مہینوں کا سردار رمضان المبارک ہم پر سایہ فگن ہونے کے بعد اب رخصت ہونے کو ہے۔ یہ مبارک مہینہ ہم سے رُوپوش ہوجائے گا۔ سحری کے پُرنور لمحات اور افطاری کی بابرکت ساعات اب ہمیں الوداع کہہ رہی ہیں۔ تراویح جیسی عظیم عبادت ہم سے جدا ہونے کو ہے۔
ایسا مبارک مہینہ ہم سے پردے میں چھپنے والا ہے جس میں روزانہ گناہ گاروں کو بخش دیا جاتا تھا۔ جن مسلمانوں نے اس کی عظیم المرتبت قدر کو پہچانا، وہ اپنے دامن میں کثیر رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے میں کام یاب ہوگئے اور اپنے لیے بخشش کا پروانہ لکھوا لیا۔ انہوں نے اپنی روح کو آلودگی سے پاک کرلیا۔ لیکن جو اس کی قدر و منزلت کو نہیں پہچان سکے اور اس مہینے کو عام مہینوں کی طرح گزارا وہ خیر کثیر سے محروم رہے۔ حالاں کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے آیا تھا۔ نفسانی خواہشات کی نجاست سے پاک کرنے آیا تھا۔
ہماری آلودہ روح کو شفاف کرنے آیا تھا۔ یہ مبارک مہینہ ہمارے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے آیا تھا۔ یہ مہینہ ہمیں عبادت کی لذت دینے آیا تھا۔ ایمان کی حلاوت سے سرفراز کرنے آیا تھا۔ جسمانی نظام درست کرنے آیا تھا۔ ہمارے ذہنی انتشار کو یکسوئی دینے آیا تھا۔ ہمارے خیالات کی پراگندگی کو صاف کرنے آیا تھا۔ تقویٰ کے نُور سے منور کرنے آیا تھا۔ پرہیز گاری کی دولت سے مالا مال کرنے آیا تھا۔ روحانی انقلاب برپا کرنے آیا تھا۔
مجاہدانہ زندگی کا خُوگر بنانے آیا تھا۔ لیکن ہماری بے پرواہی نے ہمیں اس بابرکت مہینے کے فضائل و برکات سے محروم رکھا۔ ہم اس مہینے کے کماحقہ حق ادا نہ کرسکے۔
زمانۂ رسالت ﷺ میں جوں جوں ماہِ رمضان کے ایام گزرتے جاتے، صحابہ کرامؓ کی عبادات میں ذوق شوق بڑھتا جاتا۔ جیسے ہی ماہِ رمضان کی آخری راتیں آتیں تو صحابہ کرام ؓ رب کی بارگاہ میں آنسو بہا کر گڑگڑا تے ہوئے ان مبارک راتوں کو گزارتے۔ رسول اﷲ ﷺ کی تعلیم بھی یہی اور آپؐ کا عمل مبارک بھی یہی تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اﷲ ﷺ کی عبادت میں اضافہ ہوجاتا تو آپؐ خود بھی ان راتوں میں جاگتے اور اہل و عیال کو بھی جگاتے۔
لیکن بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ رمضان المبارک کے آخری ایام رجوع الی اﷲ میں مصروف رہنے کے بہ جائے شاہ راہوں اور بازاروں میں گزار دیتا ہے۔ لوگ نوافل تو کجا فرائض کی پابندی بھی نہیں کرتے۔ گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان المبارک عبادت کا مہینہ نہیں بل کہ شاپنگ اور خرید و فروخت کا مہینہ ہے۔ ہمارے معاشرے نے رمضان المبارک کے پُرنور لمحات کو خوشی و مسرت اور عید و تہوار کا سیزن بنا دیا ہے۔
حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’رمضان کا مہینہ قلبی صفائی کا مہینہ ہے، ذاکرین، صادقین اور صابرین کا مہینہ ہے۔ اگر یہ مہینہ تمہارے دل کی اصلاح کرنے اور تمہیں اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے نکالنے اور جرائم پیشہ لوگوں سے علاحدہ ہونے میں مؤثر نہیں ہوا تو کون سی چیز تمہارے دل پر اثر انداز ہوگی، سو تم سے کس نیکی کی امید کی جاسکتی ہے۔ تمہارے اندر کیا باقی رہ گیا ہے۔ تمہارے لیے کس نجات کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔
نیند اور غفلت سے بیدار ہوکر باقی مہینہ تو توبہ اور اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کے ساتھ گزارو۔ اس میں استغفار اور عبادت کے ساتھ نفع حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جن کو اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی حاصل ہوتی ہے۔ آنسوؤں کے دریا بہا کر اپنے منحوس نفس پر اونچی آواز سے اور آہ زاری کے ساتھ روتے ہوئے اس مہینے کو الوداع کہو کیوں کہ کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جو آئندہ سال روزے نہیں رکھ سکیں گے۔ اور کتنے ہی عبادت گزار ایسے ہیں جو آئندہ عبادت نہیں کرسکیں گے۔ اور مزدور جب کام سے فارغ ہوتا ہے تو اس کو مزدوری دی جاتی ہے اب ہم بھی اس عمل سے فارغ ہوچکے ہیں۔ مگر کاش کہ ہم بھی جان سکتے کہ ہمارے روزے اور قیام مقبول ہوئے ہیں یا نہیں، کاش ہم جان سکتے کہ ہم میں سے کون مقبول ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بہت سے روزہ داروں کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور راتوں کو قیام کرنے میں ان کو صرف بے خوابی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اے رمضان کے مہینے تجھ پر سلام۔ اے بخشش کے مہینے تجھ پر سلام۔ اے ایمان کے مہینے تجھ پر سلام۔ (اے ماہِ رمضان) تو گناہ گاروں کے لیے قید اور پرہیز گاروں کے لیے اُنس کا مہینہ تھا۔ اے اﷲ! ہمیں ان لوگوں میں کردے جن کے روزوں اور نمازوں کو تُونے قبول کیا، ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدلا، انہیں اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمایا اور ان کے درجات بلند کیے۔ آمین۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
خواب غفلت سے بیدار ہوکر اس مہینے کے آخری ایام کو رجوع الی اﷲ میں گزارنے کا وقت ہے۔ نہ جا نے آئندہ سال کون اس مہینے کو پاسکے گا اور کون اس کے سایہ فگن ہونے سے پہلے ہی منوں مٹی تلے خاک میں دبا دیا جائے گا۔ اﷲ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس ماہ کو ہمارے لیے رحمت، مغفرت اور دوزخ سے رہائی کا مہینہ بنا دے، ہمارے دلوں کو تقویٰ کے نُور سے منور فرما دے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک کرنے ا یا تھا اﷲ تعالی مہینہ ہم اس مہینے کا مہینہ کے ساتھ
پڑھیں:
ہمارے پاس وفاقی حکومت کو گرانے کی طاقت ہے: مراد علی شاہ
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ---فائل فوٹووزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم کا بھی لوگ کہتے تھے بن رہا ہے، اب یہی صورتحال چولستان کینال کے لیے پیدا کی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی ایک طاقت ہے اور ہم اس کا استعمال بھی کریں گے، پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر یہ وفاقی حکومت چل نہیں سکتی، ہمارے پاس اسے گرانے کی طاقت ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کراچی کے سینئر صحافیوں سے ملاقات کی، اس موقع پر
سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن اور جام خان شورو بھی موجود تھے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کینالز کا معاملہ سندھ کے لیے جینے مرنے کا مسئلہ ہے، ہم نے سندھ اسمبلی سے ان کینالز کے خلاف قرار داد منظور کی، یہ معاملہ ایکنک میں موجود ہے، اس کی وہاں بھی سخت مخالفت کریں گے، پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو بتایا گیا کہ سندھ حکومت ملوث ہے، یہ معاملہ ہمارے کنٹرول میں ہے، ہم نہیں بنانے دیں گے، میں چاہتا ہوں سی سی آئی اجلاس بلایا جائے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ وزیرِاعظم اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے اعلان کریں کہ وفاق منصوبےکی حمایت نہیں کرے گی، اگر وزیرِ اعظم اعلان نہیں بھی کرتے تو ہم سندھ کے عوام کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ ہماری زندگی ہے، وفاق کو ہماری بات ماننی پڑے گی، اپوزیشن والے چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ختم ہو جائے، ہم اپوزیشن کے کہنے پر نہیں کریں گے، مگر ہم اپنے انداز میں بات کر رہے ہیں اور ہم کینالز کسی صورت بننے نہیں دیں گے، ہمیں اپنے ملک کا بھی سوچنا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ ہم کینالز بننے نہیں دیں گے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ دریائے سندھ ہمالیہ سے شروع ہوتا ہے، پنجاب نے 1945ء کےبعد دریا پر پانی کے منصوبے بنائے، انہیں 1992ء کے معاہدے میں قانونی بنا دیا، ہم 1992ء کے پانی کے معاہدے کے خلاف ہیں کہ اس کے تحت بھی ہمیں حق نہیں ملتا۔
کراچی سندھ حکومت نے وفاقی ادارے سی ڈی ڈبلیو پی کے...
