WE News:
2025-03-30@08:48:59 GMT

’انقلابی فیلنگز‘

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کا رویہ کچھ اس طرح کا چلا آرہا ہے جیسے یہ اقتدار میں براستہ انتخاب نہیں بلکہ اپنے حصے کا کوئی چھوٹا موٹا انقلاب فرانس برپا کرکے آئے ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ دوسری فتح امریکی سیاسی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے، اور اس کے لیے انہیں بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، مگر خود کو انقلابی ہی سمجھ بیٹھنا؟ وہ شاید جانتے نہیں کہ جس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا انہیں کرنا پڑا، اس طرح کی رکاوٹیں ترقی پذیر ممالک کی جمہوریت میں عام ہیں۔ خود ہمارے ہاں محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے کیریئر ہی دیکھ لیے جائیں جو مشکلات سے پر نظر آئیں گے۔ لیکن ہمارے ان رہنماؤں کو کبھی بھی یہ خوش فہمی لاحق نہیں رہی کہ الیکشن جیت کر انہوں نے کوئی انقلاب ایران برپا کرلیا ہے۔

سوال تو بنتا ہے کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو انقلاب والی فیلنگز کیوں آرہی ہیں؟ یقین جانیے جواب بالکل ہی سادہ سا ہے، سوویت زوال کے بعد جب ہمارے اس وقت کے کمیونسٹ حلقہ بگوشِ لبرلزم ہوگئے تو انہوں نے پورے اخلاص کے ساتھ یہ کوششیں شروع کردیں کہ پاکستان سوویت یونین جیسا نہیں بن پایا تو چلو امریکا جیسا ہی بن جائے، ان کی اس دوسری کوشش کا حال بھی پہلی کوشش جیسا ہوتا دیکھ کر امریکیوں نے طے کرلیا کہ اگر پاکستانی ہم جیسے بھی بننے پر آمادہ نہیں تو چلیں ہم ہی ان جیسے بن لیتے ہیں، اب ذرا یاد کیجیے وہ دور جب ہمارے دانشور ہمیں بتایا کرتے کہ امریکا میں جو بھی انتخاب جیت جائے اس کی فتح خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرلی جاتی ہے، اور یہ کہ یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ ہارنے والا دھاندلی کے الزام لگاتا ہے۔ ان حالات میں 2016 کا سال ایک ایسے سال کے طور پر آیا جب پہلی بار کسی امریکی صدر کی فتح تسلیم نہیں کی گئی، اور مزے کی بات یہ کہ امریکی انتخابی سیاست کو پاکستانی سیاست کی سطح پر لا پھینکنے والی یہ حرکت امریکی لبرلز نے ہی کی۔

ہمیں ہمارے لوکل لبرلز سالہا سال سے یہ بھی بتاتے آرہے تھے کہ یہودی سازش، بھارت کا ایجنٹ اور مودی کا یار جیسی باتیں صرف ہماری سیاست میں ہوتی ہیں، مہذب اقوام کے ہاں یہ سیاسی کلچر نہیں پایا جاتا۔ 2016 میں ہی ’روسی سازش‘ اور پیوٹن کا ایجنٹ جیسی باتیں ہم سب نے امریکی سیاست میں سنیں کہ نہیں؟ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، 2020 کا امریکی صدارتی انتخاب بھی دیکھ لیجیے، ڈونلڈ ٹرمپ نے ان انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کی؟ صرف یہی نہیں کہ شکست تسلیم نہیں کی بلکہ کیپٹل ہل پر ہی یلغار کروا دی۔ یوں گویا امریکی مقدس ایوان کو بھی پاکستانی ایوان کی سطح پر آنے کی سعادت نصیب ہوگئی، مگر ایک معاملے میں امریکا اب بھی ہم سے پیچھے تھا، وہ ہے ’سیاسی انتقام‘۔ مخالف رہنما کو درجنوں مقدمات میں الجھا کر عدالتوں میں گھسیٹنا ابھی باقی تھا، اس کار خیر کی توفیق بھی لبرلز کے حصے میں آئی، جوبائیڈن نے ٹرمپ کو عدالتوں میں اس شان سے کھینچا کہ نیویارک کے ایک جج نے تو یہ بھی ثابت کردیا کہ رشتے میں وہ پانامہ بینچ والے ججز کے بھی ابا حضور لگتے ہیں۔ مگرپاکستانی سیاست کی ہمسری میں ایک اہم چیز اب بھی باقی تھی، قتل اور اقدام قتل! سو 2024 کی انتخابی مہم میں امریکا اس باب میں بھی ہمارے لیول پر آگیا، ٹرمپ کی خوش قسمتی کہ وہ بال بال بچے ورنہ اگلوں نے اپنے حصے کا سانحہ لیاقت باغ برپا کرنے میں کوئی کمی چھوڑی نہ تھی۔

