ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن  (ڈبلیو سی اے) نے کرکٹ  کے موجودہ اسٹرکچر میں تبدیلی کے لیے تجاویز دے دی ہیں۔

ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن نے 64 کرکٹرز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے رپورٹ تیار کی ہے جس میں کرکٹ کے موجودہ اسٹریکچر اور گورننگ میں تبدیلی کی تجاویز دی گئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سائیکل کے اختتام پر کرکٹ کا نیا اور واضح کیلنڈر تشکیل دیا جائے، انٹرنیشنل کرکٹ اور لیگ میچز کے لیے طے ونڈوز رکھی جائیں۔

ڈبلیو اے سی نے تجویز دی ہے کہ  انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے ہر سال 21، 21 روز کی 4 ونڈوز رکھی جائیں، باقی کیلنڈر کو فری ونڈو قرار دے کر اس میں ڈومیسٹک لیگ کی اجازت دی جائے.

عالمی کرکٹرز  کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عالمی کرکٹ تیزی سے کلب بمقابلہ کلب کے فارمیٹ کی طرف جا رہی ہے لہٰذا فرنچائز کرکٹ  بڑھتے رجحان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی اہمیت کو برقرار رکھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلیئرز کو فرنچائز سے معاہدہ کرنے کے لیے ہوم بورڈ کی این او سی کی شرط ختم کی جائے، فرنچائز ٹیمیں انٹرنیشنل ونڈو میں پلیئرز کو نیشنل ڈیوٹی کے لیے ریلیز کرنے کی پابند ہوں گی۔

یہ  بھی تجویز دی گئی ہے کہ دو طرفہ سیریز کے میچز کو بامقصد رکھنے کے لیے ہر فارمیٹ میں ڈویژن کی بنیاد پر مقابلے کیے جائیں۔

ڈبلیو سی اے کے مطابق ٹیسٹ کرکٹ کے 2 سالہ سائیکل میں 12 ٹیمیں 2 ڈویژن میں مقابلہ کریں، ڈویژن ون میں 8 اور ٹو میں 4 ٹیمیں ہوں.

تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے لیے 4 ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوں جبکہ ہر ٹیم اپنے ڈویژن میں موجود دوسری ٹیم سے اس فارمیٹ کا کم از کم ایک میچ کھیلنے کی پابند ہو۔

ڈبلیو سی اے نے تجاویز دی ہیں کہ موجودہ اسٹرکچر میں ٹیموں کے درمیان مقابلوں کا کوئی بیلنس موجود نہیں، آئی سی سی کی آمدن کی تقسیم کو شفاف بنایا جائے، چھوٹی ٹیموں کی مدد کے لیے سینٹرل پول رکھا جائے اور انٹرنیشنل کرکٹ خودمختار اور آزاد اسپورٹس باڈی کے طور پر ری اسٹریکچر کی جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے لیے

پڑھیں:

موجودہ پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ حکومت عمران خان کو جتنا چاہے قید رکھ سکتی ہے، فواد چوہدری

سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ قیادت کے دور میں عمران خان کو حکومت جتنی دیر اندر رکھ سکی وہ رکھے گی کیونکہ عدالتوں کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کو رہا نہیں کروایا جا سکتا۔

وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں فواد چوہدری نے پارٹی میں فارورڈ بلاک کا زمہ دار شبلی فراز اور سلمان اکرم راجا کو قرار دیا جنہوں نے عمران خان کو 23 موجودہ ارکان اسمبلی اور سینیٹ کی لسٹ دے کر انہیں نکالنے کی سفارش کی۔

’سلمان راجا جیسے بونے پی ٹی آئی چلائیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ جب آپ 23 ایم این ایز اور سینیٹرز کی لسٹ عمران خان کو دیں گے کہ ان کو پارٹی سے نکال دیں تو فارورڈ بلاک نہیں بنے گا تو کیا ہوگا؟۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک کی باتیں وہیں سے شروع ہوئیں جب شبلی فراز اور سلمان راجا جیسے نااہل لوگوں نے خان کو سیٹنگ ایم این ایز اور سنیٹرز کو نکالنے کا کہا۔

