Express News:
2025-03-30@23:45:53 GMT

پاکستان افغانستان تعلقات کا چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ایک پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔دونوں اطراف میں ہمیں بد اعتمادی کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ۔پاکستان میں افغانستان سے تعلقات کے تناظر میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔اول، ہمیں معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور اگر ہمیں طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔

دوئم، ہمیں افغانستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے مذاکرات ہی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت افغانستان سے تعلقات میں بگاڑ یا جنگی ماحول کا پیدا ہونا کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔حال ہی میں پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے جو خارجی عوامل ہیں ان میں افغانستان سمیت  بھارت سرفہرست ہے ۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکومت کسی بھی طور پر اس نقطہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی سرزمین عملا پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے یا کالعدم تحریک طالبان جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں افغان حکومت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ پاکستان تواتر کے ساتھ افغان حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی سے تمام جڑے مسائل کا تبادلہ کر رہا ہے لیکن افغان حکومت کی جانب سے اس تناظر میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی پاکستان کی بات کو تسلیم کیا جا رہا ہے جو تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

پاکستان افغانستان کے تعلقات کے تناظر میں دو بڑی اہم پیش رفت حالیہ دنوں میں ہوئی ہیں۔ اول، امریکی وفد کا دورہ کابل جس میں ان کے خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور زلمے خلیل زاد جیسی شخصیت شامل تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس دورے کا مقصد افغانستان میں قید امریکی شہریوں کی رہائی اور دیگر اہم دو طرفہ امور پر بات چیت کرنا تھا۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ موجودہ صورتحال میں امریکا افغانستان سے براہ راست بات چیت کر رہا ہے اور اس عمل میں وہ پاکستان کی سہولت کاری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

دوئم، امریکی وفد کے دورے افغانستان کے بعد محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد کا دورہ کابل دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو بھی مسائل ہیں ان کو بات چیت کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کی طرف سے اعلیٰ وفود کا تبادلہ بھی ہوگا اور بات چیت کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کی عملا کوشش کی جائے گی۔اچھی بات یہ ہے کہ افغان حکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات میں بہتری پیدا کی جائے اور ٹی ٹی پی کے بارے میں بھی ہمیں پاکستان کے تحفظات پر توجہ دینی ہوگی۔خود پاکستان یہ چاہتا ہے کہ دوحہ مذاکرات ومعاہدے کے تحت افغان حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو اور جو لوگ ٹی ٹی پی کے نام پر پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں ان کے خلاف افغان حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے چاہیے یا پاکستان کے ساتھ مل کرباہمی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات محض دو ملکوں تک محدود نہیں بلکہ ان بہتر تعلقات کا براہ راست اثر جنوبی ایشیا اور خطہ کی سیاست پر پڑے گا۔ پاکستان میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور افغان حکومت کو مختلف انداز میں بھارت کی سہولت کاری بھی حاصل ہے۔سیاسی ومعاشی طور پر مستحکم افغانستان اور مستحکم پاکستان نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطہ کے مفاد میں بھی ہے۔

اس لیے یہ دونوں ملکوں کی ضرورت بنتی ہے کہ وہ آپس کے معاملات میں جو بگاڑ ہے اس کا تصفیہ سیاسی حکمت عملی کے تحت کرنے کی کوشش کریں۔تنازعات،شدت پسندی ،بد اعتمادی اور جنگی ماحول کو اس انداز میں بالادست نہ کیا جائے کہ وہ دونوں ملکوں کے لیے نئے خطرات کو جنم دینے کا سبب بنے۔پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی کا ایک اہم نقطہ یہ ہی ہے کہ وہ تنازعات اور جنگوں کے معاملات میں مزید جنگ کا حصہ بننے کی بجائے افہام و تفہیم کو بنیاد بنا کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا۔اس لیے افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات اور اعتماد سازی کا ماحول ہی پاکستان کے مفاد میں ہے اور یہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ دنوں میں بات چیت کے جو نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں ان سے ہر صورت میں فائدہ اٹھانا ان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور جو بھی سیاسی آپشن بات چیت کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں اس کو اپنی ترجیح کا حصہ بنانا ہماری ضرورت کے زمرے میں آتا ہے۔یقینی طور پر تعلقات کی نوعیت پیچیدہ ہے اور کافی بد اعتمادی کا ماحول بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود تدبر ،فہم و فراست اور بردباری کے ساتھ ہمیں ان معاملات کو آگے بڑھانا ہے۔