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی ہوئی ہے، جنوری میں پنجاب حکومت کی جانب سے کینالز پر پروپوزل بنایا گیا، جنوری 2024ء کو یہ معاملہ ارسا میں گیا تو ارسا نے اپروول دی، اس وقت ملک میں سب سے اہم پانی کا معاملہ ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ انڈس ریور سسٹم میں پانی کی کمی کا مکمل ریکارڈ ہمارے پاس ہے، ارسا کے سرٹیفکیٹ کے خلاف سی سی آئی گئے تھے، بہانہ بنایا گیا کہ صدرِمملکت کی صدارت میں اجلاس ہوا، چولستان کینال منصوبےکی منظوری دی گئی، ایکنک میں 6 کینال کا پروجیکٹ لایا گیا جس میں بھی ہم نے اعتراض کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر زرداری نے میٹنگ میں کسی کینال کی منظوری نہیں دی تھی، صدرِ مملکت سے کہا گیا کہ اضافی زمین آباد کرنا چاہتے ہیں، صدر زرداری نے کہا کہ اگر صوبوں کو اعتراض نہیں تو کریں، اس اجلاس کے منٹس بھی غلط بنائے گئے، فیصلہ صدرِ پاکستان نہیں کرسکتے یہ منٹس میں غلط لکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدرِ مملکت نے کینالز بننے کی منظوری نہیں دی، وہ دے ہی نہیں سکتے، شہید محترمہ بینظیر بھٹو، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ان کینالز کے بننے کے خلاف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر آصف زرداری نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں واضح طور پر کینالز کی مخالفت کی، چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کہا ہے 4 اپریل کو اس پر واضح مؤقف پیش کریں گے، یہ ہمارےڈی این اے میں نہیں کہ ہم سندھ کے خلاف جائیں، کالاباغ ڈیم پر بھی پیپلز پارٹی نے بھرپور مہم چلائی اور بننے نہیں دیا، کینالز معاملہ صرف سندھ کا معاملہ نہیں یہ صوبوں کی ہم آہنگی کا معاملہ ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مطابق ارسا نے پانی کا سرٹیفکیٹ ہی غلط دیا ہے، ایک تو پانی دریا میں ہے ہی نہیں، پنجاب حکومت کے مطابق اپنے حصے کا پانی چولستان کینال میں شامل کیا جائے گا، کیا پنجاب کے ان کسانوں اور چیف انجینئر سے پوچھا گیا ہے۔
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے نصف حصّے کے برابر...
انہوں نے کہا کہ ہم نے فروری میں ٹیم بھیجی تھی وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا ہے، ٹیم وہاں گئی اور کہا کہ وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا ہے، پھر اچانک ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ یہ تو کینال بن رہی ہے، کینال پر بہت تیزی سے کام چل رہا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے دوبارہ ٹیم کو مارچ میں بھیجا تو انہوں نے دیکھا کہ کینال بن رہی ہیں، جو کینال بن رہی ہیں وہ میں نے اسمبلی میں بھی دکھائی ہیں، کام ہوا کیا ہے، اب ادھر ہو کیا رہا ہے، سب کو معلوم ہونا چاہیے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ اگر ان کے مطابق 27 ایم ایف پانی ڈیلٹا میں جا رہا ہے تو ہمارا ڈیلٹا سرسبز ہونا چاہیے، چولستان کینال بنانے کا کہا جس پر ہمیں اعتراض ہے، چولستان کینال بنانے کا کہا جس پر ہمیں اعتراض ہے، کینال نہیں بن رہیں، پنجاب کا ضرور ارادہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ سکھر اور حیدرآباد موٹر وے کو مکمل کیا جائے، ہمیں پنجاب میں روڈ بننے پر اعتراض نہیں، چاہتے ہیں سندھ میں بھی وفاقی حکومت وہی عوام کی بہتری کے کام کرے، ہماری یہ کوتاہی ہے کہ کینالز معاملے پر ہم اپنے لوگوں کو اعتماد نہیں دلا سکے، کالاباغ ڈیم پی سی ون میں موجود تھا پھر بھی ہم نے بننے نہیں دیا۔
مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ 50 سے اوپر سولر ٹیوب ویل بنا کر ادھر کلٹیویشن شروع کی گئی، زمین کو لیول کیا، اس کےعلاوہ انہوں نے ادھر ایگری مال ایک کانسپٹ بنایا ہے، انہوں نے جو بنایا ہے اس سارے پروجیکٹ کی پی سی ون موجود ہے، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے یہ زمین دیں گے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ گرین پاکستان انیشیٹو کے لیے عمر کوٹ اور دادو میں زمین دی ہے، سندھ حکومت نے 54 ایکڑ اراضی دی ہے، عمر کوٹ میں کچھ سرمایہ کاری ہوئی ہےجو وہاں موجود پانی سے کی گئی ہے، ہم گرین انیشیٹو کے سندھ کے عوام کے مفاد میں بہت منصوبوں کے حق میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گرین پاکستان انیشیٹو کے مثبت کاموں سے اختلاف نہیں، سندھ سمیت پاکستان بھر کے لیے جو بہتر ہو ہم اس کے حق میں ہیں۔