Express News:
2025-03-30@12:35:34 GMT

لیلۃ القدر: رحمت، برکت اور مغفرت

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

’’بے شک، ہم نے اسے (قرآن کو) لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبریل علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ یہ (رات) سراسر سلامتی ہے، طلوعِ فجر تک۔​‘‘

وقت گزرتے پتا ہی نہیں چلا اور رمضان کا آخری عشرہ آن پہنچا، جس میں ایک رات لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ یہ آیات لیلۃ القدر کی عظمت، برکت اور اس میں نازل ہونے والی اللہ کی خاص رحمتوں کی وضاحت کرتی ہیں۔ اس رات میں کی گئی دعا، عبادت اور استغفار بے حد فضیلت رکھتا ہے۔ اللہ ہمیں بھی اس رات کی قدر کرنے اور خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

مجھے اس رات کی فضیلت سمجھنے میں کافی وقت لگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات میں قرآن نازل فرمایا، ہزار ماہ سے افضل اس رات کو بنایا، تقدیر کے فیصلے رکھنا، اس رات میں فرشتوں کو زمین پر اتارنا اور طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی رکھنا۔ اب جب بھی میں سورۃ القدر اور سورۃ الدخان کی آیات پر غور کرتی ہوں، تو مجھے لیلۃ القدر کی حقیقت صرف ایک عظیم رات کے طور پر نہیں، بلکہ ایک موقع کے طور پر نظر آتی ہے۔ ایسا موقع جو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت کے دروازے کھولنے کےلیے عطا فرمایا ہے۔

ارشادی باری تعالی ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۝

(ترجمہ) بے شک، ہم نے اسے (قرآن کو) لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (سورۃ القدر: 1)​

یعنی لیلۃ القدر کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ یہ رات ہدایت کے نور کی رات ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ جب اللہ نے اپنے بندوں کےلیے ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن نازل کیا، اسی رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری وحی یعنی قرآن کریم کو نازل فرمایا۔ تو یہ رات کس قدر بابرکت ہو گی!

یہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے، بلکہ ہر سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا اصل مقصد ہدایت حاصل کرنا ہے۔ اگر ہم واقعی اس رات کی برکت چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنا ہوگا۔ قرآن صرف پڑھنے کی کتاب نہیں، بلکہ زندگی بدلنے کی کتاب ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لیلۃ القدر ہمیں فائدہ دے، تو ہمیں قرآن سے حقیقی تعلق جوڑنا ہوگا۔ جیسے ایک مسافر کے لیے نقشہ ضروری ہوتا ہے، ویسے ہی قرآن ہمارے لیے زندگی کا نقشہ ہے۔ اگر ہم اسے نظرانداز کریں، تو راستہ کھو دیں گے۔

پھر ارشاد ہے:

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ

(ترجمہ) لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (سورۃ القدر: 3)​

یہ آیت مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ایک رات 83 سال اور 4 مہینوں (تقریباً پوری زندگی) کی عبادت سے بہتر ہے۔ یعنی اگر کوئی اس رات میں عبادت کرے تو گویا اس نے پوری زندگی اللہ کی بندگی میں گزاری۔ یہ آیت مجھے وقت کی حقیقت پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے اور سکھاتی ہے کہ وقت کی برکت تعداد میں نہیں، کیفیت میں ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ ’’کاش میری عمر لمبی ہو تاکہ میں زیادہ نیکیاں کرسکوں‘‘ لیکن اللہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’ایک رات‘‘ ہزار مہینوں یعنی 83 سال اور 4 مہینے سے بہتر ہوسکتی ہے، ایک رات کی عبادت 83 سال کی عبادت سے بہتر ہوسکتی ہے! ایک لمحے کے لیے تصور کیجئے اس رات میں دو رکعت نوافل کی ادائیگی 83 سال کے نوافل کی ادائیگی سے بہتر، 10 منٹ سجدے میں سر رکھ اللہ سے بات کرنا 83 سال سے بہتر، اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي کا پڑھنا 83 سال سے بہتر، چند لمحے.

.. صرف چند لمحے 83 سال کے لمحات سے بہتر بن سکتے ہیں! سبحان اللہ!

