امریکا سے بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار، ایران نے ٹرمپ کے خط کا جواب دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
ایران نے عمان کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کا جواب بھیجا ہے جس میں انہوں نے تہران سے نیا جوہری معاہدہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ کہا گیا ہے کہ ہماری پالیسی اب بھی یہ ہے کہ دباؤ اور فوجی دھمکیوں کے تحت براہ راست مذاکرات میں حصہ نہ لیا جائے، تاہم ماضی کی طرح بالواسطہ مذاکرات جاری رکھے جا سکتے ہیں۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی IRNA کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر نے کہا ہے کہ تہران امریکا کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہے تاکہ دوسری طرف کا جائزہ لیا جا سکے، اپنے شرائط پیش کی جا سکیں، اور مناسب فیصلہ کیا جا سکے۔
رواں ماہ 7 مارچ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے جس میں نئے جوہری مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ایران کی انکار کی صورت میں ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ یہ خط 12 مارچ کو امارات کے صدارتی مشیر انور گرگاش کے ذریعے تہران پہنچایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران کا اقوام متحدہ کو خط، ٹرمپ کے بیان کو بے بنیاد قرار دیدیا
خامنہ ای، جو ایران کے تمام ریاستی معاملات پر حتمی فیصلہ کرتے ہیں، نے ٹرمپ کے پیغام کو مسترد کرتے ہوئے انہیں عالمی عوامی رائے کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا، تاکہ امریکا کو بات چیت کے لیے تیار دکھایا جا سکے اور ایران کو رکاوٹ کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
عراقچی نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ ٹرمپ کا خط ایک دھمکی تھا۔ لیکن اس میں مواقع کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ ہم نے خط کے تمام نکات پر غور کیا اور اپنے جواب میں دھمکی اور موقع دونوں کو مدنظر رکھیں گے۔
خرازی جو سابق وزیر خارجہ ہیں، نے ٹرمپ انتظامیہ پر ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ چھیڑنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہم آج امریکی حکومت کے رویے میں دیکھتے ہیں وہ ایک نفسیاتی جنگ ہے۔ امریکی حکام کے متضاد پیغامات کے ذریعے ‘جنگ یا مذاکرات’ کا بیانیہ پیش کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایران جوہری معاہدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ عباس عراقچی عراقچی عمان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایران جوہری معاہدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ عباس عراقچی عراقچی ٹرمپ کے کے لیے جا سکے
پڑھیں:
وائس آف امریکا سے عملے کی جبری برطرفی، جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو روک دیا
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وائس آف امریکا کے عملے کی جبری برطرفی کے معاملے پر ایک وفاقی جج نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جمعہ کے روز ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کی آٹھ دہائیوں پرانی امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی بین الاقوامی نیوز سروس کو ختم کرنے کی کوششوں کو روک دیا، اور اس اقدام کو ’’من مانی اور غیر معقول فیصلہ سازی کا ایک کلاسیکی کیس‘‘ قرار دیا ہے۔
جج جیمز پال اوٹکن نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو، جو وائس آف امریکہ چلاتی ہے، 1,200 سے زائد صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فنڈنگ میں کمی کے حکم کے بعد دو ہفتے قبل معطل کردیا گیا تھا۔
اوٹکن نے ایجنسی کو ملازمین یا ٹھیکیداروں کو ’’برطرف کرنے، افرادی قوت میں کمی کرنے، چھٹی پر بھیجنے یا جبری چھٹی دینے‘‘ اور کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا بیرون ملک ملازمین کو امریکا واپس آنے کا حکم دینے کی کسی بھی مزید کوشش سے روکتے ہوئے ایک عارضی حکم امتناعی جاری کیا۔
اس حکم میں ایجنسی کو اس کے دیگر نشریاتی اداروں، جن میں ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری ایشیا اور ریڈیو فری افغانستان شامل ہیں، کےلیے گرانٹ فنڈنگ ختم کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ ایجنسی نے جمعرات کو کہا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک جج کے حکم کے بعد وہ ریڈیو فری یورپ کی فنڈنگ بحال کررہی ہے۔
مدعیوں کے وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا، ’’یہ پریس کی آزادی اور پہلی ترمیم کےلیے ایک فیصلہ کن فتح ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ کے ان اصولوں کی مکمل بے اعتنائی کی سخت مذمت ہے جو ہماری جمہوریت کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘
مین ہٹن میں جمعہ کو ہونے والی سماعت میں، اوٹکن نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’’کانگریس کی طرف سے قانونی طور پر مجاز اور مالی اعانت سے چلنے والی ایجنسی کو توڑنے‘‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اوٹکن نے وائس آف امریکا کے صحافیوں، مزدور یونینوں اور غیر منافع بخش صحافتی وکالت گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے اتحاد کی جانب سے گزشتہ ہفتے کٹوتیوں کو روکنے کےلیے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بعد فیصلہ دیا۔ بالآخر، وہ چاہتے ہیں کہ وائس آف امریکا دوبارہ نشریات شروع کرے۔
مدعیوں نے استدلال کیا کہ شٹ ڈاؤن نے ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے دوران عدالت کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے کہ وائس آف امریکا کے صحافیوں کے پاس وائٹ ہاؤس کی مداخلت سے بچانے کےلیے آزادی اظہار کی دیوار ہے۔ ان کی نشریات سے غیر موجودگی نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے جسے ’’پروپیگنڈہ کرنے والے بھر رہے ہیں جن کے پیغامات عالمی نشریات پر اجارہ داری قائم کریں گے‘‘۔
ٹرمپ اور دیگر ریپبلکنز نے وائس آف امریکا پر ’’بائیں بازو کے تعصب‘‘ اور اس کے عالمی پڑھنے والوں کے سامنے ’’امریکا نواز‘‘ اقدار کو پیش کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے، حالانکہ کانگریس نے اسے غیر جانبدار نیوز آرگنائزیشن کے طور پر کام کرنے کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے 14 مارچ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں ایجنسی فار گلوبل میڈیا اور چھ دیگر غیر متعلقہ وفاقی اداروں کے فنڈنگ میں کمی کی گئی، اس کے فوراً بعد وائس آف امریکا کی نشریات بند ہوگئیں۔ یہ ان کی حکومت کو سکڑنے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کرنے کی مہم کا حصہ تھا۔ ٹرمپ نے اس مہینے نیوز ایجنسیوں، بشمول ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ وائس آف امریکا کے معاہدے بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔
کانگریس نے موجودہ مالی سال کےلیے ایجنسی فار گلوبل میڈیا کےلیے تقریباً 860 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