ہائیکورٹ کا بنچ قائم مقام چیف جسٹس کی کورٹ کا ماتحت نہیں: جسٹس اعجاز اسحاق
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت سے زیرسماعت کیس دوسرے بنچ کو منتقل کرنے پر توہینِ عدالت ازخود کیس میں عدالتی معاون کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت طلب کر لی۔ عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور دیگر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کیا، حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت پر آفس نے قائم مقام چیف جسٹس کا 17 مارچ کا آرڈر ریکارڈ پر لایا، عدالت نے آرڈر کو سمجھنے کیلئے ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کی درخواست کی۔ چیف جسٹس کے آرڈر کے پہلے پیرا کے مطابق درخواست گزار نے ٹرانسفر کی اپنی استدعا پریس نہیں کی۔ آرڈر کے دوسرے پیرا سے ایسا لگتا ہے کہ درخواستیں یکجا کر کے ٹرانسفر کا ریلیف دے دیا گیا۔ ظاہری بات ہے کہ کیس ٹرانسفر کیے بغیر یکجا نہیں کیے جا سکتے تھے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے تحریر کیا کہ شاید میں آرڈر درست نہیں پڑھ رہا، شاید اسے پڑھنے کا کوئی اور طریقہ ہو، ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر معاونت کریں، عدالت نے تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے سی پی سی کی سیکشن 24 کی درخواست دائر کی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ لیکن اعتراف کر لیا کہ سیکشن 24 کی درخواست بنتی ہی نہیں تھی، ہائیکورٹ کا بنچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کی ماتحت عدالت نہیں، رجسٹرار آفس نے اسی وجہ سے یہ درخواست اعتراض کے ساتھ چیف جسٹس کے سامنے مقرر کی۔ چیف جسٹس کے لارجر بنچ بنانے کے آرڈر میں دکھائی نہیں دے رہا کہ اعتراض دور کرنے کی وجوہات لکھی گئی ہوں، اعتراض دور کرنے کی وجوہات تحریر نہ کرنا بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے پریکٹس اور پروسیجر کے خلاف ہے۔ شفافیت کیلئے بالخصوص درخواست قابلِ سماعت ہونے سے متعلق اعتراضات دور کرنے کی وجوہات تحریر کی جاتی ہیں۔ آفس کے تجربہ کار جوڈیشل افسران ناقابلِ سماعت درخواستیں کیلئے پہلے فلٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، آفس کے اعتراضات کو زیرغور لا کر جج کو انہیں دور کرنے کی وجوہات تحریر کرنی چاہئیں۔ عدالت سے زیرسماعت کیس واپس لینے کی فی الحال کوئی قانونی نظیر پیش نہیں کی جا سکی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے لاہور ہائیکورٹ رولز کی بنچز کی تشکیل سے متعلق ایک شق بتائی لیکن وہ غیرمتعلقہ ہے۔ وکلاء عدالت کی معاونت کریں اور عوام بھی اس کیس پر نظر رکھیں، یہ کیس ایک سیاسی جماعت کے لیڈر سے متعلق نہیں بلکہ ہر کیس پر اپلائی ہونے والے اصول کا ہے یہ کیس چیف جسٹس کے کسی بھی جج سے انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے کیس ٹرانسفر کرنے کے اختیار سے متعلق ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کا شکریہ کہ انہوں نے واضح طور پر عدالتی آداب کا خیال کیا، توہینِ عدالت کیس میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ جس جج کے آرڈر کی توہین ہو اس سے اچھا جج کوئی نہیں کر سکتا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: دور کرنے کی وجوہات قائم مقام چیف جسٹس ایڈووکیٹ جنرل چیف جسٹس کے عدالت کی
پڑھیں:
اسحاق ڈار 22 اپریل کو تاریخ ساز دورے پر بنگلا دیش پہنچیں گے
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اپریل کے تیسرے ہفتے میں بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے، یہ 2012 کے بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ اور دوطرفہ روابط کے حوالے سے ایک تاریخی پیشرفت ہے۔
حنا ربانی کھر بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والی آخری وزیر خارجہ تھیں، انہوں نے شیخ حسینہ کو ڈی 8 سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے کیلئے یہ دورہ کیا تھا۔
شیخ حسینہ دور میں دونوں ملکوں کے روابط سرد مہری کا شکار رہے، روابط میں بہتری کی پاکستانی کوششوں کا شیخ حسینہ نے کبھی جواب نہ دیا۔
گزشتہ سال پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی معزولی سے دوطرفہ روابط میں قابل ذکر بہتری دیکھنے میں آئی، اعلیٰ سطحی رابطے بحال ہوئے۔
بنگلہ دیش نے پاکستانی برآمدات پر پابندیاں اٹھا لیں، تجارت میں اضافہ ہوا، سمندری راستے سے براہ راست تجارت شروع ہوئی، براہ راست پروازوں پر اتفاق ہوا، دوطرفہ دفاعی روابط بھی مضبوط ہوئے۔
جنوری میں بنگلہ دیش کے اعلیٰ فوجی حکام نے پاکستان کا دورہ کیا جوکہ شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد روابط میں ایک بڑی پیشرفت ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسحاق ڈار22 اپریل کو تین روزہ دورے پر بنگلہ دیش پہنچیں گے جس میں وہ بنگلہ دیش کے عبوری چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات کے علاوہ ہم منصب توحید حسین اور بنگلہ دیشی کابینہ کے ارکان سے باضابطہ مذاکرات کریں گے، اس دوران متعدد ایم او یوز اور معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