UrduPoint:
2025-03-30@15:02:06 GMT

سولہ ہزار قیدیوں کو کاروباری ہنر سکھانے کا منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

سولہ ہزار قیدیوں کو کاروباری ہنر سکھانے کا منصوبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) ہیومن رائٹس واچ آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کو پابند کیا جاتا ہے۔ اس لیے جیلوں میں بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی ایک چیلنج ہی رہتا ہے۔

تاہم پنجاب کی جیلوں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے اور صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ ان مسائل پر قابو پا لیا جائے۔

اسی لیے پنجاب کی جیلوں میں قید ہزاروں سزا یافتہ قیدیوں کو ان دنوں مختلف فنی اور کاروباری ہنر سکھائے جا رہے ہیں تاکہ وہ رہائی کے بعد جرائم کی دنیا سے دور ہو کر اپنی زندگی کا آغاز کسی باعزت روزگار سے کر سکیں۔

قیدیوں کے لیے شروع کیا جانے والا اپنی نوعیت کا یہ منفرد منصوبہ جہاں قیدیوں کی زندگی بدلنے کی امید جگا رہا ہے، وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا صرف ہنر سکھانا کافی ہے یا بحالی کے لیے ایک مکمل نظام کی ضرورت ہے؟

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبے کی 44 جیلوں میں 37,563 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن ان میں 67,000 سے زائد افراد قید ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے 16,000 سے زائد سزا یافتہ قیدی ہیں، جبکہ باقی کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ بہتری کی کوششیں جاری ہیں

پنجاب کے محکمہ داخلہ کے سیکریٹری نور الامین مینگل نے بدھ کے روز کوٹ لکھپت جیل میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ صوبے کی جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں کو نجی شعبے کی مدد سے مختلف کاروباری ہنر سکھائے جا رہے ہیں تاکہ انہیں معاشی طور پر خود مختار بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا، ’’صوبے کی بڑی اور مرکزی جیلوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چھوٹی صنعتیں قائم کی گئی ہیں، جہاں قیدی مختلف اشیاء تیار کر رہے ہیں، جن میں ہاتھ سے بنے قالین، لوہے کی چارپائیاں، لکڑی کا فرنیچر، سرکاری یونیفارم، قیدیوں کے کمبل، دریاں، چادریں، صابن، ٹف ٹائلز، سلے ہوئےکپڑے، ایل ای ڈی بلب، پرنٹنگ پریس، گھڑیاں، جرابیں، دستانے اور فٹ بال وغیرہ شامل ہیں۔

اسی طرح قیدیوں کو کپڑے سینے اور ہیئر کٹنگ جیسی مہارتیں بھی سکھائی جا رہی ہیں۔‘‘

پنجاب کے سیکرٹری داخلہ کے مطابق جیلوں میں تیار کی گئی ان مصنوعات کا کچھ حصہ جیلوں میں استعمال ہو جاتا ہے جبکہ باقی اشیاء مختلف سرکاری اور نجی اداروں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔ مثلاً ایک فلاحی ادارہ ہر ماہ 25,000 صابن خریدتا ہے۔ صوبائی محکمہ مواصلات کو ٹف ٹائلز بیچنے کے لیے بھی بات چیت جاری ہے۔

قیدیوں کی محنت کی کمائی، انہیں کے اکاؤنٹس میں

لاہور کی کیمپ جیل کے باہر ان مصنوعات کی فروخت و نمائش کے لیے ایک ڈسپلے سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے جبکہ محکمہ جیل خانہ جات کی ایک موبائل وین مختلف علاقوں میں جا کر مختلف تقریبات میں اسٹالز لگانے میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن فروخت کے لیے ویب سائٹ (www.

prisonstore.com.pk) اور "Prison Store" کے نام سے ایک ایپ گوگل پلے اسٹور اور ایپل اسٹور پر دستیاب ہے۔

کوٹ لکھپت جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (ڈویلپمنٹ) شمشاد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قیدیوں کے بنائے قالین خاصی مانگ رکھتے ہیں اور مستقبل میں مزید صنعتوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ جیل انڈسٹری سے حاصل ہونے والی آمدن کا ایک مخصوص حصہ بطور معاوضہ قیدیوں کے بینک اکاؤنٹس میں بھیجا جاتا ہے، جس سے وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکتے ہیں،'' ان قیدیوں کے لیے تین ماہ کا تربیتی کورس فری ہے۔

البتہ اس منصوبے میں حصہ لینے والے قیدیوں کی قید کی مدت میں دو ماہ کی تخفیف کر دی جاتی ہے۔‘‘ جرم کا راستہ دوبارہ اختیار نہ کرنے کی ترغیب

پنجاب حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اس منصوبے سے قیدی خود کفیل ہوں گے، جرائم کی شرح میں کمی آئے گی، جیلوں میں لڑائی جھگڑوں اور منشیات کا رجحان کم ہو گا اور ساتھ ہی حکومت کا مالی بوجھ بھی کم ہو گا۔

حکومتی دعوے کے مطابق نجی شعبے کو جیل انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے مواقع ملیں گے اور رہائی کے بعد قیدی ملکی صنعتوں کا حصہ بن کر پیداواری عمل میں اضافہ کریں گے۔

جھنگ جیل سے کچھ عرصہ قبل رہائی پانے والے اسد نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ قیدیوں کو ہنر سکھانے کا عمل ایک مثبت پیش رفت ہے مگر اس سے جیل کے تمام مسائل کا حل ممکن نہیں۔

