Express News:
2025-03-30@13:50:35 GMT

شب قدر خزینۂ رحمت الٰہی

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں، آخری عشرے کی طاق راتوں میں، وہ سعادتوں سے بھری گھڑی جس کا انتظار ہر مسلمان کی آنکھوں میں سجا ہے، جیسے حاصل کرنا ہر روزہ دار کی خواہش و چاہ ہے، وہ رات جو ہر اس دل کا ارمان ہے جو صاحب ایمان ہے، قدرت کا وہ انعام جو پل پل ہمیں نوید دے رہا ہے، باب رحمت کھلا ہے رب مہربان ہے۔

ہمیں شب قدر دی گئی۔ جس طرح رمضان کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ زیادہ افضل ہے اور اس کی عظمت و برتری اس لیے ہے کہ اس میں لیلۃ القدر نہایت ہی قدر و منزلت و خیر و برکت کی حامل رات ہے۔

یہی وہ رات ہے جس میں انسانی زندگی کی راہ نمائی کے لیے خدا کا آخری دستور اور انسانی فلاح کا منشور قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یک بارگی نازل ہُوا۔ اس رات کی فضیلت میں یہی بات کم نہ تھی کہ اس کی فضیلت بیان کرنے کے لیے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ القدر کے نام سے نازل ہوئی جس میں رب العزت نے خود اس کی بزرگی، عظمت و بڑائی بیان کی، جس کا مفہوم یہ ہے: ’’تم کیا جانو شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں جبرائیلؑ و فرشتے اترتے ہیں رب کے حکم سے ہر کام کے لیے، یہ رات سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘‘

یہ عظیم المرتبت رات ہمیں یوں ہی نہیں نصیب ہوئی، رب کریم کی یہ خاص عنایت، اس عظیم رات کا حصول نبی کریم ﷺ کی امت پر شفقت و غم خواری ہے کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں کس طرح سابقہ امتوں کی عبادت میں برابری کرسکتے ہیں، پس اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی غم خواری دیکھتے ہوئے آپؐ کو شب قدر عطا کی۔ یہ عظیم رات ہمیں سرکار دو عالمؐ کی غلامی کے صدقے نصیب ہوئی۔ یہ رات امت کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ شب قدر اﷲ تعالیٰ نے صرف میری امت کو عطا فرمائی پہلی امتوں کو نصیب نہیں ہوئی۔

سورہ القدر کی نورانی آیات غور سے پڑھیں تو اس کی پہلی آیت میں ارشاد ربانی کہ تم کیا جانو شب قدر کیا ہے! یعنی فیض و برکت والی یہ رات معمولی نہیں کہ اسے سو کر گزار دیا جائے، یہ اﷲ کی حکمتوں کا وہ راز جس کو وہی جانتا ہے اور جسے انسان کی ناقص عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک رات ہزار مہینوں کے برابر، وقت کا اس قدر وسیع پیمانہ، اس ایک رات میں سمویا گیا ہے کہ ایک لمحہ کی غفلت ہمیں بخشش کی منزل سے صدیوں دور کرسکتی ہے۔ خدا کے قُرب کے جو مواقع اس رات میں ملتے ہیں وہ ہزار راتوں میں بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔

اس رات فرشتے اس کثرت سے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین تنگ پڑجاتی ہے اس میں فرشتے اور روح الامین یعنی جبرائیل علیہ السلام امور کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے زمین پر اترتے ہیں، قرآن نے اس رات کو فیصلوں کی رات کہا ہے۔ اس رات میں حکمت و امور کی تقسیم ہوتی ہے، خاص اﷲ کے حکم سے۔ حدیث رسول ﷺ کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی ایک سال کی تقدیر اور فیصلے کا قلم دان فرشتوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ شب قدر میں حضرت جبرائیلؑ فرشتوں کے جھرمٹ میں، زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر الٰہی میں مشغول کھڑا یا بیٹھا دیکھتے ہیں اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