’پی ٹی آئی میں بدقسمتی سے یہ رواج ہے اوپر سے لیکر نیچے تک کہ جو لوگ ان کے ساتھ ہوتے ہیں ان کی تضحیک کی جائے۔ جب آپ اس طرح لوگوں کی بے عزتی کریں گے تو کون رہے گا؟‘

اڈیالہ میں موجودہ قیادت کی ملاقات کا ایک ہی ایجنڈا ہوتا ہے کہ کوئی آدمی پی ٹی آئی میں آ نہ جائے اور جو ہیں ان کو نکالنا کیسے ہے۔

عمران خان کی رہائی کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اگلے جتنی دیر اندر رکھ سکے وہ رکھیں گے۔ عدلیہ ہے نہیں۔ سب سے پہلے تو پی ٹی آئی کو اس مخمصے سے باہر آنا چاہیے کہ آپ عدالتوں کے ذریعے عمران خان کو باہر نکال سکتے ہیں۔ آپ نہیں نکال سکتے۔ اس کے لیے سیاسی حکمت عملی چاہیے۔

اگر عمران خان اور ان کی بہنیں خاص طور پر اس مخمصے سے باہر نہیں آ جاتیں کہ انہوں نے عدالتوں کے ذریعے باہر آنا ہے تو کیا ہو سکتا ہے؟
آپ اس پارٹی لیڈرشپ کی عقل پر کیا کہیں گے جنہوں نے ساٹھ ستر کروڑ روپیہ وکیلوں پر بانٹ دیا۔ اپنا میڈیا سیل بند کردیا کہ ہمارے پاس تنخواہیں نہیں ہیں۔ آپ کے پاس اے پی سی کروانے کے پیسے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بیرسٹر گوہر اور علی ظفر، اسد قیصر کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی پارٹی میں اور پارٹی کو سلمان اکرم راجا چلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اصل پی ٹی آئی تو اب ختم ہوگئی ہے اسٹیبلشمنٹ نے ہم سب کو ٹھڈے مکے مار کر نکال دیا۔ سارے اہم لیڈر یا جیل میں ہیں یا پارٹی سے باہر۔

ابھی کی قیادت کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ کل وقتی وکیل جز وقتی سیاستدان بن گئے۔ ان کی حتمی مدت دو 3 ماہ اور ہوگی پھر ان کو بدلا جائے گا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ سلمان اکرم راجا اس بچے کی طرح ہیں جو ٹافیوں کے سٹور پر آجائے تو کہتا ہے ساری ٹافیاں ابھی کھا جاؤں۔

اپنے بھائی فیصل چوہدری کو نکالے جانے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصل چوہدری نے بطور وکیل 5 سو سے زائد لوگ چھڑوائے ہیں۔ وہ سال 2014 سے پارٹی کی خدمت کر رہا تھا۔

عمران خان سے ملاقات میں فواد چوہدری نے کیا مشورہ دیا؟

جب میری عمران خان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں ان لوگوں کو پارٹی سے نکالنے سے روکا۔ میں نے کہا ان سب کو نکال دیں گے تو پارلیمانی پارٹی کیا بچے گی۔ ایک طرف آپ مخصوص نشتیں مانگ رہے ہیں دوسری طرف اپنی جماعت کے سرونگ ایم این ایز کو نکال رہے ہیں۔

گرینٖڈ اپوزیشن الائنس کا آئیڈیا میرا تھا۔ مذاکرات کے لیے پہلی کمیٹی میری درخواست پر بنی۔ میں نے کہا تھا کہ اس کے سوا کیا چارہ ہے۔

