سانحہ9 مئی ریڈیو پاکستان حملہ کیس: رکن اسمبلی سمیت 6 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
سانحہ9 مئی ریڈیو پاکستان حملہ کیس: رکن اسمبلی سمیت 6 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 27 March, 2025 سب نیوز
پشاور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے 9 مئی حملہ کیس میں رکن اسمبلی سمیت 6 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
پشاور کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج ولی محمد نے 9 مئی کو ریڈیو پاکستان پر حملہ کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر پراسیکیوشن نے مؤقف اختیار کیاکہ ایم پی اے ارباب وسیم اور دیگر ملزمان سماعت کے دوران پیش نہیں ہوئے، جس پر عدالت نے ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
پراسیکویشن کے مطابق ایم پی ایم سمیت دیگر ملزمان ریڈیو پاکستان پر حملہ کیس میں نامزد ہیں، 9 مئی کو ملزمان نے دیگر ساتھیوں سے مل کر احتجاج کے دوران ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذر آتش کیا۔
پراسیکویشن نے مؤقف اختیار کیاکہ تھانہ شرقی میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اور تحقیقات مکمل کرکے ٹرائل شروع کیا گیا، اب ملزمان پیش نہیں ہورہے۔
عدالت نے عدم پیشی پر ایم پی اے ارباب وسیم سمیت 6 ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 12 اپریل تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری سمیت 6 ملزمان کے ریڈیو پاکستان حملہ کیس
پڑھیں:
ہائیکورٹ بینچ قائم مقام چیف جسٹس کی ماتحت عدالت نہیں،جسٹس اعجاز اسحاق
ڈپٹی رجسٹرار متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار رولز میں دکھائیں
جسٹس اعجاز کا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور دیگر کیخلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت سے زیرسماعت کیس دوسرے بنچ کو منتقل کرنے پر توہینِ عدالت ازخود کیس میں عدالتی معاون کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کا بینچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کی ماتحت عدالت نہیں۔عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں۔ توہینِ عدالت کیس میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ جس جج کے آرڈر کی توہین ہو اس سے اچھا جج کوئی نہیں کر سکتا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور دیگر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت پر آفس نے قائم مقام چیف جسٹس کا 17 مارچ کا آرڈر ریکارڈ پر لایا عدالت نے آرڈر کو سمجھنے کیلئے ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کی درخواست کی۔چیف جسٹس کے آرڈر کے پہلے پیرا کے مطابق درخواست گزار نے ٹرانسفر کی اپنی استدعا پریس نہیں کی، آرڈر کے دوسرے پیرا سے ایسا لگتا ہے کہ درخواستیں یکجا کر کے ٹرانسفر کا ریلیف دیدیا گیا۔ظاہری بات ہے کہ کیس ٹرانسفر کیے بغیر یکجا نہیں کیے جا سکتے تھے ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے تحریر کیا کہ شاید میں آرڈر درست نہیں پڑھ رہا، شاید اسے پڑھنے کا کوئی اور طریقہ ہو، ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر معاونت کریں۔عدالت نے تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے سی پی سی کی سیکشن 24 کی درخواست دائر کی گئی، ایڈووکیٹ جنرل نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ لیکن اعتراف کر لیا کہ سیکشن 24 کی درخواست بنتی ہی نہیں تھی۔ہائیکورٹ کا بنچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کی ماتحت عدالت نہیں، رجسٹرار آفس نے اسی وجہ سے یہ درخواست اعتراض کے ساتھ چیف جسٹس کے سامنے مقرر کی۔چیف جسٹس کے لارجر بنچ بنانے کے آرڈر میں دکھائی نہیں دے رہا کہ اعتراض دور کرنے کی وجوہات لکھی گئی ہوں، اعتراض دور کرنے کی وجوہات تحریر نہ کرنا بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے پریکٹس اور پروسیجر کے خلاف ہے ۔شفافیت کیلئے بالخصوص درخواست قابلِ سماعت ہونے سے متعلق اعتراضات دور کرنے کی وجوہات تحریر کی جاتی ہیں آفس کے تجربہ کار جوڈیشل افسران ناقابلِ سماعت درخواستیں کیلئے پہلے فلٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، آفس کے اعتراضات کو زیرغور لا کر جج کو انہیں دور کرنے کی وجوہات تحریر کرنی چاہئیں۔حکمنامہ کے مطابق عدالت سے زیرسماعت کیس واپس لینے کی فی الحال کوئی قانونی نظیر پیش نہیں کی جا سکی ایڈووکیٹ جنرل نے لاہور ہائیکورٹ رولز کی بنچز کی تشکیل سے متعلق ایک شق بتائی لیکن وہ غیرمتعلقہ ہے وکلاء عدالت کی معاونت کریں اور عوام بھی اس کیس پر نظر رکھیں۔یہ کیس ایک سیاسی جماعت کے لیڈر سے متعلق نہیں بلکہ ہر کیس پر اپلائی ہونے والے اصول کا ہے ، یہ کیس چیف جسٹس کے کسی بھی جج سے انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے کیس ٹرانسفر کرنے کے اختیار سے متعلق ہے ۔عدالت نے کہا ہے کہ آئندہ تاریخ پر عدالتی معاونین مقرر کیے جائیں گے اور وہ بھی معاونت کرینگے ،ایڈووکیٹ جنرل کا شکریہ کہ انہوں نے واضح طور پر عدالتی آداب کا خیال کیا، ڈپٹی رجسٹرار آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں۔توہینِ عدالت کیس میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ جس جج کے آرڈر کی توہین ہو اس سے اچھا جج کوئی نہیں کر سکتا،کیس کی آئندہ سماعت 11 اپریل کو ہو گی۔