Express News:
2025-03-29@22:47:41 GMT

رمضان، عید اور جبرائیل کی بددعا

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کا آخری عشرہ سرعت کے ساتھ اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، آج 26 واں روزہ اور ستائیس ویں رات، ممکن ہے آج کی رات ہی شب قدر ہو، وہ شب قدر جس کی ایک رات کی عبادت کو اللہ رب العزت نے 80 سال کی عبادت کے برابر قرار دیا ہے۔ شبِ قدر کے لیے مخصوص رات متعین نہیں یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے مگر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہی "ایک شب قدر" ہوتی ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ "حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو"۔ طاق راتوں سے مراد، 21، 23، 25، 27، 29 کی راتیں ہیں۔ 21، 23 اور 25 تو گزر گئیں، باقی بچیں دو27 اور 29 کی طاق راتیں، اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ ان دونوں راتوں میں دل لگا کر عبادت کریں۔ پوری رات نہیں تو کچھ وقت ضرور شب بیداری کریں، ورنہ باجماعت نماز عشاء اور تراویح کے بعد دو، چار رکعت نفل پڑھ کر سوجائیں، بہتر ہے سحری سے پہلے دو چار رکعات نماز تہجد پڑھ لیں اورصبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لیں تو ان شاء اللہ اگر شبِ قدرگزری نہیں ہوگی تو مل جائے گی۔

اس بابرکت، مقدس اور جہنم کی آگ سے نجات والے مہینے کے اختتام پر آنے والی رات جسے عام طور پر چاند رات کہا جاتا ہے حقیقت میں وہ لیلۃ الجائزہ ہے، یہ رات خصوصی برکتوں، رحمتوں، بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت کی حامل ہے۔ جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ ثواب کی نیت سے عبادت کرنے والوں کے لیے بڑی سعادتیں اور خوش خبریاں ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ماہِ مبارک میں اپنی عبادات اور روزوں سے اس ماہ مقدس کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے، اللہ کی رحمت اور مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا، جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ کی تجلیات، انوارات و انعامات کے حق دار ٹھہرے۔

لیلۃ الجائزہ (چاند رات) میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخاوت و فیاضی کے ساتھ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، مگر یہ بدقسمتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت عموماً اس رات کی اہمیت سے غافل رہتی ہے اور اس عظیم رات کے قیمتی لمحات کو بازاروں، شاپنگ سینٹرز، مارکیٹوں اور گلی کوچوں میں گزار کر ان کے فیوض و برکات سے محروم رہ جاتی ہے۔ ہم نے رمضان کے ابتداء میں اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ اس مبارک مہینہ کی ناقدری کرنے والے کو کبھی حضرت جبرئیل امینؑ نے ان الفاظ میں بد دعا دی تھی کہ "ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی"۔ جس پر آپ ﷺ نے آمین کہی۔ خود آپﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایاکہ "بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی باران رحمت سے محروم رہا"۔ (کنز العمال، حدیث نمبر: 23693)

اس لیے ہمیں رمضان کے ان آخری لمحات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے رب العالمین کو راضی کرکے اپنی بخشش کا پروانہ لینا چاہیے، اللہ نہ کرے کہ ہماری غفلت ہمیں ہلاکت میں ڈالے اور آسمانوں میں ہمارا شمار ان بدبختوں میں ہو جو زمین پر عید کی خوشیاں منا رہے ہوں۔ اس لیے رمضان المبارک کے باقی لمحات اور خصوصاً آخری دو طاق راتوں اور بالخصوص لیلۃ الجائزہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے وقف کردیں۔

 عید الفطرمسلمانوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ آئیے آپ کو نبی رحمت کی ریاست مدینہ میں عید کے دن کی ایک جھلک دکھاتا ہوں، وجہ تخلیق کائنات آقائے نامدار نبی کریم ﷺ اپنے گھر مبارک سے نکل کر مسجد نبوی کی جانب بڑھنے لگے اچانک رسول اکرم ﷺ کے کانوں میں کسی بچے کے رونے کی آواز آئی، آپ ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ایک بچہ، اپنے ہم عمر بچوں کے قہقہے سن کر روتے ہوئے بے اختیار اپنی درد انگیز آواز بلند کرتا تھا۔

