فیروز خان کا اہلیہ ڈاکٹر زینب سے ملاقات کا دلچسپ انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
فیروز خان پاکستان کے ورسٹائل اداکاروں میں شمار کیے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنے کیریئر میں کئی کامیاب ڈرامے دیے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں خانی، عشقیہ، خدا اور محبت، رومیو ویڈز ہیر اور حبس شامل ہیں جن کی بدولت انہوں نے نہ صرف مقبولیت حاصل کی بلکہ ٹیلی ویژن انڈسٹری میں اپنی الگ پہچان بھی بنائی۔ ان کی اداکاری کو مداحوں کی جانب سے بے حد پسند کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اپنے کرداروں میں جان ڈالنے کے لیے مشہور رہے ہیں فیروز خان کی ذاتی زندگی بھی خبروں کی زینت بنی رہی ہے ان کی پہلی شادی سیدہ علیزہ کے ساتھ ہوئی تھی، جس سے ان کے دو بچے بھی ہیں لیکن کچھ عرصے بعد دونوں نے علیحدگی اختیار کر لی علیحدگی کے بعد ان کی نجی زندگی پر کافی چہ مگوئیاں ہوئیں، تاہم اب وہ ڈاکٹر زینب کے ساتھ خوشحال ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں ان کی دوسری شادی کی خبریں بھی کافی وائرل ہوئیں اور سوشل میڈیا پر ان کے مداحوں نے انہیں مبارکباد پیش کی جبکہ کچھ افراد نے ان کے ماضی کو لے کر تنقید بھی کی حال ہی میں برطانیہ میں ایک مقامی ایوارڈ تقریب میں شرکت کے دوران فیروز خان نے میڈیا سے گفتگو کی جہاں انہوں نے اپنی دوسری شادی کے بارے میں کھل کر بات کی اور بتایا کہ ان کی ملاقات ڈاکٹر زینب سے کیسے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ زینب ان کی معالج تھیں اور ان کا دل کا علاج کر رہی تھیں، لیکن اب وہ ان کے مالی معاملات یعنی بلوں کی بھی "ڈاکٹر" بن چکی ہیں ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور مداحوں نے اسے دلچسپ انداز میں لیا انہوں نے اپنی اہلیہ کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا کہ زینب نہ صرف ایک خوبصورت خاتون ہیں بلکہ وہ ہر اچھے اور برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ اللہ کے شکرگزار ہیں کہ انہیں اتنی اچھی شریک حیات ملی جو ہر لمحے ان کے ساتھ ہوتی ہیں اور ان کا مکمل ساتھ دیتی ہیں فیروز خان کے اس انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا کچھ مداحوں نے ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی جبکہ کچھ افراد نے ان کے ماضی کو یاد دلاتے ہوئے تنقید کی۔ ان کے بیانات پر میمز بھی بنائی جا رہی ہیں، جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں تاہم، فیروز خان ان دنوں اپنی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کر چکے ہیں اور اپنی ازدواجی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے کیریئر پر بھی توجہ دے رہے ہیں
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر فیروز خان انہوں نے کے ساتھ
پڑھیں:
ذکر ایک پیکر اخلاق مسیحا کا
انسان کتنا ہی تن و مند اور توانا ہو ساٹھ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کے قوی مضمحل ہوجاتے ہیں، شخصیت کی ہوش ربائی اور کشش زوال آسا ںہونے لگتی ہے ،وہ جتنا بھی سحر انگیز ہو ،یہ عمر اس کا طلسم زائل کرنا شروع کر دیتی ہے ، وہ اپنے آپ کو ماضی میں تلاش کرنے کے ایک ناسٹالجیا میں تو مبتلا ہوسکتا ہے مگر گزرے ہوئے کسی ایک لمحے کو بھی واپس لانے کی قدرت سے عاری ہوتا ۔اس کا وجود دھیرے دھیرے مختلف نوعیت کی بیماریوں کی آماجگاہ بنتا چلا جاتا ہے ۔ پھر جہاں اسے اپنوں کی دلداری اور وفا شعاری کی ضرورت ہوتی ہے وہیں ایک اچھامعالج بھی اس کے درد کا درماں ہوتا ہے۔