’’یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔‘‘ ہزار مہینوں میں 84 سال اور چار ماہ بنتے ہیں اور جس نے یہ ایک رات عبادت میں گزار دی، اس نے اتنے سالوں کا ثواب حاصل کرلیا۔ فرمان رسول کریمؐ کا مفہوم : ’’جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ قیام کیا اس کے گزشتہ سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ جو اس رات فیض پاگیا سمجھ لیں وہ دین و دنیا سنوار گیا۔ قرآن نے اس مبارک رات کی نوید دی اور حضور ﷺ نے یوں اس کی تائید کی۔

حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس رات کی بھلائی و خیر سے وہی شخص محروم ہوسکتا ہے جو حقیقتاً محروم ہو۔‘‘ (ابن ماجہ) جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ (متفق علیہ) یہ عظیم المرتبت رات امت مسلمہ کے لیے رحمٰن رب کریم کا بہت بڑا انعام و تحفہ ہے اس لیے کسی بھی شخص کو اس کی تلاش سے بیگانہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘

شاید اس لیے بھی تعین نہ فرمایا تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزاری جائیں، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اگر شب قدر نصیب ہو تو کیا دعا پڑھوں تو آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اﷲ! تُو بے شک معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرمادے۔‘‘

(احمد ابن ماجہ، ترمذی) اور یہی آخری عشرے کی دعا ہے۔ ہر مسلمان کو اس عظیم المرتبت رات سے حسب توفیق فیض یاب ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 آپ بھی ان طاق راتوں میں تھوڑا سا اہتمام کرکے شب بیداری کریں، جیسے حضور ﷺ کرتے تھے۔ یہ رات تو ایسی رات ہے کہ اس رات کی تمام گھڑیاں ہمیں بار بار جگا کر کہتی ہیں میں ہر لمحہ اس کی قربت کی جستجو میں گزرنا چاہیے کیوں کہ ہماری ساری امیدیں اس کی رحمت و رضا سے وابستہ ہیں اس لیے طاق راتوں میں بیشتر حصہ اﷲ کے حضور قیام و صلوٰۃ ، تلاوت و ذکر دعا و استغفار میں گزاریں تو کسی بھی شخص کا شب قدر کی برکات سے محروم رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

زندگی کے اس برق رفتار سفر میں اﷲ نے ماہ رمضان کا پڑاؤ یونہی نہیں عطا کیا اور اس میں ’’شب قدر‘‘ رحمتوں کا باب اس لیے کھولا تاکہ ہم دنیا کے شر سے محفوظ ہوکر اس میں پناہ لیں۔ اپنی بخشش کا سامان اور اپنی آخرت کا اہتمام کریں۔ اﷲ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے قلب و روح کو بالیدگی عطاء کریں اور تقویٰ کی ناقابل تسخیر قوت حاصل کریں، کیا بعید آپ کی رمضان میں کی ہوئی ریاضتوں کے عوض آپ کی دعائیں شرف قبولیت پاجائیں اور ہمیں آگ سے خلاصی کا پروانہ یعنی توشہ آخرت مل جائے۔

دعا ہے پروردگار ہم سب کو شب قدر کی برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاق راتوں میں ہزار مہینوں اترتے ہیں اﷲ تعالی شب قدر کی اس لیے کے لیے اس رات یہ رات رات کی

پڑھیں:

ٹیلی سے موبائل فون تک

میرے پیا، او میرے پیا گئے رنگون

کیا ہے وہاں سے ٹیلی فون

تمہاری یاد ستاتی ہے، تمہاری یاد ستاتی ہے

1949 کی فلم ’پتنگا‘ کے اس گیت کا سہرا یقیناً شاعر، موسیقار اور گلوکاروں کو جاتا ہے، مگر گراہم بیل کو بھی اگر آپ کریڈٹ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اگر وہ فون نہ ایجاد کرتے تو شاید یہ گیت نہ بنتا

