اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری، حماس ترجمان بھی شہید
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے، آج قابض فوج نے بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر ڈرون حملہ کردیا۔
یہ بھی پڑھیں غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی تشدد کی مذمت، اقوام متحدہ کا امداد کی فراہمی بحال کرنے پر زور
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے اسرائیلی فوج کی جانب سے مفت کھانا تقسیم کرنے والے مرکز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ اسرائیلی حملے میں 13 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
دوسری جانب جبالیہ میں بھی اسرائیل کی جانب سے فضائی حملہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مزاحمتی تنظیم حماس کے ترجمان عبداللطیف جام شہادت نوش کرگئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کی گئی تازہ بمباری میں اب تک ایک لاکھ 42 ہزار فلسطینی نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے کیے گئے ایک آپریشن کے بعد سے اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے، اور اب تک 50 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں طاقت کے استعمال کی صورت میں یرغمالیوں کی زندگی کی ضمانت نہیں ہوگی، حماس کا اسرائیل کوانتباہ
دوسری جانب حماس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ طاقت کے استعمال کی صورت میں یرغمالیوں کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی، اگر غزہ پر حملے جاری رکھے گئے تو یرغمالی تابوتوں میں واپس جائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیلی فوج بمباری حماس ترجمان شہید غزہ فلسطین وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج حماس ترجمان شہید فلسطین وی نیوز اسرائیلی فوج کی کی جانب سے
پڑھیں:
غزہ پٹی: حماس کا ایک اور اعلیٰ عہدیدار ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) غزہ پٹی پر قابض عسکریت پسند تنظیم حماس نے جمعرات کے دن تصدیق کر دی کہ اسرائیلی دفاعی افواج کے ایک تازہ فضائی حملے میں اس کے سرکاری ترجمان عبداللطیف القانوع ہلاک ہو گئے ہیں۔
جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے بمباری کے نتیجے میں غزہ پٹی میں حماس کے متعدد اعلیٰ عہدیدار مارے جا چکے ہیں۔
القانوع حالیہ اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والے حماس کے ایک اور اہم اہلکار تھے۔حماس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ تنظیم کے ترجمان القانوع کی ''شہادت پر سوگوار ہے،‘‘ جو شمالی غزہ کے جبالیہ نامی علاقے میں ایک خیمے پر کیے گئے ''براہ راست‘‘ حملے میں مارے گئے۔
جنگ بندی ختم ہونے کے بعد حملوں میں تیزیغزہ پٹی میں جنگ بندی عملاﹰ 18 مارچ کو ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد اسرائیل نے اس فلسطینی علاقے میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی دوبارہ شروع کر دی تھی۔
(جاری ہے)
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سیزفائر ختم ہونے کے بعد سے اب تک مزید کم از کم 855 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے ایک فضائی حملے میں حماس کی داخلی سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ راشد جحجوح کو ہلاک کر دیا تھا۔
چند دن پہلے حماس نے اعلان کیا تھا کہ غزہ پٹی میں اس کی حکومت کے سربراہ عصام الدعالیس اور وزارت داخلہ کے سربراہ محمود ابو وتفہ سمیت کئی عہدیدار اسرائیلی حملوں میں مارے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس نے عصام الدعالیس کو ہلاک کیا، جو حماس کے سیاسی بیورو کے رکن تھے۔ وہ جون سن 2021 میں غزہ پٹی میں حماس کی انتظامیہ کے سربراہ بنائے گئے تھے۔
حماس اپنے سیاسی بیورو کے دو دیگر اراکین صلاح البردویل اور یاسر حرب کی ہلاکت کی بھی تصدیق کر چکی ہے۔
تاہم اس جنگجو گروہ کا کہنا ہے، ''قابض فوج کی جانب سے تحریک کے رہنماؤں اور ترجمانوں کو نشانہ بنانا ہماری مزاحمت کو کمزور نہیں کرے گا۔
‘‘ یورہی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ کے جنگجوؤں پر بھی حملےلبنان نے جمعرات کے روز بتایا کہ نئے اسرائیلی حملوں میں اس ملک کے جنوب میں چار افراد ہلاک ہو گئے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا۔
یہ حملے جنوبی لبنان میں جنگجوؤں کے خلاف جاری اسرائیلی حملوں کا تسلسل تھے، حالانکہ نومبر میں اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ جنگجو گروہ حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی طے پائی تھی۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے، ''جنوبی لبنان کے یُحمر کے علاقے میں حزب اللہ کے متعدد دہشت گردوں کو ہتھیار منتقل کرتے ہوئے دیکھا گیا، تو انہیں نشانہ بنایا گیا۔‘‘
حزب اللہ کے ساتھ ستائیس نومبر کی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی دفاعی افواج لبنان میں حزب اللہ کے ان فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں، جو ان کے بقول جنگ بندی کی خلاف ورزی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے آخر میں اس وقت سب سے شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی تھی، جب اسرائیلی حملوں میں جنوبی لبنان میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ حملے اسرائیل پر راکٹ فائر کے جواب میں کیے گئے تھے۔
غزہ میں خوراک کی قلتاقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ میں لاکھوں انسان ایک بار پھرشدید بھوک اور غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں کیونکہ فوجی کارروائیوں میں توسیع کے باعث خوراک کی ترسیل کے لیے امدادی کارروائیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے جمعرات کے دن انتباہ جاری ہوئے کہا کہ گزشتہ تین ہفتوں سے غزہ پٹی میں امدادی خوراک کی نئی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔
اس ادارے نے مزید کہا کہ خوراک کے موجودہ ذخائر زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں تک غزہ پٹی کے باسیوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا، تو غزہ پٹی میں خوراک کی قلت کا بحران شدید تر ہو جائے گا۔
یہ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیل میں داخل ہو کر اچانک ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں عسکری آپریشن شروع کیا تھا، جو حالیہ سیزفائر تک جاری رہا تھا۔
غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے، جن میں سے بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔
ادارت: عاطف توقیر، مقبول ملک