آپ ﷺ نے اپنا رخ انور اس کی طرف کیا تو کائنات کا رخ تبدیل ہوگیا حسن و حسین اور صحابہ پیچھے چل پڑے، آپ ﷺ بچے کے قریب پہنچے، بچہ اتنا بڑا مجمع اپنی طرف آتے دیکھ کر سہم گیا اور سسکیاں بھرنے لگا حضور ﷺ کی آنکھیں بند ہوگئیں اپنا یتیمی والا دور یاد آگیا۔ فرمایا بیٹا کیوں رو رہے ہو۔ بچے نے غور سے آپ ﷺ کی طرف دیکھا اسے پہلی بار احساس ہوا کہ باپ جب اپنے لخت جگر کو بیٹا کہہ کر پکارتا ہے تو کتنا لطف آتا ہے، بچہ حیران تھا کہ میں ایک یتیم ہوں میرا تو باپ مرچکا ہے، بھوکا ہوں، نئے کپڑے نہیں ہیں مجھے کون بیٹا کہہ کر پکار رہا ہے۔

یتیم پیغمبر ﷺ نے یتیم بچے کو اپنے دوش مبارک پر سوار کیا، بچے نے سوال کیا آپ کون ہیں؟ رحمت اللعالمین ﷺ نے جواب دیا کہ میں تمہارا ابا ہوں۔ بچے کو لے کرحضور اکرم ﷺ گھر تشریف لاتے ہیں حضرت عائشہؓ آپ ﷺ کو اچانک دیکھ کرحیران ہوجاتی ہیں وجہ پوچھتی ہیں۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "عائشہؓ تم اولاد کے لیے تڑپتی تھی نا آج خدا نے تمہاری آرزو پوری کردی میری اور سب مسلمانوں کی عید سے پہلے تمہاری عید ہوگئی۔ اللہ نے تمہاری سن لی۔ فرمایا یہ محمد ﷺ کا پسندیدہ بیٹا ہے"، عائشہؓ اہلًاوسھلًا مرحبا یا نبی کہہ کر بچے کو گود میں لے کر چومتی ہیں۔

حضور ﷺ نے اسے حسنین کریمین کے کپڑے پہنائے، کھانا کھلایا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے میں تیرا باپ، عائشہؓ تیری ماں، فاطمہؓ تیری بہن، علیؓ تیرے چچا اور حسنؓ و حسینؓ تیرے بھائی ہوں۔ کہنے لگا یارسول اللہ ﷺ اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوش وخرم باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رو رہا تھا اور اب بڑا خوش وخرم ہے بات کیا ہوئی ہے وہ کہنے لگا میں بھوکا، ننگا تھا اللہ رب العزت نے میرے کھانے اور کپڑے کا انتظام کردیا اور اب میرے باپ رسول اللہﷺ، ماں سیدہ عائشہؓ، بہن سیدہ فاطمہؓ، چچا سیدنا علیؓ، اور بھائی حسنؓ وحسینؓ بن چکے ہیں۔ یہ سن کا لڑکے کہنے لگے کاش آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے۔ یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی زیرکفالت رہا۔

تاریخ اسلامی کے اس درخشندہ واقعہ کو پڑھ کر میرا ذہن لمحہ موجود کے ان لاکھوں یتیموں اور یسیروں سے نہیں ہٹ رہا جن کے ماں باپ ارض مقدس فلسطین میں اسرائیلی درندوں کی بربریت کا شکار ہو کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر سے لے کر سرزمین فلسطین معصوم اور بے بس مسلمانوں کے خون سے سیراب ہوچکی ہیں۔ اگرچہ عیدالفطر 30دنوں تک مسلسل روزوں کی حالت میں بھوک وپیاس برداشت کرکے بار گاہ ایزدی میں خوشی و مسرت کا نام ہے۔ مگر یہ سوچا ہے اہل کشمیر اور خصوصاً اہل فلسطین صدیوں سے عید اور دوسری بڑی چھوٹی سب خوشیوں سے محروم ہیں۔

پوری دنیا میں مسلمانوں کے بچے عید کے دنوں میں کھلونوں کے ساتھ کھیل کر دل بہلاتے ہیں مگر غزہ کے معصوم بچوں کے نصیب میں کھلونوں کے بجائے بارود اور بم ہیں۔ غزہ کے بچے پورا دن اپنے والدین کی قبروں پر گزار کر پوری انسانیت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انھیں کس جرم کی پاداش میں یتیم کرکے ان کی زندگی سے رنگ و نور چھین لیا گیا اور ان کے والدین کو کیوںکر تاریک راہوں میں قتل کیا گیا؟ آج عالم اسلام کا کوئی حکمران ہے جو نبی کریم ﷺ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے ان یتیم بچوں کوسینے سے لگائے، ان کی آنکھوں کے آنسو پونچھے، انھیں نئے کپڑے پہنائے تاکہ یہ بھی عید کی خوشیاں منا سکیں۔ اگر 75 اسلامی ممالک میں ایسا کوئی حکمران نہیں اور عوامی سطح پر ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے تو پھر اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہمارا شمار ان بدبختوں میں تو نہیں ہوگیا جن کو جبرائیل امینؑ نے بددعا دی تھی؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان المبارک کے لیے اس ماہ