یوں تو ٹیلی فون کی ایجاد کے حوالے سے مختلف افراد کا دعویٰ موجود ہے۔

تاہم فون کا موجد اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے گراہم بیل کو ہی مانا جاتا ہے۔ 10 مارچ 1876 وہ تاریخ ساز دن جب پہلی ٹیلی فون کال کی گئی۔

اس ایجاد نے آنے والے وقتوں میں مواصلات کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ اس کے بعد کبھی آہستہ تو کبھی تیزی کے ساتھ فون ترقی کی منازل طے کرتا گیا، 1878 میں امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے شہر نیو  ہیون میں پہلا ٹیلی فون ایکسچینج قائم کیا گیا۔

اس کی مدد سے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کو فون کرنا ممکن ہوا تو اس سسٹم سے ٹیلی گراف وائرز کی ضرورت بھی ختم ہوئی۔

1891 کا سال بھی ٹیلی فون کی تاریخ کا یادگار سال ہے، اس برس پہلا ڈائل ٹیلی فون وجود میں آیا۔ اس کی مدد سے آپریٹر پر انحصار ختم ہوا اور کالر کو خود فون نمبر ڈائل کرنے کی سہولت ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سسٹم کی کارکردگی میں بھی بہتری آئی۔

1927 میں مواصلات کی دنیا میں ایک اور اہم کامیابی ملی، ٹیلی فون کے ذریعے طویل فاصلے تک گفتگو کی گئی، دنیا کی پہلی ٹرانس ایٹلانٹک کال نیویارک اور لندن کے درمیان کی گئی۔

اس مقصد کے لیے سمندر کے نیچے خصوصی کیبلز بچھائی گئی تھیں، یہ اس وقت ایک بہت بڑی تکنیکی کامیابی سمجھی گئی، اس سے پہلے فون کالز صرف قریبی علاقوں تک ہی ممکن تھیں اور طویل فاصلے کے لیے خط یا ٹیلی گراف کے ذریعے بات کرنی پڑتی تھی، ٹرانس اٹلانٹک فون کال کی بدولت دنیا بھر میں رابطہ کرنا بہت آسان ہو گیا اور مواصلات کا نظام تیز اور مؤثر ہو گیا۔

1947 میں امریکی کمپنی بیل لیبز نے موبائل فون کا ایک ابتدائی تصور پیش کیا، اسے موبائل فون کی ابتدا بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس تصور کو حقیقت بننے میں 26 برس لگے۔

موٹورولا کمپنی نے 1973 میں پہلا پورٹ ایبل سیل فون ایجاد کیا۔ اس ایجاد نے فون کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا۔ تاہم، عام لوگوں تک اس فون کی رسائی نہیں تھی۔ اس کا وزن تقریباً ڈھائی کلوگرام  اور اس کی بیٹری کا دورانیہ بھی بہت کم تھا، یہ فون صرف 20 منٹ تک چلتا تھا اور اسے تقریباً 10 گھنٹے چارج کرنا پڑتا تھا، اس فون کی قیمت تقریباً 3,500 امریکی ڈالر تھی، جو آج کے حساب سے تقریباً 10 ہزار امریکی ڈالر یا 28 لاکھ پاکستانی روپے بنتی ہے۔

موبائل فون تک عام لوگوں کی رسائی 1990 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے شروع میں ہوئی۔ اس سے پہلے موبائل فونز بہت مہنگے تھے اور صرف امیر لوگوں تک  ہی محدود تھے۔

90 کی دہائی کے وسط میں موبائل فونز کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئیں، نیٹ ورک کی رسائی بڑھی اور یہ فون عام افراد تک پہنچنے لگے۔

1990 کے دہائی کے آخر میں نوکیا، سونی ایرکسن، اور موٹورولا جیسے برانڈز نے سادہ اور نسبتاً سستے موبائل فونز مارکیٹ میں متعارف کرائے، ان فون کے ذریعے کالنگ اور میسجنگ کے علاوہ بھی کچھ اور فیچرز بھی ہوتے تھے۔

