ٹرمپ کے سیکیورٹی مشیروں کا پرائیویٹ ڈیٹا لیک
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
صنعا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مارچ2025ء)یمن جنگ کے انتہائی اہم خفیہ منصوبے سے متعلق معلومات لیک ہونے کے بعد اب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر سیکیورٹی مشیروں کا پرائیویٹ ڈیٹا لیک ہو گیا۔جرمن جریدے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر سیکیورٹی مشیروں کا پرائیویٹ ڈیٹا، ان کے فون نمبر، ای میل ایڈریس اور پاس ورڈز ڈیٹا سرچ سروسز اور ہیک شدہ ڈیٹا بیس کی مدد سے آرام سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز، نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر تلسی گبارڈ اور وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ کے موبائل فون نمبرز، ای میل ایڈریس اور بعض صورتوں میں ان کے پاسورڈز بھی کمرشل ڈیٹا سرچ سروسز کے ذریعے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تلسی گبارڈ اور مائیک والٹز کے فون نمبرز مبینہ طور پر میسجنگ سروسز واٹس ایپ اور سگنل کے اکائونٹس سے منسلک تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان تینوں کی ڈیوائسز میں اسپائی ویئر نصب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب یہ تینوں سگنل پر گروپ چیٹ میں 15 مارچ کو حوثیوں پر فضائی حملوں کے خفیہ منصوبوں کے حوالے سے بات چیت کر رہے تھے تو اس دوران غیر ملکی ایجنٹس ان کی جاسوسی کر رہے ہوں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
امریکی جج نے وائس آف امریکا کی بندش اور عملے کی برطرفی روک دی
امریکی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کی کوششوں کو روک دیا، جو امریکی مالی امداد سے چلنے والی بین الاقوامی نیوز سروس ہے۔ عدالت نے اس اقدام کو من مانے اور بے بنیاد فیصلوں کی کلاسک مثال قرار دیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق اپنے حکم میں جج جیمز پال اوٹکن نے براڈکاسٹس کی بحالی کا حکم نہیں دیا۔ تاہم، اس نے واضح طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو 1,200 سے زیادہ صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا جنہیں اس مہینے کے شروع میں اچانک چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
اوٹکن کے حکم میں امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا جو VOAریڈیو فری یورپ اور دیگر حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے میڈیا کی نگرانی کرتی ہے کو کسی بھی ایسی کوشش کرنے سے روک دیا ہے کہ وہ ملازمین یا کنٹریکٹرز کو برطرف کرے، کم کرے، چھٹیوں پر بھیجے یا معطل کرے۔
ایجنسی کو کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا غیر ملکی ملازمین کو امریکا واپس بھیجنے کا حکم دینے سے بھی روکا گیا ہے۔ یہ کیس VOA کے ملازمین، ان کے یونینز اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (RSF) نے دائر کیا تھا، جنہوں نے الزام لگایا کہ بندش عملے کے آئینی پہلے ترمیم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے جو آزادی اظہار پر زور دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
مدعی وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا کہ یہ صحافت کی آزادی اور پہلی ترمیم کے لیے ایک فیصلہ کن فتح ہے بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ہمارے جمہوریت کو تشکیل دینے والے اصولوں کی مکمل بے حرمتی کا ایک شدید ردعمل ہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ جج نے حکومت کے کسی بھی مزید اقدام کو روکنے سے اتفاق کیا تاکہ وائس آف امریکا کو تحلیل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ٹرمپ انتظامیہ سے فوری طور پر VOA کے لیے فنڈنگ بحال کرنے اور اس کے ملازمین کو بغیر کسی تاخیر کے دوبارہ بحال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA ڈونلڈ ٹرمپ وائس آف امریکا