سورۃ الدخان میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (الدخان:4)

(ترجمہ) اسی (رات) میں ہر حکمت والا معاملہ تقسیم کر دیا جاتا ہے۔​

لیلۃ القدر وہ رات ہے جب آئندہ سال کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر میرا مقدر اس رات طے ہو رہا ہے، تو کیا میں نے اپنی تقدیر کے لیے اللہ سے خیر مانگی؟

ہم میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’میری زندگی میں برکت نہیں، میرے کام نہیں بن رہے، میری صحت خراب رہتی ہے‘‘ لیکن کیا ہم نے لیلۃ القدر میں اللہ سے دعا مانگی کہ وہ ہمارے حق میں بہترین فیصلے کرے؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’میں دعا کی قبولیت کی فکر نہیں کرتا، بلکہ اس بات کی فکر کرتا ہوں کہ میں دعا صحیح کر رہا ہوں یا نہیں۔ کیونکہ جب دعا صحیح ہوجائے گی، تو قبولیت خود آ جائے گی۔‘‘ (أخرجه الإمام القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 3 / 350)


تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ

(ترجمہ) اس میں فرشتے اور روح (جبریل علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ (سورۃ القدر: 4)​

یہ تصور کتنا شاندار ہے کہ آسمان کے فرشتے زمین پر نازل ہورہے ہیں! اگر اللہ نے فرشتوں کو نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تو یقیناً اس رات کی عبادات، دعائیں اور آنسو کسی خزانے سے کم نہیں۔ ایک لمحے کےلیے سوچتی ہوں اگر یہ فرشتے میری عبادت کا مشاہدہ کرنے آئیں، تو کیا میرا طرز عمل اس کے قابل ہوگا؟

اگر عام دنوں میں ہمیں معلوم ہو کہ بہت ہی خاص مہمان ہمارے گھر آنے والے ہیں تو ہم فوراً سے قبل خود کو، اپنے بچوں کو، اپنے گھر کو درست حلیے میں لاتے ہیں اور پھر ان کے سامنے انتہائی مہذب انداز اپناتے ہیں۔ تاکہ ان پر ہمارا اچھا تاثر پڑے۔ یہ چیز مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اللہ کے خاص فرشتے ہمارے گھر آئیں، تو ہم کیسا برتاؤ کریں گے؟ اگر ہم کسی بڑے مہمان کے استقبال کےلیے تیار ہو سکتے ہیں، تو کیا ہمیں لیلۃ القدر میں بھی اپنے دل، زبان اور اعمال کو پاک صاف نہیں کر لینا چاہیے؟

سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ

(ترجمہ) یہ (رات) سراسر سلامتی ہے، طلوعِ فجر تک۔ (سورۃ القدر: 5)​

یہ رات صرف مغفرت کی نہیں، بلکہ سکون کی بھی رات ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے پچھلے سال میں نیند کی گولیاں کھائے بغیر سو نہیں پاتی تھی اور میرا ڈپریشن کا علاج جاری تھا۔ ہم سب زندگی میں پریشانیوں اور بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا کی دولت، شہرت، اور کامیابی بھی بعض اوقات ہمیں سکون نہیں دے پاتی۔ مگر اللہ نے اس رات کو ’’سلامتی‘‘ کہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص حقیقی سکون چاہتا ہے، تو اسے اللہ سے جڑنا ہوگا۔

ان آیات کو سمجھنے کے بعد میں یہ سوچتی ہوں کہ لیلۃ القدر صرف عبادت کی رات نہیں، بلکہ زندگی کو بدلنے کی رات ہے۔ میں خود سے سوال کرتی ہوں:

کیا میں واقعی اس رات کی قدر کر رہی ہوں؟
کیا میں نے اپنی تقدیر میں بھلائی لکھوانے کے لیے کوشش کی؟
کیا میں نے قرآن سے اپنی وابستگی مضبوط کی؟
کیا میں نے اللہ کی رحمت کو سمیٹنے کے لیے پورے دل سے دعا کی؟

لیلۃ القدر کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ اللہ کی رحمت کبھی دیر سے نہیں آتی، اور اگر ایک رات میں 83 سال سے زیادہ نیکیاں حاصل ہو سکتی ہیں، تو اللہ کا فضل بے حد وسیع ہے!

اس بار فیصلہ کیا ہے لیلۃ القدر کو صرف رسمی عبادت میں گزارنے کے بجائے، اسے اپنی زندگی کو بدلنے کا موقع بنانا ہے!

اللھم بلغنا لیلۃ القدر، آمین!

