یکجہتی کمیٹی یا بی ایل اے کی بی ٹیم!
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
حقوق کی آڑ میں دہشت گردی کا سلسلہ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ نے دہشت گرد گروہ کا بھیانک چہرہ عوام پرواضح کر دیا ہے۔ عالمی سطح پہ کالعدم بی ایل اے کی مجرمانہ کاروائی کو دہشت گردی قرار دے کر پاکستان کی ریاستی موقف کی تائید کی جا رہی ہے۔ دنیا میں واحد ملک بھارت ہے جہاں بی ایل اے کی دہشت گردی پر جشن مسرت منایا گیا ۔بھارتی ایجنسیوں کے تابع انڈین چینلز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نہتے پاکستانیوں کےقتل پر خوشیاں منائی گئیں۔ بھارت نے سرکاری سطح پر بھی اس دہشت گردی کی مذمت سے گریز کیا ۔بی ایل اے کی بھارتی سرپرستی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے ؟اندرونی محاز پر بھی کالعدم بی ایل اے کی دہشت گردی پر پردہ پوشی کرنے والے عناصر بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ بلوچ حقوق کا راگ الاپنےوالی ڈاکٹر ماہ رنگ کی زبان سے بے گناہ مقتولوں سے اظہار ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا ۔ٹرین ہائی جیکنگ جیسے سنگین دہشت گرد حملے کی مذمت سے گریز کا کیا مطلب نکلتا ہے ؟صاف ظاہر ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا پلیٹ فارم بھارت کے ریاستی ایجنڈے پر کاربند ہے۔ مودی سرکار کے نقش قدم پر چل کر شعلہ بیان لیڈی ڈاکٹر نےنہ تو بی ایل اے کی دہشت گردی کی مذمت کی اور نہ ہی بے گناہ شہداء کے لواحقین کے لیے ہمدردی کا کوئی جملہ بولا ۔معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا ۔اگلے مرحلے میں کالعدم بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف بننے والی فضا تبدیل کرنے اور عوام کی توجہ منتشر کرنے کے لیے نام نہاد یکجہتی کمیٹی نے شورش زدہ صوبے میں احتجاجوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بلوچ حقوق کے نام نہاد علمبردار کالعدم بی ایل اے کے سیاہ کرتوتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مظلومیت کارڈکھیل رہے ہیں ۔بلوچستان کی پسماندگی کو دہشت گردی کا جواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔کیا اس دلیل کو بنیاد بنا کر جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ کے عوام بے گناہ بلوچوں کا خون بہانے کے مجاز ہو سکتے ہیں ؟ہرگز نہیں! غربت اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے سیاسی حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کا آئینی راستہ موجود ہے۔ نام نہاد یکجہتی کمیٹی کی شعلہ بیاں ڈاکٹر صاحبہ نا اہل حکمرانوں کو بیدار کرنے کی بجائے جن ریاستی اداروں پر دشنام طرازی کر رہی ہیں وہ تو خود دہشت گردی کا شکار بن کر شہادتیں پیش کرہےہیں۔ گمشدہ افراد کے معاملے پر واویلا مچانے والے عناصر دلیل اور منطق کی زبان میں گفتگو سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟وزیراعلی بلوچستان اور عسکری ترجمان کی پریس کانفرنس میں پیش کیے گئے اعداد و شمار گمشدہ افراد کے معاملے کو سمجھنے میں بہت مدد دے سکتے ہیں۔ اس پہلو پر بھی توجہ درکار ہے کہ کالعدم گروہ بی ایل اے اور اس کے بدنام زمانہ مجید بریگیڈ کی صفوں میں دہشت گردی کی تربیت پانے والے ہرکاروں کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔روپوش دہشت گرد سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں میں تخریب کاری کی تربیت حاصل کرتے رہتے ہیں ۔جبکہ نام نہاد حقوق کے علمبردار اور یکجہتی کمیٹی کے کامریڈ گمشدہ افراد کا واویلا مچا کر ریاست پر کیچڑ اچھالتے ہیں ۔یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی دراصل کالعدم بی ایل اے کی وکیل صفائی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ریاست مخالف سوچ، آئینی طرز سیاست سے گریز اور دہشتگردی کے واقعات کی پردہ پوشی جیسے چشم کشا رویے سے یہ ثابت ہوتاہےکہ بی ایل اے اور بی وائے سی دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔یکجہتی کمیٹی کی سوچ پہ بدترین لسانی تعصب غالب ہے۔ ماضی میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے غریب پنجابی مزدوروں کے حق میں ڈاکٹر ماہ رنگ کی زبان سے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا ۔دہشت گردی کے حوالے سے موصوفہ کا اپنا خاندانی پس منظر بھی شفاف نہیں۔ ڈاکٹر ما ہ رنگ کے والد اپنے نام کے ساتھ لانگو لگاتے تھے اور کالعدم بی ایل اے کے گروہی تنازعےمیں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ان کی بلوچ شناخت پر کافی اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور ایک موقر جریدے میں اس حوالے سے مفصل مضمون بھی شائع ہوا تھا۔ یہ امرشبےسے بالا ہے کہ کالعدم بی ا یل اے بھارتی ایجنڈے پر کا ر بند ہے اور دہشت گردی کے ذریعے بلوچستان میں عدم استحکام پھیلا رہی ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی حقوق کا واویلا مچا کر بی ایل اے کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے ۔عوامی سطح پر دہشت گردی سے نفرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد اور راولپنڈی کی جامعات میں سانحہ جعفر ایکسپریس کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے ” امن واک “کا اہتمام کیا گیا۔ شرکاء نے دہشت گرد گروہوں کی مذمت کرتے ہوئے ریاست دشمن عناصر کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ کیا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بی ایل اے کی دہشت گردی کالعدم بی ایل اے کی یکجہتی کمیٹی کالعدم بی ا نام نہاد گردی کے رہے ہیں کی مذمت رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
افغان حکومت کے سامنے دہشت گردی کا مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ
پاکستان نے وزارت خارجہ کے ذریعے افغانستان حکومت کے سامنے دہشت گردی کا مسئلہ موثر طریقے سے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی نے کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی کو فیصلے سے آگاہ کردیا اور کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے وزیراعظم، آرمی چیف اور تمام اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کےلیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی تنظیم نو کے بعد اسے نیشنل ریزرو پولیس میں تبدیل کیا جارہا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ نیشنل انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسسمنٹ سینٹرز کے قیام کی منظوری دی جا چکی ہے، صوبوں میں کام جاری ہے۔