عمران خان کو اس وقت 3 چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک تو انہیں درست معلومات چاہیے جو نہیں پہنچ رہیں۔ دوسرا ان کو سیاسی مشاورت چاہیے وہ بھی نہیں مل رہی۔ تیسرا ان کے سیاسی پلان پر عمل درآمد کی حکمت عملی ہونی چاہیے۔

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ راستہ نکالنا ہوگا؟

فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت بننے کے لیے کسی پارٹی کو ہم جیسے سیاسی رہنماؤں کے علاوہ ہانڈی میں اسٹیبلشمنٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ 2018 میں بھی آپ کو ہانڈی میں یہ مصالحہ چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ غلطیاں اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہوئی ہیں مگریہ پاکستان کے نظام کی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنا ہوگا۔

اگر خان سے اب ملاقات ہوئی تو کیا ایڈوائس دیں گے؟

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میں نے پہلے بھی عمران خان سے ملاقات میں کہا تھا کہ ہم سیاستدان ہیں ہم بندوقیں لے کر پہاڑوں پر تو نہیں جا سکتے۔ ہم نے راستہ بنانا ہے۔

وہ علیحدہ بات ہے کہ جب آپ سیاستدانوں کو حد سے دبائیں گے تو پھر ان کے بدلے میں بندوق والے ہی آئیں گے یہ اسٹیبلشمنٹ نے سوچنا ہے۔ ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بلیک اینڈ وائٹ میں سوچتی ہے سیاستدان نے گرے میں سوچنا ہوتا ہے اس لیے راستہ ہم نے بنا کر دینا ہے۔

راستہ میں کیا رکاوٹ ہے۔ پہلے تو ہمیں سوشل میڈیا پر جو اینٹی پاکستان اور اینٹی آرمی مہم چل رہی ہے ۔پی ٹی آئی نے اس مہم سے خود کو الگ کرنا ہے۔ جیسے عادل راجا اور دیگر لوگوں سے پی ٹی آئی کو الگ ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کی اصل غلطی ہے کہ آفیشل سوشل میڈیا اس مہم سے الگ کرنے کی بھرپور کوشش نہیں کر رہا۔ شخصیات کے خلاف مہم سے پوری قوت سے علیحدہ ہونا ہوگا۔

مجھے خوشی کہ عمران خان کے کہنے پر آرمی چیف کی والدہ کی وفات پر تعزیت کا پیغام جاری کیا گیا۔ خان صاحب نے خاص طور پر اس کا کہنا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم واپس آئیں گے تو تلخیاں دفن کرکے آئیں گے۔ اگر آپ نے مجھے گرایا ہوا ہے اور آپ کو یقین ہے کہ اٹھ کر میں آپ کو مار دوں گا تو آپ مجھے کبھی اٹھنے نہیں دیں گے۔

علی امین گنڈا پور ڈیل نہیں بنا سکے

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ علی امین گنڈا پور ایک سال سے رابطے کے باوجودہ ڈیل نہیں بنا سکے۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ علی امین گنڈا پور کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کا چینل ہے مگر وہ اسے مؤثر نہیں بنا سکے۔ وہ خان صاحب سے مخلص ہیں مگر ایک سال میں جو سیاسی ڈیل بنانی چاہیے تھی وہ نہیں بنا پائے۔

’مثلاً مجھے خود خان صاحب نے یہ بات کہی کہ یہ روز آجاتے ہیں کہ آپ بنی گالہ چلے جائیں یا فلاں جگہ چلے جائیں تو میں نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے؟ یہ چھوٹی چیز ہے۔ دیکھیں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک ہی ڈسکشن ہے کہ نئے الیکشن کب ہونے ہیں۔ اب خان صاحب کہیں گے کہ فوراً کروا دیں۔ حکومت کہے کی گی 3 سال میں کروا دیں۔ اب یہ جو درمیان کا عرصہ ہے یہ مذاکرات ہیں۔ میرے خیال میں اصل مدعا پر بات نہیں ہوئی۔

