 نمائندے بحیرہ جنوبی چین کے ساحل پر جمع ہوئے اور دانش مندی کا تبادلہ کیا۔

ڈیلوئٹ چائنا بورڈ کی چیئر پرسن جیانگ ینگ نے کہا کہ “چین نے ہمیشہ کثیرالجہتی کی پاسداری کی ہے، ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں تعاون کو فروغ دیا ہے، اور کھلے پن اور ترقی کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی معیشت میں ایشیا کے حصے میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ فورم کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق 2025 میں ایشیا کی معاشی ترقی 4.5 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے اور دنیا میں ایشیا کی کل جی ڈی پی کا حصہ بڑھ کر 48.6 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔

یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ایشیا عالمی ترقی کا “پاور ہاؤس” اور “اسٹیبلائزر” رہے گا۔ ان میں سے ایشیا کی سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے چین نے اپنے “استحکام” کے ساتھ عالمی “تبدیلیوں” کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت کوششیں کی ہیں، جسے شرکاء نے وسیع پیمانے پر تسلیم کیا ہے۔رشین اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف چائنا اینڈ ماڈرن ایشیا کے ڈائریکٹر بابیف نے کہا کہ “گلوبل ساؤتھ”عالمی معیشت کا نیا مرکز بن رہا ہے جس میں چین کا کردار اہم ہوتا جا رہا ہے ، “کیونکہ چین نے ہمیشہ آزاد معیشت اور بین الاقوامی تجارت کے کھلنے کی حمایت کی ہے ، اور متعدد اقدامات پیش کیے ہیں جو زیادہ تر ممالک کے لئے بہت پرکشش ہیں”۔ایک ایسے وقت میں جب یقین کا عنصر عالمی دنیا میں نایاب ہو تا جا ر ہا ہے ، چین وہ ملک ہے جو اپنے دروازے دنیا کے لئے کھولتا جا رہا ہے جس سے یہ امید ہے کہ دنیا میں استحکام پیدا ہو گا اور چین ہمیشہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ایک پسندیدہ مقام اور جیت جیت تعاون کا ایک مرکز رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ’قومی یکجہتی مشترکہ ذمہ داری ہے‘  عیدالفطر کی مبارکباد کیساتھ صدر و وزیراعظم کاقوم کے نام پیغام
  • تھرپارکر، یوم القدس پر مشترکہ شیعہ تنظیموں کی احتجاجی ریلیاں
  • خوش قسمت مسلمانوں نے شوال مکرم کا چاند دیکھ لیا
  • سی ایم جی کی ’’ساؤتھ چائنا سی اسٹڈیز ایکسپرٹ کمیٹی‘‘ کا قیام اور ’’ساؤتھ ایسٹ ایشیا میں ساؤتھ چائنا سی پرسیپشنز رپورٹ ‘‘کا اجراء
  • بوآؤ میں دنیا کو چین کی ’’کشش ‘‘دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا، چینی میڈیا
  • چین ایشیا اور دنیا کے لئے ترقی کا انجن ہے، پاکستانی سفیر
  • سندھ حکومت کا فوری مشترکہ مفادات کونسل اجلاس بلانے کیلئے وفاق کو خط
  • سمندر کے راستے یورپ بھجوانے میں ملوث ملزم سمیت 4 انسانی اسمگلرز گرفتار
  • ہائی نان میں بوآؤ فورم برائے ایشیا کی سالانہ کانفرنس 2025 کا آغاز