پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کے حوالے سے اقدامات کرنا شروع کر دیئے گئے۔
ہارڈ اسٹیٹ بنانے کے حوالے سے وزیر داخلہ محسن نقوی کے ماتحت پورے وفاقی اور صوبائی حکام پر مشتمل اعلیٰ سطح کی کمیٹی پورے پاکستان کے لیے فعال کر دی گئی ، کمیٹی افغان شہریوں کی وطن واپسی، اسمگلنگ کی روک تھام، تجاوزات کے خاتمے اور سعودی عرب جانے والے پاکستانی فقیروں کا خاتمہ کرے گی۔
15 رکنی کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کریں گے، کمیٹی میں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہوم سیکریٹریز شامل ہیں۔
کمیٹی میں چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز، حساس اداروں کے نمائندے شامل ہیں، تمام حساس اداروں کے نمائندگان، سی ٹی ڈی حکام بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔
کمیٹی افغان باشندوں کی وطن واپسی کے عمل کی نگرانی کرے گی، غیر قانونی پیٹرول اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کا جائزہ لے گی، سعودی عرب میں بھیک مانگنے کے رجحان کا سدباب کرے گی۔
کمیٹی صوبائی سطح پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹلائزیشن کا بھی جائزہ لے گی، کمیٹی تمام معاملات میں نقائص کی نشاندہی کرکے سفارشارت مرتب کرے گی۔
ایف بی آر نے غیر قانونی پیٹرول کی فروخت پر کارروائیاں شروع کردی ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کرے گی

پڑھیں:

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ ہفتوں میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے شدت پسندوں کے حملوں نے سیکورٹی صورتحال کو انتہائی نازک بنا دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ، پشاور میں بم دھماکے، اور بلوچستان میں سرکاری اداروں پر فائرنگ جیسے واقعات نے حکومت اور عوامی حلقوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔ اس بحران کے پیشِ نظر، اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزرا، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان، اور سیاسی قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں ریاست کی پوری قوت کے ساتھ دہشتگردی کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
پاکستان میں ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز جیسے کہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ خاص طور پر سوات آپریشن میں عوام کی بڑی حمایت حاصل تھی، جس کے نتیجے میں چھ ہفتوں میں شدت پسندوں کا خاتمہ ممکن ہوا۔ موجودہ حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ ایک اور فوجی آپریشن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، کیونکہ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ طاقت کے استعمال کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ مشکل ہے۔ تاہم، فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت اور سول اداروں کی شمولیت بھی ناگزیر ہے تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔
اجلاس میں 2014 ء کا نیشنل ایکشن پلان دوبارہ فعال کرنے پر زور دیا گیا، جس کے تحت دہشت گردی کے خلاف ریاستی اداروں کو یکجا کیا گیا تھا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
٭کمیٹی نے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دیا جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوں۔
٭اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اعلیٰ حکومتی وزرا، پارلیمانی کمیٹی کے اراکین اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندگان نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر تبادلہ خیال کیا۔
٭سوات میں 2009 ء کے فوجی آپریشن کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ 22لاکھ افراد کی منتقلی کے بعد 6ہفتوں میں مالاکنڈکے 8اضلاع کی بازیابی ممکن ہوئی تھی۔
٭موجودہ صورتحال میں ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب طاقت کے ذریعے مسائل کے حل کوترجیح دی جائے گی۔
٭حکومت کو سیکورٹی پالیسیز میں سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے جدید ٹولز شامل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
٭کمیٹی نے حزبِ اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا، جس سے سیاسی وحدت کا فقدان ظاہر ہوتا ہے۔
٭اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ریاست کو پوری قوت کے ساتھ دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔
