امریکا میں انتخابی اصلاحات، صدر ٹرمپ نے نیا حکم نامہ جاری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکا میں آئے روز نئے فیصلے سامنے آرہے ہوتے ہیں، اور اب امریکی صدر نے انتخابی اصلاحات سے متعلق نیا حکم نامہ جاری کردیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت امریکی انتخابات میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں، اس حکم کے مطابق اب ووٹنگ کے اندراج کے لیے شہریوں کو اپنی شہریت کا ثبوت پیش کرنا لازم ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں ٹرمپ حکم نامہ، پاکستان سے امریکا جانے کے منتظر ہزاروں افغانوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا
امریکا میں اس سے قبل ووٹر بننے کا طریقہ نہایت آسان تھا، اور کوئی بھی شہری خود تصدیق کے ذریعے ووٹ کے لیے رجسٹرڈ ہو سکتا تھا۔
ٹرمپ کی جانب سے جاری نئے حکمنامے کے مطابق اب شہریوں کو ووٹ درج کرانے کے لیے امریکی پاسپورٹ، پیدائش کا سرٹیفکیٹ یا دیگر سرکاری دستاویزات پیش کرنا ہوں گی، جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ امریکی شہری ہیں۔
امریکی صدر نے حکمنامے میں ہندوستان، برازیل، جرمنی، کینیڈا اور دیگر ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ممالک انتخابی سیکیورٹی کے سخت اقدامات نافذ کر چکے ہیں، جبکہ امریکا میں انتخابی نظام میں اب بھی کئی کمزوریاں موجود ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور برازیل نے ووٹنگ سسٹم کو بائیو میٹرک ڈیٹا بیس سے جوڑ دیا ہے، جبکہ امریکا میں اب تک ایسا کوئی جامع نظام موجود نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ نے جاری حکم نامے میں تنقید کرتے ہوئے کہاکہ کئی امریکی ریاستیں بغیر پوسٹ مارک کے یا انتخابات کے بعد موصول ہونے والے ووٹوں کو قبول کررہی ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات میں شفافیت کو برقرار رکھا جائے۔
حکم نامے کے تحت ریاستوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ووٹر لسٹوں اور ووٹنگ کے ریکارڈز ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کریں، تاکہ ووٹر لسٹوں کی مکمل جانچ پڑتال کی جا سکے۔
اس کے علاوہ انتخابی دن کے بعد ووٹ ڈالنے یا گننے کے عمل کو ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، اور ایسے کسی بھی نظام پر پابندی عائد کی گئی ہے جو بیلٹ گنتی کے لیے بارکوڈ یا کیو آر کوڈ پر انحصار کرتا ہو۔ اس حکم نامے میں غیر ملکی شہریوں کے لیے سخت قوانین بھی شامل کیے گئے ہیں، جن کے تحت کوئی بھی غیر ملکی امریکی انتخابات میں چندہ نہیں دے سکے گا اور نہ ہی کسی بھی طرح سے ان انتخابات پر اثرانداز ہو سکے گا۔
یہ بھی پڑھیں سکولوں کا نظام انتہائی گر چکا، صدر ٹرمپ کا امریکی محکمہ تعلیم بند کرنے کا اعلان
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم نامے کے بعد ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر کی جانب سے جو اقدامات کیے جارہے ہیں ان سے بعض ووٹرز کو رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا امریکی صدر انتخابات صدر ٹرمپ نیا حکم نامہ جاری ووٹرز وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر انتخابات نیا حکم نامہ جاری ووٹرز وی نیوز امریکا میں کے بعد کے لیے
پڑھیں:
وائس آف امریکا سے عملے کی جبری برطرفی، جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو روک دیا
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وائس آف امریکا کے عملے کی جبری برطرفی کے معاملے پر ایک وفاقی جج نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جمعہ کے روز ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کی آٹھ دہائیوں پرانی امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی بین الاقوامی نیوز سروس کو ختم کرنے کی کوششوں کو روک دیا، اور اس اقدام کو ’’من مانی اور غیر معقول فیصلہ سازی کا ایک کلاسیکی کیس‘‘ قرار دیا ہے۔