میں خود اب اس عمر کو پہنچ گیا ہوں جہاں اور ضرورتوں کے ساتھ ایک مخلص ڈاکٹر بھی میری زندگی کا لازمہ بن گیا ہے۔بارہ برس قبل شوگر نام کے مرض جسے ڈاکٹر حضرات کوئی بیماری نہیں بلکہ ” Life style “گردانتے ہیں ، نے مجھے اپنے نرغے میں لے لیا ۔اتفاق ہسپتال کے شعری ذوق رکھنے والے آصف قادری میرے پہلے معالج ٹھہرے ، وہ بہت اچھے انسان ،ہمدرد مسیحا تھے۔یوں بھی ایک اچھا ڈاکٹر ہر معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے ،اس کے کندھوں پر ایک انسانی زندگی کی صحت و سلامتی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ایک کامیاب معالج وہ ہوتا ہے جو ایک مثالی انسان ہو ،حسن سلوک اس کی پہلی ترجیح ہو ،بے لوث ہمدردی کا پیکر ہو اور یہ سب اوصاف میرے پہلے معالج ڈاکٹر آصف قادری میں موجود تھے ۔
میں گزشتہ دس سال ان کی طبی مہارتوں سے استفادہ کرتا رہا ۔مگر 64 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے میں لاہور کے سفر سے تھک گیا ۔آخر میں نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنے شہر ملتان ہی میں ایک مسیحا پا ہی لیا ۔میڈیکل سائنس سرعت رفتاری سے ترقی کے سفر پر گا مزن ہے ۔وہ ڈاکٹر جو ترقی کی اس رفتارکے ساتھ چل سکتا ہے منزل اسی کی ہے ۔نئی تحقیقات اور دریافتوں سے آگہی اور جدید میڈیکل ریسرچ کا خوگر معالج ہی اب مریضوں کا موثر علاج کرسکتا ہے ۔جو طب کے پیشے کو فقط اپنی معاشی حالت کو خوشحال بنانے کا ذریعہ تصور نہ کرتا ہو بلکہ اپنی ایک عظیم ذمہ داری سمجھتا ہو ۔جو مریض کی علامات کی صحیح تشخیص کرنے کی بھر پور قدرت رکھتا ہو۔جسے کسی بھی مشکل صورت حال میں جذباتی ہونے کی بجائے پیشہ ورانہ سنجیدگی اختیار کرنے کا فن آتا ہو۔جو مریضوں کے تلخ رویئے یا تکلیف دہ حالت میں صبر اور تحمل کرنا جانتا ہو۔
مریض کو ایک الگ فرد اور انسان سمجھ کر اس کے ساتھ شفقت کا سلوک کرنے کے جذبے سے سرشار ہو۔سب سے بڑھ کر یہ کہ نئی طبی ایجادات اور تیکنیکی مہارتوں پر دسترس رکھتا ہو۔میں دس بارہ سال ایک ہی قسم کی ادویات کے ذریعے اپنی شوگر سے لڑتا رہا مگر میں اپنے شہر ملتان کے ایک ڈاکٹر صلاح الدین محمود رند کی دہلیز پر پہنچا تو ان کی اجلی شخصیت نے پہلی نظر میں ان کے اعلیٰ با صلاحیت اور جن اوصاف کا حوالہ دیا ان کے اندر ان سارے اوصاف کا ادراک ایک جھلک میں میرے مشام جاں میں نفوذ کرگیا (بحیثیت ایک استاذ کسی نوجوان کے روشن چہرے سے اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لینا کوئی مشکل نہیں ہوتا) سرخ سپید رنگت والے خوشخط چہرے کے حامل ڈاکٹر صلاح الدین محمود رند جنہوں نے ایم سی پی ایس ہی نہیں کیا بلکہ امریکہ سے MD MedicineMSPH,CHPE کیا ہے ۔35 سالہ یہ بلوچ نوجوان اتنی سی عمر میں ’’رائل کالج آف فزیشنز کا ممبر بھی ہے۔میں جو شوگر سے اپنی دس بارہ سالہ نبرد آزمائی کے بعد ان تک رسائی پاسکا تھا اور طویل عر صے میں اپنی بیماری کے بارے میں جدید تیکنیکی حوالوں سے آگہی رکھتا ہوں میری ساری جانکاریاں ان کی جدید ترین معلومات کے سامنے ایک ذرے کی حیثیت رکھتی تھیں۔
سچی بات یہ ہے کہ نوجوان ڈاکٹر صلاح الدین رند نے مجھے اپنی شوگر کے بارے میں جدید ترین معلومات سے متعلق حیرت میں ڈال دیا اور یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں روز نت نئی ایجادات اور دریافتیں ہو رہی ہیں اس لئے ایک طویل عرصہ ایک ہی قسم کی ادویات پر انحصار کار زیاں ہے، ذیابیطس کے مریض کو ہردو ماہ بعد اپنی ادویات تازہ ترین چیک اپ کی روشنی میں تبدیل کر لینی چاہئیں۔اللہ اس نوجوان ڈاکٹر کو عمر خضر عطا فرمائے جو اپنے مریض کی آدھی سے زیادہ بیماری کا ازالہ اپنے حسن اخلاق ہی سے کر دیتا ہے۔