اب امریکا میں چونکہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عدالتی انتقام اور قاتلانہ حملوں سے بچ کر کوئی امیدوار انتخاب جیتا ہے تو اسے انقلابیوں والی فیلنگز تو آئیں گی، اگلے 15 سے 20 برسوں میں جب یہ سب امریکی سیاست کا بھی باقاعدہ معمول بن چکے گا تو تب انقلابیوں والی فیلنگز آنی بند ہوجائیں گی، اور اس آنے والے دور کے امریکی سیاستدان بھی اپنے ورکرز کو ووٹ کو عزت دلوانے والے چونے لگانے کا چلن اختیار کرچکے ہوں گے۔

انقلابی فیلنگز ہوتی تو بہت میٹھی ہیں مگر اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں، خود کو انقلابی سمجھنے کا پہلا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہوتا ہے کہ ان فیلنگز کا شکار شخص خود سر ہوجاتا ہے، وہ قدم قدم پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سسٹم کو بدلنے جا رہا ہے لہٰذا وہ کسی کی نہیں سنے گا، سسٹم بدلنے کے دعوؤں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے لازم ہے کہ نئے چہرے متعارف کرائے جائیں، پرانی شکلیں دیکھ کر تو لوگ پہلی ہی نظر میں سمجھ جاتے ہیں کہ اسٹیٹس کو بحال ہے، یوں ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں کئی چہرے ایسے ہیں جنہیں لونڈے لپاڑے کہنا بے جا نہ ہوگا۔ عام حالات میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ فاکس نیوز کا کیٹیگری دوئم کا اینکر امریکی وزیر دفاع بھی بن سکتا ہے۔ ممکن ہے آپ سوچیں کہ پیٹ ہیگسیتھ تو ریٹائرڈ فوجی افسر بھی ہیں یوں اس وزارت سے ان کا جوڑ بنتا تو ہے۔ سو عرض کردیں کہ موصوف دفاعی امور کی بس اتنی ہی قابلیت رکھتے ہیں کہ اپنے فوجی کیریئر میں لیفٹیننٹ کرنل رینک سے آگے نہ جاسکے، ممکن ہے اب آپ یہ سوچیں کہ بالعموم تو سویلین ہی وزیر دفاع ہوتے ہیں، سو اگر وہ اس وزارت کا قلمدان سنبھال سکتے ہیں تو کوئی لیفٹیننٹ کرنل کیوں نہیں؟۔ تو بات یہ ہے کہ جنگ کے متعلق کہاجاتا ہے “war is the extension of politics by other means” سادہ زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اوزاروں کے فرق کے ساتھ سیاست کا ہی تسلسل ہے، یوں جنگ کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک خالصتاً حربی جو میدان جنگ سے جڑا ہوتا ہے تو دوسرا سیاسی پہلو جس کے لیے جنگ استعمال ہورہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمیں جو سویلین وزرائے دفاع نظر آتے ہیں وہ جنگ کے سیاسی پہلو کے ہی ماسٹر ہوتے ہیں، اور پیٹ ہیگسیتھ کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

کچھ اسی طرح کا معاملہ تلسی گابرڈ کا بھی ہے، وہ حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل ہیں، انٹیلی جنس کی فیلڈ کا وہ بس اتنا ہی تجربہ رکھتی ہیں کہ یہ جانتی ہیں کہ دنیا میں حکومتوں کے تختے انٹیلی جنس ادارے الٹتے ہیں۔ یعنی اس فیلڈ کا کوئی تجربہ نہیں بس اس سے متعلق میڈیا رپورٹس ہی پڑھ سن رکھی ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تعینات فرما رکھا ہے۔ یوں امریکا کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ ان کو جوابدہ ہیں، اب مضحکہ خیزی دیکھیے کہ امریکا کی دو انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہ 3 اسٹار جنرلز ہوتے ہیں، ان میں سے ایک این ایس اے ہے اور دوسری ڈیفنس انٹیلی جنس، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں ایجنسیز کے حاضر سروس 3 اسٹار جنرلز اس وقت امریکی فوج کی حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل تلسی گابرڈ کے ماتحت ہیں۔ اگر جرنیلوں کو ذلیل کرنا مقصود ہو تو انہیں اس سے بری سزا نہیں دی جاسکتی کہ امریکی فوج کے 47 عدد 4 اسٹارز جنرلز سے ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل پیٹ ہیگسیتھ کو سیلیوٹ ٹھکوائے جائیں، اور دو عدد حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرلز سے لیفٹیننٹ کرنل تلسی گابرڈ کو یس میم! یس میم! کروایا جائے، مگر کیا یہ انقلابی فیلنگز سائیڈ ایفیکٹس کے بغیر ہوسکتی ہیں؟