2000 کی دہائی کے آغاز تک موبائل فونز کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا اور یہ دنیا کے بیشتر حصوں میں تقریباً ہر فرد کی پہنچ میں آ گئے۔ اس کے بعد موبائل فونز نے چیتے کی سی رفتار سے ترقی کی اسپیڈ پکڑی۔

کیمرہ موبائل کا لازمی حصہ بنا، پھر اسمارٹ فون نے تو ایک ایسی نئی دنیا کی بنیاد رکھی، جس میں ہر روز ہی نئے شہر بستے ہیں۔

1991 میں 2G  نیٹ ورک شروع ہوا، آواز، ٹیکسٹ اور ملٹی میڈیا پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا، 2001 میں 3G  نیٹ ورک نے اینٹری دی، ویڈیو اسٹریمنگ اور ویب سرفنگ کا آغاز ہوا۔ 2009 میں 4G  نیٹ ورک وجود میں آیا، 10 برس بعد موبائل صارفین کو 5G  نیٹ ورک کا ساتھ ملا۔

ابتدا میں ’کی پیڈ‘ والے موبائل فون استعمال ہوتے تھے، وقت بدلا تو ان کی جگہ ٹچ اسکرین موبائل نے لے لیے، موجودہ دور میں ہر کسی کے ہاتھ میں ایسے ہی فون ہوتے ہیں، آج کل آپ کے ہاتھ میں فون نہیں، ایک پوری دنیا ہوتی ہے۔

نئے اور جدید موبائل فونز نے صارفین کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں پیدا کر دیں۔ کوئی معلومات چاہیے،  گوگل ہے نا ۔۔۔ کوئی کتاب پڑھنی ہو، لائبریری جانے کی ضرورت نہیں، آرام سے گھر بیٹھے سب کچھ صرف ایک کلک کی دوری پر۔

بجلی  یا گیس کے بل جمع کرانا ہوں تو نہ بینک جانے کی ضرورت نہ لمبی لائن میں کھڑا ہونے کا جھنجھٹ، سب کچھ موبائل کے ذریعے ممکن ہے۔

کسی چیز کی انسٹالمینٹ یا پھر انشورنس جمع کروانی ہو، کوئی مسئلہ نہیں۔ اب تو گھر بیٹھے آن لائن چیزیں منگوانا بھی بہت آسان ہو گیا ہے۔ انتہائی کم قمیت پر گاڑی، بائیک یا لوڈنگ گاڑی کی سہولت بھی آپ کے ہاتھ میں موجود ہے ۔

موبائل اور انٹرنیٹ نے کئی اشیا کو ماضی کا حصہ بھی بنایا ہے۔ گھروں میں لینڈ لائن فون تقریباً ختم ہو چکے ہیں، اس جادوئی چیز نے عید کارڈز کو بھی تقریباً ماضی کا حصہ بنا دیا ہے۔

واٹس ایپ نے بھی انقلاب برپا کر دیا۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کال کرنی ہو، وہ بھی آڈیو یا ویڈیو، مرضی آپ کی، کال نہ ہو رہی تو پیغام بھیجیے، انٹرنیٹ سے سب کچھ ممکن ہے۔

اس جادوئی دنیا نے خطوط اور ڈاکیا کو آج کے دور کے بچوں کے لیے اجنبی بنا دیا ہے۔ لیٹر باکس بھی کسی تنہا مسافر کی طرح اپنے مہمان کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

خط کا انتظار اور اس کے ملنے کی خوشی آج کے بچے بھلا کیا جانیں۔  عید کارڈز بھیجنے کی روایت بھی اب نہ رہی۔ نقشے بھی ماضی کا حصہ بن گئے، اب کہیں بھی جانا ہو، منزل کا نہیں پتہ، کوئی مسئلہ نہیں، گوگل میپ آپ کو آپ کی منزل تک پہنچائے گا۔

