سولر پالیسی پر اویس لغاری اور شبلی فراز آمنے سامنے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے اجلاس میں اویس لغاری اور شبلی فراز آمنے سامنے آگئے۔
سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی پاور کا اجلاس ہوا، جس میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سولر صارفین سے 10 روپے میں بجلی خریدنا اور 50 روپے میں فروخت کرنا جگا ٹیکس ہے، اویس لغاری بولے کیوں نہ بیچیں، اس میں کیپیسیٹی چارجز وصول کرنے ہوتے ہیں۔
شبلی فراز نے کہا جب لوگ سولر پینل درآمد کر چکے تو سولر پالیسی تبدیل کردی گئی، بیچ رستے میں پالیسی تبدیل کرکے ملک کا بیڑا غرق نہ کریں۔
4 ٹریلین روپے کی بچت ہوگی، اویس لغاری
اویس لغاری سے پاکستان میں فرانس کے سفیر نکولس گیلے کی ملاقات ہوئی، جس میں وزیر توانائی نے الیکٹرک وہیکل ٹرانزیشن کیلئے فرانس کے گرین فنڈ کو معاونت کی دعوت دی۔
اویس لغاری نے کہا وفاقی کابینہ نے ابھی سولر پالیسی کی توثیق نہیں کی، وزیر اعظم نے مشاورت کے بعد پالیسی دوبارہ پیش کرنے کا کہا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ عوام کو آئی پی پیز سے بات چیت کا ریلیف کیوں نہیں مل رہا، ہمیں عوام کو ریلیف نہ ملنے پر تشویش ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ عوام کو ریلیف میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، اگر کوئی آئی پی پی مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو عالمی ثالثی میں جا سکتے ہیں، عالمی ثالثی میں جانے کی صورت میں پھر ہم فارنزک آڈٹ کریں گے، آئی پی پیز سے مذاکرات کے معاملے پر عالمی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا، آئی پی پی سے مذاکرات کے معاملے پر ہمارے پاس سفیر بھی آئے۔
اویس لغاری نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ قیمت ایڈجسٹ اس لیے کی جاتی ہے کہ قومی گرڈ اور معیشت پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔
وزیرتوانائی نے مزید کہا کہ وزیر اعظم بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان جلد کریں گے۔
سینیٹرمحسن عزیز نے سوال کیا کہ سولر لگوا کر اب تبدیلی کیوں کی جا رہی ہے؟ اویس لغاری نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے ابھی سولر پالیسی کی توثیق نہیں کی، وزیر اعظم نے مشاورت کے بعد دوبارہ پیش کرنے کا کہا ہے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اویس لغاری نے کہا سولر پالیسی شبلی فراز آئی پی پی نے کہا کہ
پڑھیں:
امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں، ایرانی رہنما
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) تہران نے اب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس وارننگ کو مسترد کیا ہے کہ یا تو وہ معاہدہ کرے یا فوجی نتائج کا سامنا کرے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس پیغام کو دھوکہ دہی پر مبنی قرار دے دیا ہے جبکہ وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک واشنگٹن اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی تبدیل نہیں کرتا، تب تک مذاکرات ناممکن ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر کے مشیر کمال خرازی نے کہا، ''اسلامی جمہوریہ نے تمام دروازے بند نہیں کیے ہیں۔ وہ امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ دوسرے فریق کا جائزہ لے، اپنی شرائط پیش کرے اور مناسب فیصلہ کرے۔‘‘
ایران جلد ہی ٹرمپ کے خط کا جواب دینے والا ہے۔
(جاری ہے)
صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے ایران کو اسی ماہ دو ماہ کی مہلت دی تھی۔
عراقچی نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ تہران اپنے جواب میں ٹرمپ کی دھمکی اور مواقع دونوں کو مدنظر رکھے گا۔اپنے پہلے دور حکومت میں صدر ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران کی طرف سے جوہری سرگرمیوں کو روکنے کے عوض اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی گئی تھی۔
2018ء میں ٹرمپ کے معاہدے سے نکلنے اور امریکہ کی طرف سے وسیع پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس کے بعد یورینیم کی افزودگی کے اپنے پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھایا۔
مغربی طاقتیں ایران پر خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کا الزام لگاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ یورینیم کو انتہائی خالص سطح پر افزودہ کر رہا ہے، جو ان کے مطابق صرف سول جوہری توانائی کے پروگرام کے لیے ضروری سطح سے کہیں زیادہ ہے۔
تہران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر شہری توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔
ادارت: عاطف توقیر