٭دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریڈارکلائزیشن اور فنڈنگ کے لیے استعمال کرنے اور دیگر ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ میڈیا کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
٭کمیٹی نے دہشتگرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کو ورغلانے اور اپنی پراپیگنڈا مہم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں، جس کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر سوشل میڈیا پر نظر رکھیں اور شدت پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔
٭اجلاس میں حزبِ اختلاف کی عدم ِ شرکت اور ایک بلوچ سیاسی جماعت کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے تسلیم کیا گیا کہ ایک بھائی بی ایل اے کا سربراہ بن کر ریاست کے خلاف دشمنوں کا آلہ کار بن کر دہشت گردی کر رہا ہے اور دوسرا بھائی سیاسی جماعت کا لیڈر بن کر اسمبلی میں ریاست پر تنقید کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، بلوچستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ جبکہ حزبِ اختلاف کسی ایک ایجنڈے پر خود کو قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ اس مشکل ترین اور قومی سلامتی کے موقع پر بھی وہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کبھی جیل سے اپنے رہنما کی پیرول پر رہائی کی شرط عائد کرتی ہے اور کبھی پختونخواہ صوبہ جہاں اس کی حکومت ہے، وہاں کے وزیراعلیٰ کی قومی سلامتی کے اجلاس میں عدم شرکت اور عدم تعاون کی پالیسی اور بیانات سے ملکی سلامتی کو نقصان اور دنیا بھر کو اس نازک ترین موقع پر غلط پیغام مل رہا ہے۔
٭پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا گیا۔ قومی سلامتی جیسے اہم معاملے پر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ضروری ہے تاکہ ملک دشمن عناصر کے خلاف متحدہ محاذ بنایا جا سکے۔ قومی سلامتی جیسے حساس معاملے پر سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکے۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں قومی سلامتی کے مسائل پر یکجا ہو کر فیصلہ سازی میں حصہ لیں۔
٭فوجی آپریشنز اور عسکری کردار کو عارضی حل قرار دیا گیا کیونکہ یہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو کمزور تو کرتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر خاتمہ نہیں کر پاتے۔
٭ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پولیس کا کردار مرکزی ہونا چاہیے، کیونکہ ان کا عوام سے براہِ راست رابطہ ہوتا ہے۔فی الحال پولیس ابھی تک ناکام نہیں ہوئی، اس کو بہترین فیصلہ سازوں کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ آپریشن کیلئے مفید اور موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
٭بلوچستان کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک بلوچوں کا ریاست پر اعتماد بحال نہیں کیا جاتا کمیٹی میں کمیٹی میں یہ تسلیم کیا گیا کہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (جیسے سیاسی مذاکرات، معاشی ترقی)کی ضرورت ہے۔
٭کمیٹی نے بیانیے کی ناکامی کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارا بیانیہ راولپنڈی اور اسلام آباد تک محدود ہے۔ بلوچ نوجوانوں اور عام شہریوں تک ریاست کا پیغام نہیں پہنچتا۔(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی کا دوسرا اجلاس۔صوبوں میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی استعداد کار بڑھانے پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا
  • ایف آئی اے کے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ کو مکمل فعال کرنے کا فیصلہ
  • پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر
  • پی ایس ایل 10 کے ٹکٹوں کی فروخت 3 اپریل سے شروع ہوگی، سب سے سستا ٹکٹ کتنے کا ہوگا؟
  • میانمار، تھائی لینڈ میں زلزلہ، وزارت خارجہ کا کرائسس منیجمنٹ سیل فعال
  • سینیٹر شیری رحمان کا پاکستان کے تین صوبوں میں خشک سالی پر شدید تشویش کا اظہار
  • آئی ایم ایف کی ادائیگی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی
  • "پاکستان مخالف قانون کا مسودہ " ایک فرد کا اقدام ہے، کانگرس پاکستان سے اچھے تعلق کیلئے اقدامات کرے گی
  • یوریا قیمتیں، استحکام کیلئے اقدامات کا جائزہ، گیس فراہمی 30 جون تک بڑھانے کا فیصلہ 
  • ملک دشمن عناصر کیخلاف کارروائی کیلئے 15 رکنی کمیٹی قائم، محسن نقوی سربراہ