ڈائری میں فون نمبرز محفوظ کرنے کی جھنجھٹ کا بھی خاتمہ ہوا۔ CLI  کس چڑیا کا نام ہے، نئے دور کے بچے شاید ہی اس سے واقف ہوں۔

موبائل نے الارم گھڑیوں کا بھی خاتمہ کر دیا ہے، کلائی پر بھی اب گھڑیاں کم کم ہی سجتی ہیں۔ کلینڈرز اور ٹارچ بھی اب ہماری زندگی کا حصہ کم ہی ہیں۔ انٹرنیٹ تک رسائی آسان ہوئی تو  انٹرنیٹ کیفے کا  بھی خاتمہ ہوا۔

کسی زمانے میں خوبصورت یادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیمرے خریدے جاتے تھے، اب موبائل میں سب کچھ موجود ہے، تصویریں کھینچیں یا پھر ویڈیوز بنائیں، کوئی مسئلہ نہیں۔

واک مین یا پھر MP3 پلیئر کو بھی وقت کی تیز دھار نے نہ بخشا۔ ٹیپ ریکارڈز، وی سی آر یا پھر آڈیو اور ویڈیو کیسٹ، سب کچھ اب صرف یادوں میں رہ گیا ہے۔ اب موبائل میں گیمز کا بھی خزانہ موجود ہوتا ہے، جو گیم چاہیے انسٹال کریں اور کھیلیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے آپ آپ کا موبائل اب آپ کا ٹی وی بھی ہے، آئی پی ٹی وی کے ذریعے آپ کے موبائل فون پر چینلز کی اک نئی دنیا آپ کا استقبال کرتی ہے، یوٹیوب کی مدد سے اپنی پسند کا جو بھی ڈرامہ دیکھنا چاہیں، کوئی مسئلہ نہیں، موبائل کی اس نئی دنیا میں گھر بیٹھے کئی افراد لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی طبی دنیا میں بھی انقلاب لائی ہے، اگر ڈاکٹر کے پاس جانا مشکل ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، ڈاکٹر میلوں دور کسی حد تک معائنہ بھی  کر سکتا ہے۔

ایک دلچسپ بات ’موبائل فون بہت کچھ کھانے کے بعد بھی سمارٹ فون کہلاتا ہے‘۔

موبائل کی جادوئی دنیا کے فائدے تو کئی ہیں مگر نقصانات بھی ہیں، ان کا بہت زیادہ استعمال کئی مسائل بھی پیدا کرتا ہے، خاص طور  پر بچوں پر ان کے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں، کئی افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس نے سماجی رابطے   بھی کم کر دیئے ہیں، ایک ہی جگہ پر قریب رہتے ہوتے بھی دور دور ہوتے ہیں۔

موبائل فون کے فائدے زیادہ ہیں یا نقصانات۔ یہ تو آپ کے استعمال پر منحصر ہے مگر موجودہ دور میں اس کے بغیر گزارا بھی ممکن نہیں۔

ایک ٹچ پہ دنیا اور دوریاں سب سمٹ گئیں

مگر اک جدائی کی دیوار بھی کھچ گئی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے احتجاج کو ہمیشہ غلط سمجھا جاتا ہے، صدر، وزیر اعظم بتائیں ہم کہاں جائیں، خالد مقبول صدیقی
  • رحمت اللعالمین ﷺ کی عید
  • براہیم کی تلاش
  • سکردو میں یوم القدس ریلی سے علامہ حسن ظفر نقوی کا خطاب
  • عید کے دن
  • یومِ القدس مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی اور امت کے اتحاد کا دن ہے، گورنر سندھ
  • ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور اب ہمیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں، شیخ وقاص اکرم
  • ٹیلی سے موبائل فون تک
  • ‎افغانستان میں دہشت گرد ٹھکانے ہمیں غیر محفوظ بنا رہے ہیں، طارق فاطمی
  • رمضان المبارک کے روزے رحمت و مغفرت کا سبب ہیں، جمعتہ الوداع کے موقع پر امام کعبہ کا خطبہ