پاکستان اور امریکا کا رواں سال کاؤنٹر ٹیرارزم ڈائیلاگ کرانے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
پاکستان اور امریکا نے رواں برس جون میں کاؤنٹر ٹیرارزم ڈائیلاگ کرانے پر اتفاق کیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے امریکا کی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر نے ملاقات کی ہے، قائم مقام امریکی سفیر نے جعفر ایکسپریس اور دیگر دہشتگردانہ حملوں کی مذمت کی، اور شہدا کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کیا۔
یہ بھی پڑھیں کیا پاکستان امریکا کو ناخوش کیے بغیر روس سے ایل این جی حاصل کرلے گا؟
قائم مقام امریکی سفیر نے کہاکہ پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں جاں بحق افراد کے خاندانوں سے دلی ہمدردی ہے۔
ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور سمیت دو طرفہ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا، جبکہ دہشت گردی کے خلاف باہمی اشتراک کار بڑھانے کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی، اور رواں سال جون میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ کرانے پر اتفاق کیا گیا۔
وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری، امریکا کے پولیٹیکل قونصلر زیک ہارکن رائیڈر اور وفاقی سیکریٹری داخلہ خرم آغا بھی اس موقع پر موجود تھے۔
قائم مقام امریکی سفیر نیٹلی بیکر نے طلال چوہدری کو وزیر مملکت داخلہ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔
اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہاکہ دہشتگردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، اس سے نمٹنے کے لیے عالمی براداری کو مل کر کام کرنا ہوگا، حکومت پاکستان دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کررہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے ضمن میں ہمہ جہتی پالیسی تیار کی جا رہی ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشکور ہیں کہ انہوں دہشتگردی کی خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہا۔
وزیر داخلہ نے کہاکہ امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی ملک واپسی میں ہر ممکن تعاون کریں گے، پاک امریکا کاکس کا اجلاس 30 اپریل کو نیو یارک میں منعقد کیا جائےگا۔
اس موقع پر طلال چوہدری نے کہاکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو کلیدی اہمیت دیتا ہے، وزیرِاعظم شہباز شریف کا صدر جوبائیڈن کے خط کا جواب
امریکی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر نے اسلام آباد میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی تعریف کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اتفاق امریکا پاکستان قائم مقام امریکی سفیر کاؤنٹر ٹیرارزم ڈائیلاگ محسن نقوی وزیر داخلہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اتفاق امریکا پاکستان قائم مقام امریکی سفیر کاؤنٹر ٹیرارزم ڈائیلاگ محسن نقوی وزیر داخلہ وی نیوز قائم مقام امریکی سفیر نے کہاکہ کے خلاف
پڑھیں:
ہائیکورٹ کا بنچ قائم مقام چیف جسٹس کی کورٹ کا ماتحت نہیں: جسٹس اعجاز اسحاق
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت سے زیرسماعت کیس دوسرے بنچ کو منتقل کرنے پر توہینِ عدالت ازخود کیس میں عدالتی معاون کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت طلب کر لی۔ عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور دیگر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کیا، حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت پر آفس نے قائم مقام چیف جسٹس کا 17 مارچ کا آرڈر ریکارڈ پر لایا، عدالت نے آرڈر کو سمجھنے کیلئے ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کی درخواست کی۔ چیف جسٹس کے آرڈر کے پہلے پیرا کے مطابق درخواست گزار نے ٹرانسفر کی اپنی استدعا پریس نہیں کی۔ آرڈر کے دوسرے پیرا سے ایسا لگتا ہے کہ درخواستیں یکجا کر کے ٹرانسفر کا ریلیف دے دیا گیا۔ ظاہری بات ہے کہ کیس ٹرانسفر کیے بغیر یکجا نہیں کیے جا سکتے تھے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے تحریر کیا کہ شاید میں آرڈر درست نہیں پڑھ رہا، شاید اسے پڑھنے کا کوئی اور طریقہ ہو، ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر معاونت کریں، عدالت نے تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے سی پی سی کی سیکشن 24 کی درخواست دائر کی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ لیکن اعتراف کر لیا کہ سیکشن 24 کی درخواست بنتی ہی نہیں تھی، ہائیکورٹ کا بنچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کی ماتحت عدالت نہیں، رجسٹرار آفس نے اسی وجہ سے یہ درخواست اعتراض کے ساتھ چیف جسٹس کے سامنے مقرر کی۔ چیف جسٹس کے لارجر بنچ بنانے کے آرڈر میں دکھائی نہیں دے رہا کہ اعتراض دور کرنے کی وجوہات لکھی گئی ہوں، اعتراض دور کرنے کی وجوہات تحریر نہ کرنا بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے پریکٹس اور پروسیجر کے خلاف ہے۔ شفافیت کیلئے بالخصوص درخواست قابلِ سماعت ہونے سے متعلق اعتراضات دور کرنے کی وجوہات تحریر کی جاتی ہیں۔ آفس کے تجربہ کار جوڈیشل افسران ناقابلِ سماعت درخواستیں کیلئے پہلے فلٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، آفس کے اعتراضات کو زیرغور لا کر جج کو انہیں دور کرنے کی وجوہات تحریر کرنی چاہئیں۔ عدالت سے زیرسماعت کیس واپس لینے کی فی الحال کوئی قانونی نظیر پیش نہیں کی جا سکی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے لاہور ہائیکورٹ رولز کی بنچز کی تشکیل سے متعلق ایک شق بتائی لیکن وہ غیرمتعلقہ ہے۔ وکلاء عدالت کی معاونت کریں اور عوام بھی اس کیس پر نظر رکھیں، یہ کیس ایک سیاسی جماعت کے لیڈر سے متعلق نہیں بلکہ ہر کیس پر اپلائی ہونے والے اصول کا ہے یہ کیس چیف جسٹس کے کسی بھی جج سے انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے کیس ٹرانسفر کرنے کے اختیار سے متعلق ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کا شکریہ کہ انہوں نے واضح طور پر عدالتی آداب کا خیال کیا، توہینِ عدالت کیس میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ جس جج کے آرڈر کی توہین ہو اس سے اچھا جج کوئی نہیں کر سکتا۔