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لیلۃ القدر میں لیلۃ القدر کی سورۃ القدر اللہ تعالی اس رات میں کیا میں نے اس رات کی نے اپنی اللہ کی اللہ سے سے بہتر ایک رات کے لیے ہیں کہ رات ہے اگر ہم ہوں کہ

پڑھیں:

اللہ لوگ سزا یافتہ بیٹا

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بیٹے حسن نواز سے 1998ء اور 1999 ء کے دوران لندن میں دو بار ملاقات ہوئی۔ چند روز پہلے جب یہ خبر پڑھی کہ حسن نواز شریف انگلینڈ میں ٹیکس نادہندہ قرار پائے ہیں تو ان سے ہوئی یہ ملاقاتیں یاد آگئیں۔ اس مد میں حسن نواز شریف کو لندن کی عدالت نے بھاری جرمانہ عائد کیا۔ میں انگلینڈ میں 1998 ء میں گیا۔ پہلی بار حسن نواز سے تب ملا جب میں اپنے ایک مہربان چوہدری سعید کے ہمراہ لندن پارک لین میں واقع ان کے گھر گیا۔ یہ اپارٹمنٹ نما گھر تھا جسے بہت سادگی سے سجایا کیا گیا تھا۔ ہمیں جس ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا اس کے صوفے اور میز عام لکڑی کے تھے جو زیادہ قیمتی نظر نہیں آ رہے تھے۔ میزوں پر رکھی چیزیں اور پردے وغیرہ بھی بہت سادہ تھے۔ لیکن ایک چیز نے مجھے بہت متاثر کیا اور سیاست دانوں کے بارے میں میری تنقیدی سوچ کو ابھارا۔ شائد اسے آپ بناوٹ کہیں یا تفاخر اور تصنع کا نام دیں۔ لیکن اتنے بڑے سیاست دان کے اندر یہ ذرا سی نمائش اور شوخی زیادہ قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ ڈرائنگ روم کے چاروں طرف میاں نواز شریف کی تصاویر آویزاں تھیں۔ ان تمام تصاویر میں میاں صاحب امریکی صدور، امریکی سفرا یا چند ایک مغربی وزرائے اعظم اور کچھ عرب سربراہان مملکت کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے تھے۔ اس سے مجھے یہ لگا کہ ہمارے حکمران کس طرح امریکہ اور مغربی دنیا سے مرعوب ہیں اور ان کے ساتھ تصویر کھینچوانے کو بھی کتنا یادگار سمجھتے ہیں۔ اس ملاقات کے دوران ہماری تواضع چائے، بسکٹس اور پیسٹریوں وغیرہ سے کی گئی۔ یہ شریف فیملی کا خاصا ہے کہ وہ گھر آئے مہمانوں سے لسی پانی پوچھتے ہیں اور خاطر تواضع میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ اس کے برعکس عمران خان کا مہمان نوازی کے معاملے میں ہاتھ کافی ڈھیلا ہے اور ان کے ساتھی ان سے اکثر شاکی رہتے ہیں۔ اس کا اظہار کچھ بار خود عمران خان نے بھی کیا ہے۔ ایک دفعہ امریکی سفیر عمران خان سے کینسر ہسپتال میں ملنے گئے تو انہوں نے ان کی تواضع چائے کے ساتھ عام دکان سے خریدے گئے پانچ روپے والے بسکٹوں کے پیکٹ سے کی تھی۔ جبکہ شریف فیملی کا مہمانوں کے لئے لنگر ذرا پرتکلف ہوتا ہے۔ چوہدری سعید میاں نواز شریف کے اس گھر میں اکثر آتے جاتے تھے اور حسن نواز کے ساتھ ان گفتگو خاصی بے تکلفی پر مبنی تھی۔
حسن نواز سے دوسری دفعہ ملاقات چوہدری سعید (جو سابق پارلیمینٹیرین چوہدری خورشید زمان کے بڑے بھائی ہیں) کے گھر پر ہوئی۔ چوہدری سعید چوہدری محمد ریاض کے چھوٹے بھائی ہیں۔ چوہدری محمد ریاض تین دفعہ نون لیگ کے ٹکٹ پر راولپنڈی گوجر خان کے حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ گوجر خان کے چوہدری برادران کی سیاست زیادہ تر لندن میں ان کے میاں نواز شریف اور ان کی والدہ سے پرانے مراسم کا نتیجہ تھی۔ چوہدری سعید عموماً پاکستان سے آنے والے سیاست دانوں اور ممبران اسمبلی کا ایئرپورٹ پر استقبال کرتے تھے اور بعد میں ان کی مہمان نوازی میں بھی فراخ دلی سے کام لیتے تھے۔ اس دفعہ حسن نواز کو تینوں بھائیوں نے لندن کے الفورڈ بارکنگ سائیڈ ایریا میں واقع اپنے گھر پر مدعو کیا تھا۔ حسن نواز کے ساتھ میاں شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز بھی تشریف لائے۔ چوہدری سعید اور میں کھانے کے دوران مہمانوں کو چیزیں اٹھا اٹھا کر دیتے رہے۔ حسن نواز کی طبیعت انتہائی سادہ تھی۔ میں نے انہیں خاموش طبع پایا اور کھانے کے دوران وہ مجھے کسی گہری سوچ میں گم سم نظر آئے۔ ان کے بارے ان دنوں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ ’’اللہ لوگ‘‘ ہیں۔ اسی کھانے کی میز پر چوہدری سعید، چوہدری محمد ریاض اور چوہدری خورشید زمان نے زبیر گل کا تعارف حسن نواز اور حمزہ شہباز سے کروایا جس کے نتیجے میں انہیں چند ماہ بعد انگلینڈ میں نون لیگ کا کنوینر مقرر کر دیا گیا۔ حمزہ شہباز شریف اپریل 2022 ء سے جولائی 2022 ء تک تین ماہ کے لئے پنجاب کے چیف منسٹر رہے۔ زبیر گل کا لندن میں اچھا کاروبار تھا۔ پاکستان کی سیاست پیسے کا کھیل ہے اور امیر شرفا اسے اپنی ’’ہابی‘‘ سمجھتے ہیں۔ اسی دوران زبیر گل کو پنجاب میں بھی حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔ جب پارٹی ختم ہوئی تو جانے سے پہلے حمزہ شہباز نے حسن نواز کے کانوں میں کچھ کہا اور پھر حسن نواز نے اپنی جیب سے پچاس پونڈ کی ٹپ نکال کر میری مٹھی میں رکھ دی۔
کچھ دن پہلے جب ایک معاصر صحافی نے حسن نواز کے بارے یہ خبر بریک کی تو یقین ہو گیا کہ حسن نواز واقعی کتنے اللہ لوگ انسان ہیں۔ میں اس بات کا ’’چشم دید‘‘ اور ’’ٹپ ہولڈر وٹنس‘‘ ہوں کہ انسان جتنا بھی سادہ اور معصوم ہو جہاں پیسے کا معاملہ ہو اس سے زیادہ تیز اور شاطر کوئی بھی ثابت نہیں ہوتا۔ خبر کے مطابق حسن نواز برطانیہ میں ٹیکس ڈیفالٹر قرار دیئے گئے ہیں جن پر 5اشاریہ 2ملین پائونڈ کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اچھا ہوا کہ حسن نواز کو پاکستان کی سیاست میں نہیں آزمایا گیا۔ ان کی جگہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست میں اتارا جن پر تاحال کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور وہ بطور پنجاب چیف منسٹر اچھی کارکردگی بھی دے رہی ہیں۔
اس حوالے سے حسن نواز کے قریبی قانونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریونیو کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے کچھ دن پہلے شائع شدہ ’’اعداد و شمار‘‘ پرانی کہانی ہے۔ حسن نواز نے کورٹ میں خود کو دیوالیہ ڈیکلیئر کیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ پرانی کہانی ہو مگر حسن نواز کا کردار وہی ہے جسے دہرایا گیا ہے۔ہماری ملکی سیاست کا زیادہ تر دارومدار اخلاص، اہلیت اور کارکردگی کی بجائے اس نوع کی’’پارٹی سیاست‘‘ پر ہے جس میں تعلقات، خوشامد اور رکھ رکھاو وغیرہ کو نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ ہماری تاریخ ان تلخ سیاسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جسے سیڑھیاں بنا کر ہمارے معصوم سیاست دان آگے بڑھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات
  • رحمت اللعالمین ﷺ کی عید
  • معاشی استحکام کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے، افنان اللہ خان
  • دہشتگردی کیخلاف قومی اتفاق رائے کی ہر کوشش کا خیر مقدم کریں گے، رانا ثنا اللہ
  • ہم صرف اللہ کے سامنے جھکتے ہیں وقت کے یزیدیوں اور فرعون کے سامنے نہیں، اسدالدین اویسی
  • اللہ لوگ سزا یافتہ بیٹا
  • دین: عبادات یا کردار؟
  • رمضان المبارک کے روزے رحمت و مغفرت کا سبب ہیں، جمعتہ الوداع کے موقع پر امام کعبہ کا خطبہ
  • اللہ کو راضی کرنا ہے تو مظلوموں کو انصاف دیں، ڈاکٹر طاہرالقادری
  • حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کا وعدہ