Express News:
2025-03-30@23:50:44 GMT

حکومت اچھا کر رہی کہ صوبوں کو بھی آن بورڈ لے رہی ہے

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس نیوزایازخان کا کہنا ہے کہ ہمیں الٹی میٹ دہشت گردی کا سامنا ہے، حالات اتنے زیادہ بہتر ہو گئے تھے کہ اس کے بعد لگتا تھا کہ شاید اس ملک میں کبھی دہشت گردی تھی نہیں اب اس نے پھر سر اٹھا لیا ہے، وہ کہتے ہیں نہ کینسر دوبارہ ہو جائے تو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے. 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دہشت گردی پر آپ نے قابو پالیا یہ پھر ہو گئی.

 

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ یہ تو ریاست کے کرنے کے فیصلے ہیں کہ اسٹیٹ ہارڈ ہونی چاہیے یا سوفٹ ہونی چاہیے، ریاست بہتر سمجھتی ہے کہ اس وقت جو حالات ہیں اس میں کس حد تک سختی کرنی چاہیے،کس کے خلاف کرنی چاہیے اور کیوں کرنی چاہیے، فیصلہ سازوں کو دیکھنا ہوگا کہ پالیسی سازی کی جو ایگزیکیوشن ہے وہ درست انداز میں ہو رہی ہے یا نہیں ہو رہی. 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا ہارڈ سٹیٹ کا کنسیپٹ بنیادی طور پرہشت گردوں کے خلاف آرمی چیف نے جو دیا تھا پھر وہیں پہ یہ ہوا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان ٹو بنایا جائے، ویسے تو یہ تھری بنے گا، نواز شریف دور میں نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اور پھر اس کو ریویو کیا گیا تھا، حکومت اچھا کر رہی ہے کہ صوبوں کو بھی آن بورڈ لے رہی ہے. 

اصل ایشو یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردی کو ٹیکل کرنا ہے اور اس میں مشاورت بہت ضروری ہے، تجزیہ کار شکیل انجم نے کہا کہ ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ ہارڈ اسٹیٹ کے کنسیپٹ کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ کیوں یہ اعلانات کیے جا رہے؟، ایک تو میرا خیال ہے کہ سب سے بڑا جومسئلہ اس وقت ہمارے ملک کو درپیش ہے وہ دہشت گردی ہے، آج بھی دیکھیں کہ کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں دہشتگردی کے کتنے سارے واقعات ہو گئے ہیں.

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ ہارڈ اسٹیٹ بالکل جی، وقت کے مطابق ضرورت ہے کہ اس وقت جو فیصلے کیے جائیں تاکہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے، دو صوبوں میں تو یہ بہت شدید ہے، اس بارے میں پتہ بھی ہے کہ بارڈر پار سے ساری سرگرمیاں ہو رہی ہیں دہشت گردی کے لیے، وہاں سے جو بھی ہے ہدایات اور جو بھی ملوث ہیں انٹیلی جنس اداروں نے نشاندہی کردی ہے اور اس بارے میں دیکھ لیا ہے سارا، اب ظاہر ہے کہ اس کو روکنا تو ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ رہی ہے

پڑھیں:

ریاستی بحران اور سیاسی حکمت عملیاں

پاکستان کا بحران غیر معمولی ہے۔اس غیرمعمولی صورتحال کا نہ صرف ہمیں گہرائی سے ادراک ہونا درکار ہے بلکہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس میں بھی طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کو بھی ہر صورت برتری حاصل ہونی چاہیے۔جو بھی بحران ہے وہ محض آج کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اس بحران تک پہنچنے میں ہمیں کئی دہائیاں لگی ہیں اور اس میں تمام ہی حکومتوں سمیت دیگر فریقین بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔

موجودہ حالات پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز سے ایک ذمے دار کردار کی توقع رکھتے ہیں۔کیونکہ اگر ہم نے اپنے معاملات میں درست سمت میں درستگی نہ کی تو اس سے معاملات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہو سکتے۔ ہیں۔طاقت کا استعمال یقینی طور پر ایک حکمت عملی کے طور پر موجود ہوتا ہے۔لیکن یہ آخری حربے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اور اس سے قبل سیاسی راستہ ہی اختیار کرنا ہماری ترجیح ہونا چاہیے تاکہ مفاہمت کا راستہ بھی سامنے آسکے ۔سیاسی راستے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ واپسی کا راستہ دیتا ہے اور تمام مفاہمتی راستوں کے دروازوں کو بند کرنے کے بجائے کھولنے کا سبب بنتا ہے۔

اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ واقعی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی سازشوں کا شکار ہیں۔ ان صوبوں کے حالات کی درستگی اور وہاں امن کا قائم ہونا لازم ہے۔پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے کئی طرح کے آپریشن کیے اور اس میں سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔یہاں تک کہ نیشنل ایکشن پلان جو 20 نکات پر مشتمل تھا وہ بھی سامنے آیا۔اس نیشنل ایکشن پلان میں سیاسی اور عسکری قیادت نے دیگر فریقین کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی بھی تیارکی مگر اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جو بطور ریاست ہمیں درکار تھے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کسی بھی طرح کے آپریشن وقتی طور پر یقینی طور پر کچھ بہتر نتائج دیتے ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں ہوتے۔مستقل حل ریاستی اور حکومتی سطح پر سیاسی بنیادوں پر تلاش کیے جاتے ہیں ۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں سرکاری ملازمین اور انتظامی افسران کو وارننگ دی ہے کہ وہ حالات کو کنٹرول کریں یا گھر چلے جائیں۔ اس سے لگتا ہے کہ سرکاری مشینری میں بھی مسائل ہیں۔

خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کا پہلو نمایاں ہے اور اس میں جہاں داخلی مسائل ہیں وہیں ہمیں علاقائی مسائل بھی درپیش ہیں۔ پچھلے دنوں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف نے گورننس کے معاملات سے جڑے مسائل پر کھل کر بات کی اور ان کے بقول ہمیں اپنا گورننس کا ماڈل تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حالات کی درستگی گورننس کے تناظر میں کیسے ہوگی اور کون کرے گا۔کیونکہ پاکستان کی مجموعی گورننس پر کئی طرح کے سنجیدہ سوالات ہیں ۔

پاکستان اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک بڑے قومی بیانیہ کی تلاش میں ہے۔وہ بیانیہ جس میں ایک بڑا قومی اتفاق رائے ہر سطح پرنظر آنا چاہیے اور اس اتفاق رائے میں کسی بھی سطح پر کوئی بڑی سیاسی اور مذہبی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ہمارے موجودہ حالات میں سیاسی تقسیم کا پہلو بہت گہرا ہے اور یہ مسئلہ خود ایک بڑے اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

کیونکہ ہم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں سیاسی مسائل کو حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے اور سیاسی مسائل کی موجودگی خود ایک بڑے سیاسی بحران کا سبب بن رہی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے ہمیں زیادہ بحران کا سامنا ہے اور وہاں جو بیانیہ دہشت گردی کے تناظر میں بنایا جا رہا ہے وہ ریاستی مفاد کے برعکس ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات کی ہے کہ قومی میڈیا میں بھی بگاڑ ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے عملا ہمیں ایک مضبوط میڈیا درکار ہے جو قومی بیانیے کی تشکیل میں ایک مثبت کردار ادا کرسکے۔

اسی طرح ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنا کسی حکومت یا ادارے کے بس کی بات نہیں ،اس کا علاج تمام فریقین کی باہمی مشاورت اور باہمی عمل درآمد کے نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم حالات کی نزاکت کا احساس کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر ہم نے درست حکمت عملیاں اختیار نہ کیں تو معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارا درست سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہی پاکستان کی ریاست اور عوام کے مفاد میں ہے۔ہمیں ریاستی نظام میں لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ریاست خود لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • ریاستی بحران اور سیاسی حکمت عملیاں
  • بلاول بھٹو کی ثالثی
  • دہشت گردی اور صوبے
  • افغان حکومت کے سامنے دہشت گردی کا مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ
  • بانی پی ٹی آئی کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے ان کا دور حکومت اچھا نہیں تھا،شاہد خاقان عباسی
  • پاکستان کا افغان حکومت کے سامنے دہشتگردی کا مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ
  • پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر
  • بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے اپوزیشن کو بھی دعوت دی ہے، حکومت
  • یکجہتی کمیٹی یا بی ایل اے کی بی ٹیم!
  • وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس،دہشت گردی کے خلاف حکومت کا دو ٹوک مؤقف