کیونکہ اس خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں آتی تو افغان حکومت کا جھکاؤ بھارت کی جانب مزید بڑھ سکتا ہے، جو پاکستان کے لیے مزید نئے خطرات کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ایک طرف پاکستان کو افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں تو دوسری طرف سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر پاکستان کو بڑی طاقتوں سمیت دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنی ہوگی۔

کیونکہ سفارتی اور ڈپلومیسی کی جنگ سیاسی تنہائی میں نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کے لیے ہم جتنا زیادہ دیگر ممالک کو اپنے تحفظات اور معاملات پر اعتماد میں لے سکیں گے یہ ہمارے مفاد میں ہوگا۔ بالخصوص چین ،امریکا اور روس کا کردار اہم ہے۔ امریکا کو بھی باور کروانا ہوگا کہ وہ افغان حکومت پر دباؤ ڈالے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے خلاف افغانستان سے افغان حکومت پاکستان میں کے مفاد میں تعلقات میں ان کے خلاف میں افغان سے تعلقات اختیار کر کے ساتھ بات چیت ہیں ان کے لیے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

بنگلہ دیش کے رہنما محمد یونس کی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) چین کی سرکاری میڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے جمعہ کو بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔

وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیشی ہم منصب کو خط میں کیا لکھا ہے؟

گزشتہ اگست میں اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد جنوبی ایشیائی ملک کے عبوری رہنما کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یونس کا یہ پہلا دو طرفہ سرکاری دورہ ہے۔

اپنی حکومت کے خلاف طلبہ کی قیادت میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں شیخ حسینہ کو عہدہ چھوڑنا پڑا تھا اور پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئیں۔

کیا بنگلہ دیش چین اور روس سے قریب تر ہو رہا ہے؟

بنگلہ دیش اس کے بعد سےسیاسی کشمکش سے دوچار ہے۔

(جاری ہے)

حسینہ کی حکومت کے بھارت کے ساتھ کافی قریبی تعلقات تھے لیکن ان کی برطرفی کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

اس صورت حال نے بیجنگ کو ڈھاکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری میں قریبی تعلقات

جہاں بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور لسانی تعلقات ہیں، چین بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور ایک اہم سرمایہ کار ہے۔

بنگلہ دیش چین کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔

بحر ہند کے مشرقی حصے میں اس کے محل وقوع کا مطلب ہے کہ یہ چینی صدر شی جن پنگ کے اہم بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبے کے لیے مثالی ہے۔ چین کے اس منصوبے کا مقصد دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور تجارتی نیٹ ورکس کے ایک بڑے ڈھانچے کو نافذ کرکے چین کے اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔

بنگلہ دیش، اپنی 172 ملین آبادی کے ساتھ، چین کی برآمدات پر مبنی معیشت کے لیے خطے میں ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے کہا کہ محمد یونس کے دورے کے دوران توقع ہے کہ دونوں فریق اقتصادی اور تکنیکی مدد، ثقافتی اور کھیلوں میں تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان میڈیا تعاون سے متعلق متعدد معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

ادارت: رابعہ بگٹی

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان نے عید الفطر پر ہزاروں قیدی رہا کردیے
  • افغان طالبان نے امریکی خاتون کو رہا کر دیا ، اب کہاں ہے؟ بڑی خبر آ گئی 
  • پاکستان کا افغان حکومت کے سامنے دہشتگردی کا معاملہ بھرپور طریقے سے اٹھانے کا فیصلہ
  • پاکستان کا افغان حکومت کے سامنے دہشتگردی کا مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ
  • افغانستان میں زلمے خلیل زاد کی واپسی ایک نیا گیم پلان جس کا نشانہ پاکستان ہے: برگیڈئیر آصف ہارون
  • افغان طالبان پاکستان کے مخالف کیوں؟
  • بنگلہ دیش کے رہنما محمد یونس کی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات
  • افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے پاکستان کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں:طارق فاطمی کی امریکی تھنک ٹینک سے گفتگو
  • امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف بل دو طرفہ تعلقات کا عکاس نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
  • امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف بل دو طرفہ تعلقات کا عکاس نہیں،دفترِ خارجہ