ہم نے بطور مثال یہ دو نام پیش کیے ہیں ورنہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انقلابی فیلنگز کے زیر اثر اپنی ٹیم میں ان دو کے علاوہ بھی کئی جونیئرز بھر رکھے ہیں، جن میں نائب صدر جے ڈی وینس بھی شامل ہیں جو ایک جونیئر لیول کے سینیٹر تھے۔ اب دیکھیے سائیڈ ایفیکٹ جو کرارے جھٹکے کے ساتھ یوں ظاہر ہوا ہے کہ ٹرمپ ٹیم کے جملہ لونڈوں لپاڑوں نے مواصلاتی ایپ سگنل پر ایک چیٹ گروپ بنا رکھا تھا، جہاں یہ سارے ارسطو یمن پر حملے کی تیاری کے سلسلے میں تبادلہ خیال فرما رہے تھے، یہ سارا تبادلہ خیال دی اٹلانٹک میگزین نے اسکرین شاٹس سمیت چھاپ دیا ہے۔ صورت اس کی یوں بنی کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے اس چیٹ گروپ میں دی اٹلانٹک کے ایڈیٹر جیفری گولڈبرگ کو ایڈ کرلیا تھا، اور انہوں نے ہی یہ سب چھاپ ڈالا، جو ایک بڑے اسکینڈل کی شکل اختیار کررہا ہے۔

جیفری گولڈ برگ کٹر قسم کے لبرل ہی نہیں ہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بدترین مخالف بھی ہیں، سو پوری ٹرمپ انتظامیہ کا زور اس بات پر ہے کہ یہ تو بہت گھٹیا قسم کا صحافی ہے، اسے تو کوئی پڑھتا ہی نہیں، مگر یہ نہیں بتایا جارہا کہ امریکی سیکیورٹی ٹیم کے یہ سارے ارسطو ایک عام کمرشل ایپ پر چیٹ گروپ کیوں چلا رہے تھے؟ گویا دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت کی اعلیٰ سطحی سیکیورٹی ٹیم نہ ہوئی کسی پاکستانی کالج کے اساتذہ کا وٹس ایپ گروپ ہوگیا۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ اتنے حساس گروپ میں جیفری گولڈبرگ کیا کر رہے تھے؟ مائیک والٹز نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ تو انہیں جانتے تک نہیں، پتا نہیں یہ کیسے ایڈ ہوگئے۔

ہم بتائیں آپ کو کہ یہ جیفری گولڈبرگ اس چیٹ گروپ میں کیسے ایڈ ہوگئے؟ ٹرمپ ٹیم میں تلسی گابرڈ، پیٹ ہیگسیتھ، کاش پٹیل اور مائیک والٹز پکے ڈھکے صہیونی ہیں۔ اور صہیونیت وہ چورہا ہے جہاں لبرلز اور کنزرویٹوز باہمی جھگڑے بھول کر ساتھ بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں یک آواز ہوجاتے ہیں، یمن پر امریکی حملہ دراصل اسرائیل کے مفاد کے لیے ہی تھا تو جیفری گولڈ برگ کو کیسے نظر انداز کردیا جاتا؟ ان کا لبرل اور ٹرمپ مخالف ہونا نظرانداز کرکے بس یہ دیکھا گیا کہ یہ وہی جیفری گولڈ برگ ہے جو اسرائیل کی فوج میں ہی نہیں رہ چکا بلکہ پہلی انتفاضہ میں گرفتار ہونے والے فلسطینی قیدیوں پر بطور سفاک گارڈ بھی مسلط رہ چکا ہے۔ جب اس پس منظر کے ساتھ آپ آج کی تاریخ میں دی اٹلانٹک جیسے اہم لبرل میگزین کے ایڈیٹر ہوں تو آپ کو آن بورڈ رکھنا ضروری سمجھ لیا جاتا ہے۔ سو مائیک والٹز کا یہ کہنا کہ وہ تو جیفری گولڈبرگ کو جانتے تک نہیں ایک نری بکواس ہے، واردات ان پلاسٹکی انقلابیوں کے ساتھ یہ ہوگئی ہے کہ جیفری گولڈ برگ نے اسرائیلی مفاد دیکھنے کی بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کی انقلابی فیلنگز ختم کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews امریکی صدر انقلابی فیلنگز پاکستان جوبائیڈن صدر ٹرمپ لبرلز لوکل لبرلز واردات وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی صدر انقلابی فیلنگز پاکستان جوبائیڈن لوکل لبرلز واردات وی نیوز لیفٹیننٹ کرنل انٹیلی جنس تلسی گابرڈ ڈونلڈ ٹرمپ ہوتے ہیں ہی نہیں کے ساتھ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