ان کے بقول بڑے شہروں کی جیلوں میں نگرانی بہتر ہے لیکن دور دراز علاقوں کی جیلوں میں اب بھی کرپشن اور بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔ قیدیوں کو تنگ جگہوں میں رکھا جاتا ہے اور واش رومز کی مناسب سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ اصلاحات ناگزیر ہیں

پنجاب بار کونسل کی جیل ریفارمز کمیٹی کے سابق سربراہ ملک محمد طارق نوناری ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف حکومتیں اپنے اپنے دور میں جیلوں کی اصلاح کی کوشش کرتی رہی ہیں، لیکن نظام میں بڑی تبدیلی لانا اتنا آسان نہیں۔

ان کے مطابق جیلوں میں ہرعمر کے قیدی موجود ہوتے ہیں، جن کے مسائل الگ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ رمضان جیسے مہینے میں کھانے پینے کے اوقات مخصوص ہونے کے باعث بہت سے قیدیوں کو واش رومز کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’’قیدیوں کو ہنر سکھانے کا یہ منصوبہ یقیناً ایک مثبت قدم ہے، جو نہ صرف قیدیوں کی زندگی بدل سکتا ہے بلکہ معاشرے میں جرائم کی شرح میں کمی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

تاہم، اس کا حقیقی اثر تب ہی سامنے آئے گا جب یہ تربیت محض جیل کی چار دیواری تک محدود نہ رہے، بلکہ قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی ان کے ساتھ جُڑے رہنے کا کوئی مربوط نظام بنایا جائے۔‘‘

سن دو ہزار تیئس میں ہیومن رائٹس آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں زور دیا گیا تھا کہ بدعنوانی اور رشوت رستانی کے خاتمے سے جیلوں کی صورتحال بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ رشوت ستانی کے کلچر نے دولت اور اثر و رسوخ رکھنے والوں اور دیگر تمام قیدیوں کے لیے دو الگ الگ نظام بنائے ہوئے ہیں۔

ادارت: عاطف بلوچ

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جیلوں میں قیدیوں کو قیدیوں کی قیدیوں کے بتایا کہ کے مطابق جاتا ہے کے لیے کی جیل

پڑھیں:

جنگی منصوبہ لیک: کابینہ سے مطمئن ہوں، پروپیگنڈے پر کسی کو برخاست نہیں کر رہا، ٹرمپ

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ یمن سے متعلق جنگی منصوبہ لیک ہونے کے اسکینڈل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتظامیہ سے مطمئن ہیں لہٰذا وہ کسی فیک نیوز اور پروپیگنڈے پر کسی کو برطرف نہیں کریں گا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ نے یمن میں حوثی باغیوں پر فوجی حملوں کی خبر کیوں لیک کی؟

غیر ملکی میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن میں حوثیوں کے خلاف فضائی حملے کے منصوبے کے لیک ہونے پر اپنی انتظامیہ سے ناراض نہیں اور نہ ہی اس پر وہ کابینہ اراکین میں سے کسی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہا میں لوگوں کو جعلی خبروں کی بنیاد پر اور بلاوجہ نشانہ بنائے جانے پر انہیں برطرف نہیں کروں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اپنے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور پینٹاگون کے سربراہ پیٹ ہیگستھ پر اعتماد ہے۔

یاد رہے کہ والز نے نادانستہ طور پر دی اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ کو سگنل ایپ کے ایک گروپ میں شامل کیا ہوا تھا جہاں اعلیٰ حکام حوثیوں پر حملہ کرنے کے منصوبوں پر بات کی جا رہی تھی۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ انتظامیہ نے 5 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کردی

چیٹ کے دوران ہیگستھ نے اس بارے میں تفصیلات بتائیں کہ حملے سے قبل اس کا آغاز کیسے کیا جائے گا۔ اس کے بعد دی اٹلانٹک نے اس پر ایک مضمون شائع کردیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے اس پر کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

ٹرمپ نے کہا میں قومی سلامتی کے مشیر مائیک والز کی کارکردگی سے مطمئن ہوں اور میں کسی کو برطرف نہیں کروں گا۔ واضح رہے کہ وفاقی جج نے جنگی منصوبہ اسکینڈل کا سوشل میڈیا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا جنگی منصوبہ لیک حوثی حملہ منصوبہ لیک ڈونلڈ ٹرمپ سگنل میسجنگ ایپ

متعلقہ مضامین

  • جنگی منصوبہ لیک: کابینہ سے مطمئن ہوں، پروپیگنڈے پر کسی کو برخاست نہیں کر رہا، ٹرمپ
  • پنجاب، عید پر مختلف مقامات پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کرنیکا فیصلہ
  • میانمار میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد سولہ سو سے تجاوز کر گئی
  • راولپنڈی: کاروباری برادری کا سڑکوں کی بندش پر تحفظات، حکومت سے مشاورت کا مطالبہ
  • ماؤ نواز باغیوں کے خلاف کارروائی، سولہ باغی ہلاک
  • چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری نے اقتصادی ترقی اور روزگار کو فروغ دیا ہے، چینی صدر
  • پختونخوا، معمولی نوعیت کے مقدمات میں قید 214 ملزمان جیلوں سے رہا
  • پختونخوا؛ معمولی نوعیت کے مقدمات میں قید 214 ملزمان جیلوں سے رہا
  • یوم پاکستان اور عیدالفطر پر سزاؤں میں کمی، پنجاب کی جیلوں سے درجنوں قیدی رہا
  • صدر مملکت کے اعلان کے بعد سینکڑوں قیدی رہا کر دیے گئے