پڑھیں:

اللہ لوگ سزا یافتہ بیٹا

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بیٹے حسن نواز سے 1998ء اور 1999 ء کے دوران لندن میں دو بار ملاقات ہوئی۔ چند روز پہلے جب یہ خبر پڑھی کہ حسن نواز شریف انگلینڈ میں ٹیکس نادہندہ قرار پائے ہیں تو ان سے ہوئی یہ ملاقاتیں یاد آگئیں۔ اس مد میں حسن نواز شریف کو لندن کی عدالت نے بھاری جرمانہ عائد کیا۔ میں انگلینڈ میں 1998 ء میں گیا۔ پہلی بار حسن نواز سے تب ملا جب میں اپنے ایک مہربان چوہدری سعید کے ہمراہ لندن پارک لین میں واقع ان کے گھر گیا۔ یہ اپارٹمنٹ نما گھر تھا جسے بہت سادگی سے سجایا کیا گیا تھا۔ ہمیں جس ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا اس کے صوفے اور میز عام لکڑی کے تھے جو زیادہ قیمتی نظر نہیں آ رہے تھے۔ میزوں پر رکھی چیزیں اور پردے وغیرہ بھی بہت سادہ تھے۔ لیکن ایک چیز نے مجھے بہت متاثر کیا اور سیاست دانوں کے بارے میں میری تنقیدی سوچ کو ابھارا۔ شائد اسے آپ بناوٹ کہیں یا تفاخر اور تصنع کا نام دیں۔ لیکن اتنے بڑے سیاست دان کے اندر یہ ذرا سی نمائش اور شوخی زیادہ قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ ڈرائنگ روم کے چاروں طرف میاں نواز شریف کی تصاویر آویزاں تھیں۔ ان تمام تصاویر میں میاں صاحب امریکی صدور، امریکی سفرا یا چند ایک مغربی وزرائے اعظم اور کچھ عرب سربراہان مملکت کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے تھے۔ اس سے مجھے یہ لگا کہ ہمارے حکمران کس طرح امریکہ اور مغربی دنیا سے مرعوب ہیں اور ان کے ساتھ تصویر کھینچوانے کو بھی کتنا یادگار سمجھتے ہیں۔ اس ملاقات کے دوران ہماری تواضع چائے، بسکٹس اور پیسٹریوں وغیرہ سے کی گئی۔ یہ شریف فیملی کا خاصا ہے کہ وہ گھر آئے مہمانوں سے لسی پانی پوچھتے ہیں اور خاطر تواضع میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ اس کے برعکس عمران خان کا مہمان نوازی کے معاملے میں ہاتھ کافی ڈھیلا ہے اور ان کے ساتھی ان سے اکثر شاکی رہتے ہیں۔ اس کا اظہار کچھ بار خود عمران خان نے بھی کیا ہے۔ ایک دفعہ امریکی سفیر عمران خان سے کینسر ہسپتال میں ملنے گئے تو انہوں نے ان کی تواضع چائے کے ساتھ عام دکان سے خریدے گئے پانچ روپے والے بسکٹوں کے پیکٹ سے کی تھی۔ جبکہ شریف فیملی کا مہمانوں کے لئے لنگر ذرا پرتکلف ہوتا ہے۔ چوہدری سعید میاں نواز شریف کے اس گھر میں اکثر آتے جاتے تھے اور حسن نواز کے ساتھ ان گفتگو خاصی بے تکلفی پر مبنی تھی۔
حسن نواز سے دوسری دفعہ ملاقات چوہدری سعید (جو سابق پارلیمینٹیرین چوہدری خورشید زمان کے بڑے بھائی ہیں) کے گھر پر ہوئی۔ چوہدری سعید چوہدری محمد ریاض کے چھوٹے بھائی ہیں۔ چوہدری محمد ریاض تین دفعہ نون لیگ کے ٹکٹ پر راولپنڈی گوجر خان کے حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ گوجر خان کے چوہدری برادران کی سیاست زیادہ تر لندن میں ان کے میاں نواز شریف اور ان کی والدہ سے پرانے مراسم کا نتیجہ تھی۔ چوہدری سعید عموماً پاکستان سے آنے والے سیاست دانوں اور ممبران اسمبلی کا ایئرپورٹ پر استقبال کرتے تھے اور بعد میں ان کی مہمان نوازی میں بھی فراخ دلی سے کام لیتے تھے۔ اس دفعہ حسن نواز کو تینوں بھائیوں نے لندن کے الفورڈ بارکنگ سائیڈ ایریا میں واقع اپنے گھر پر مدعو کیا تھا۔ حسن نواز کے ساتھ میاں شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز بھی تشریف لائے۔ چوہدری سعید اور میں کھانے کے دوران مہمانوں کو چیزیں اٹھا اٹھا کر دیتے رہے۔ حسن نواز کی طبیعت انتہائی سادہ تھی۔ میں نے انہیں خاموش طبع پایا اور کھانے کے دوران وہ مجھے کسی گہری سوچ میں گم سم نظر آئے۔ ان کے بارے ان دنوں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ ’’اللہ لوگ‘‘ ہیں۔ اسی کھانے کی میز پر چوہدری سعید، چوہدری محمد ریاض اور چوہدری خورشید زمان نے زبیر گل کا تعارف حسن نواز اور حمزہ شہباز سے کروایا جس کے نتیجے میں انہیں چند ماہ بعد انگلینڈ میں نون لیگ کا کنوینر مقرر کر دیا گیا۔ حمزہ شہباز شریف اپریل 2022 ء سے جولائی 2022 ء تک تین ماہ کے لئے پنجاب کے چیف منسٹر رہے۔ زبیر گل کا لندن میں اچھا کاروبار تھا۔ پاکستان کی سیاست پیسے کا کھیل ہے اور امیر شرفا اسے اپنی ’’ہابی‘‘ سمجھتے ہیں۔ اسی دوران زبیر گل کو پنجاب میں بھی حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔ جب پارٹی ختم ہوئی تو جانے سے پہلے حمزہ شہباز نے حسن نواز کے کانوں میں کچھ کہا اور پھر حسن نواز نے اپنی جیب سے پچاس پونڈ کی ٹپ نکال کر میری مٹھی میں رکھ دی۔
کچھ دن پہلے جب ایک معاصر صحافی نے حسن نواز کے بارے یہ خبر بریک کی تو یقین ہو گیا کہ حسن نواز واقعی کتنے اللہ لوگ انسان ہیں۔ میں اس بات کا ’’چشم دید‘‘ اور ’’ٹپ ہولڈر وٹنس‘‘ ہوں کہ انسان جتنا بھی سادہ اور معصوم ہو جہاں پیسے کا معاملہ ہو اس سے زیادہ تیز اور شاطر کوئی بھی ثابت نہیں ہوتا۔ خبر کے مطابق حسن نواز برطانیہ میں ٹیکس ڈیفالٹر قرار دیئے گئے ہیں جن پر 5اشاریہ 2ملین پائونڈ کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اچھا ہوا کہ حسن نواز کو پاکستان کی سیاست میں نہیں آزمایا گیا۔ ان کی جگہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست میں اتارا جن پر تاحال کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور وہ بطور پنجاب چیف منسٹر اچھی کارکردگی بھی دے رہی ہیں۔
اس حوالے سے حسن نواز کے قریبی قانونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریونیو کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے کچھ دن پہلے شائع شدہ ’’اعداد و شمار‘‘ پرانی کہانی ہے۔ حسن نواز نے کورٹ میں خود کو دیوالیہ ڈیکلیئر کیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ پرانی کہانی ہو مگر حسن نواز کا کردار وہی ہے جسے دہرایا گیا ہے۔ہماری ملکی سیاست کا زیادہ تر دارومدار اخلاص، اہلیت اور کارکردگی کی بجائے اس نوع کی’’پارٹی سیاست‘‘ پر ہے جس میں تعلقات، خوشامد اور رکھ رکھاو وغیرہ کو نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ ہماری تاریخ ان تلخ سیاسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جسے سیڑھیاں بنا کر ہمارے معصوم سیاست دان آگے بڑھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دہشتگردی کیخلاف قومی اتفاق رائے کی ہر کوشش کا خیر مقدم کریں گے، رانا ثنا اللہ
  • ہم صرف اللہ کے سامنے جھکتے ہیں وقت کے یزیدیوں اور فرعون کے سامنے نہیں، اسدالدین اویسی
  • اللہ لوگ سزا یافتہ بیٹا
  • دین: عبادات یا کردار؟
  • اللہ کو راضی کرنا ہے تو مظلوموں کو انصاف دیں، ڈاکٹر طاہرالقادری
  • حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کا وعدہ
  • رمضان اور ہماری غلط فہمی
  • الوداع رمضان الکریم
  • کینالز کے معاملے پر جو اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگا اس پر عمل ہوگا، راناثناء اللہ
  • لیلۃ القدر: رحمت، برکت اور مغفرت