جج جیمز پال اوٹکن نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو، جو وائس آف امریکہ چلاتی ہے، 1,200 سے زائد صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فنڈنگ میں کمی کے حکم کے بعد دو ہفتے قبل معطل کردیا گیا تھا۔
اوٹکن نے ایجنسی کو ملازمین یا ٹھیکیداروں کو ’’برطرف کرنے، افرادی قوت میں کمی کرنے، چھٹی پر بھیجنے یا جبری چھٹی دینے‘‘ اور کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا بیرون ملک ملازمین کو امریکا واپس آنے کا حکم دینے کی کسی بھی مزید کوشش سے روکتے ہوئے ایک عارضی حکم امتناعی جاری کیا۔
اس حکم میں ایجنسی کو اس کے دیگر نشریاتی اداروں، جن میں ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری ایشیا اور ریڈیو فری افغانستان شامل ہیں، کےلیے گرانٹ فنڈنگ ختم کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ ایجنسی نے جمعرات کو کہا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک جج کے حکم کے بعد وہ ریڈیو فری یورپ کی فنڈنگ بحال کررہی ہے۔
مدعیوں کے وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا، ’’یہ پریس کی آزادی اور پہلی ترمیم کےلیے ایک فیصلہ کن فتح ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ کے ان اصولوں کی مکمل بے اعتنائی کی سخت مذمت ہے جو ہماری جمہوریت کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘
مین ہٹن میں جمعہ کو ہونے والی سماعت میں، اوٹکن نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’’کانگریس کی طرف سے قانونی طور پر مجاز اور مالی اعانت سے چلنے والی ایجنسی کو توڑنے‘‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اوٹکن نے وائس آف امریکا کے صحافیوں، مزدور یونینوں اور غیر منافع بخش صحافتی وکالت گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے اتحاد کی جانب سے گزشتہ ہفتے کٹوتیوں کو روکنے کےلیے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بعد فیصلہ دیا۔ بالآخر، وہ چاہتے ہیں کہ وائس آف امریکا دوبارہ نشریات شروع کرے۔
مدعیوں نے استدلال کیا کہ شٹ ڈاؤن نے ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے دوران عدالت کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے کہ وائس آف امریکا کے صحافیوں کے پاس وائٹ ہاؤس کی مداخلت سے بچانے کےلیے آزادی اظہار کی دیوار ہے۔ ان کی نشریات سے غیر موجودگی نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے جسے ’’پروپیگنڈہ کرنے والے بھر رہے ہیں جن کے پیغامات عالمی نشریات پر اجارہ داری قائم کریں گے‘‘۔
ٹرمپ اور دیگر ریپبلکنز نے وائس آف امریکا پر ’’بائیں بازو کے تعصب‘‘ اور اس کے عالمی پڑھنے والوں کے سامنے ’’امریکا نواز‘‘ اقدار کو پیش کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے، حالانکہ کانگریس نے اسے غیر جانبدار نیوز آرگنائزیشن کے طور پر کام کرنے کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے 14 مارچ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں ایجنسی فار گلوبل میڈیا اور چھ دیگر غیر متعلقہ وفاقی اداروں کے فنڈنگ میں کمی کی گئی، اس کے فوراً بعد وائس آف امریکا کی نشریات بند ہوگئیں۔ یہ ان کی حکومت کو سکڑنے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کرنے کی مہم کا حصہ تھا۔ ٹرمپ نے اس مہینے نیوز ایجنسیوں، بشمول ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ وائس آف امریکا کے معاہدے بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔
کانگریس نے موجودہ مالی سال کےلیے ایجنسی فار گلوبل میڈیا کےلیے تقریباً 860 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