عمران خان کی غلطیاں

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ دوران حکومت خان صاحب سے ایسی کوئی غلطی نہیں ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوتی۔ آرمی چیف کا آفس اتنا طاقتور ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کرلے تو پھر بہت مشکل ہو جاتا ہے اس کو بدلنا۔ جنرل باجوہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک ایکسٹینشن ہم سے لی ایک دوسری طرف سے لینی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے غلطیاں حکومت جانے کے بعد ہوئیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ خان صاحب نے ہمیں منع کر دیا کہ کوئی بندہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہ کرے۔ تو ہم نے اپنے رابطے ختم کر دیے۔ اس سے بڑا نقصان ہوا۔ ذاتی طور پر بھی نقصان ہوا اور خان صاحب کو بھی نقصان ہوا، پارٹی کو بھی نقصان ہوا۔ اس سے خلا پیدا ہوا اور ہمارے مخالف جا کر کان بھرنا شروع ہو گئے۔

میری نظر میں اگر ہم رابطے رکھتے تو خود جنرل باجوہ صاحب کو احساس ہو گیا تھا کہ ان سے غلطی ہو گئی اور وہ پھر الیکشن کروانا چاہتے تھے۔

اس سوال پر کہ کیا 9 مئی بھی پی ٹی آئی کی غلطی تھی؟ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی کرنے کے لیے کوئی ایک میٹنگ یا ارادہ ظاہر کیا ہو۔

شہباز حکومت کی معاشی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب لوگ ترقیاتی کاموں پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ شہباز شریف بری طرح فلاپ ہو گئے۔ آج امپورٹس رکی ہوئی ہیں آج کھول دیں تو ڈالر پھر اوپر چلا جائے گا۔ فیصل آباد میں ملز بند ہو رہی ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔

مریم نواز کی ترقی کاغذوں پر ہے۔ جب تک مقامی حکومتوں کا نظام نہیں لاتے حقیقی ترقی نہیں ہوتی۔

قومی سلامتی کمیٹی میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت

اس حوالے سے سوال پر ن کا کہنا تھا کہ سلمان راجا، شبلی فراز اور گوہر اگر سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں چلے بھی جاتے تو اس کی کیا اہمیت تھی، کانفرنس ایوان صدر میں ہونی چاہیے تھی جس میں صرف 6 لوگ شامل ہوتے، صدر زرداری، نواز شریف، عمران خان، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور مولانا فضل الرحمن ہو جاتے کیونکہ یہ 6 لوگ ہیں جن کے پاس اختیار بھی ہے اور سیاسی طاقت بھی۔

بلوچستان میں انتظامی اقدامات کرنے ہیں۔ پتا نہیں کس عقلمند نے 1970 میں یححی کو مشورہ دیا کہ سارے علاقے بلوچستان میں شامل کر دیں۔ بلوچستان کو واپس علاقوں میں تقسیم کریں، گوادر کو دبئی طرز پر تعمیر کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا عمران خان فواد چوہدری فیصل چوہدری

متعلقہ مضامین

  • آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائر، آئی سی سی آفیشل کا دورہ
  • حماس نے جنگبندی کی نئی تجاویز سے اتفاق کر لیا، مصری ذرائع
  • سونے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا
  • موجودہ پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ حکومت عمران خان کو جتنا چاہے قید رکھ سکتی ہے، فواد چوہدری
  • پاکستانی کرکٹرز اور آفیشلز کے ایجنٹ کی ای سی بی نے رجسٹریشن معطل کر دی
  • آئی سی سی ریونیو کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں
  • کراچی، ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام شہدائے قدس کی یاد میں چراغاں و تصویری نمائش کا انعقاد
  • ہم حالیہ امریکی سیاسی تجاویز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، سید عباس عراقچی
  • سونے کی قیمت کو پر لگ گئے، تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
  • پی ایس ایل ترانہ؛ علی ظفر کو منتخب کرنا ملتان سلطانز کے اونر کو پسند نہ آیا؟