وائٹ ہاؤس میں افطار پارٹی، پاکستانی سفیر کی شرکت پر ٹرمپ شکرگزار

جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں سالانہ افطار ڈنر کا اہتمام کیا جس میں سنہ 2024 کے صدارتی انتخابات میں حمایت پر مسلم امریکی برادری کا شکریہ ادا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا مسلمان کرسٹوفر کولمبس سے پہلے امریکا پہنچ گئے تھے؟  

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمان امریکیوں کی جانب سے ملنے والی حمایت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں ان لاکھوں مسلمان امریکیوں کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے سنہ 2024 کے صدارتی انتخابات میں ریکارڈ تعداد میں ہماری حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ مسلم کمیونٹی نومبر میں ہمارے ساتھ تھی اور جب تک میں صدر ہوں گا میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔

عشائیے کے دوران ٹرمپ نے رمضان المبارک کی روح پر بھی روشنی ڈالی اور ان مسلمانوں کی لگن کا ذکر کیا جو اس مقدس مہینے میں صبح سے شام تک روزے رکھتے ہیں۔

صدر نے مشرق وسطیٰ میں اپنی انتظامیہ کی سفارتی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔

مزید پڑھیے: امریکا سے بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار، ایران نے ٹرمپ کے خط کا جواب دیدیا

ٹرمپ نے سب کے لیے ایک روشن مستقبل بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس میں کوئی ایسا شخص ہے جو آپ سے محبت کرتا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ مسلمان ہر رات غروب آفتاب کے وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور روزہ افطار کرتے ہیں۔ انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ بالکل اس کی طرح آج رات ہمارے پاس بھی افطاری کا انتظام ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ پسند آئے گا۔

امریکی صدر کا پاکستانی سفیر کی موجودگی پر اظہار تشکر

افطارڈنر میں مختلف مسلم ممالک کے سفیروں اور امریکا کی سرکردہ مسلم کمیونٹی کی بعض اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔

مزید پڑھیں: امریکی انتخابات کے بعد پاکستان کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہوسکتا ہے؟

اس موقعے پر امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ بھی موجود تھے۔ صدرٹرمپ نے پاکستانی سفیر کی موجودگی پر بھی اظہار تشکر کیا۔

تقریب کے بعد صدر ٹرمپ نے کئی مہمان شخصیات بشمول سفیروں سے مختصر ملاقات اور مختصر بات چیت بھی کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا میں پاکستانی سفیر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس افطار پارٹی

متعلقہ مضامین

  • امریکی عدالت کا وائس آف امریکہ کے حق میں فیصلہ
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کے وائس آف امریکا کی بندش کے فیصلے کو معطل کردیا
  • امریکی جج نے وائس آف امریکا کی بندش اور عملے کی برطرفی روک دی
  • جوہری معاہدہ نہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، ٹرمپ نے ایران کو پھر دھمکی دیدی
  • مجھے جتوانے پر آپکا شکریہ ادا کرتا ہوں، ٹرمپ کا افطار ڈنر سے خطاب
  • مجھے جتوانے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ٹرمپ کا فطار ڈنر سے خطاب
  • وائٹ ہاؤس میں افطار پارٹی، پاکستانی سفیر کی شرکت پر ٹرمپ شکرگزار
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افطار ڈنر کا اہتمام ،،پاکستانی سفیر رضوان احمد شیخ کی شرکت
  • عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی کانگریس میں پیش بل کے پاکستان پر کوئی اثرات نہیں ہوں گے، سابق سفارتکار
  • ٹرمپ کے جوہری مذاکراتی خط کا جواب دے دیا، ایران