چینی شہریوں کی حفاظت، اسلام آباد اور بیجنگ میں بات چیت جاری
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) چین میں پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی نے بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی اقدامات پر بیجنگ اور اسلام آباد کے مابین بات چیت جاری ہے۔
پاکستان میں چینی باشندے ان علحیدگی پسند عسکریت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں جن کا الزام ہے کہ بیجنگ پاکستانی حکومت کی صوبہ بلوچستان میں معدنی وسائل کے استحصال میں مدد کر رہا ہے۔
چین کے صوبے ہائنان میں بواؤ فورم کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے خلیل ہاشمی نے کہا کہ چینی باشندوں کی حفاظت پاکستان کی ''قومی ذمہ داری‘‘ ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے معلومات کے تبادلے اور معیاری آپریٹنگ طریقہ کار وضع کرنے کے لیے دونوں ممالک کے مابین تعاون جاری ہے۔
انہوں نے کہا، ''ہم اپنے چینی دوستوں کو ان اقدامات کے بارے میں آگاہ رکھے ہوئے ہیں جو ہم لے رہے ہیں، تو اس پر ابھی کام ہو رہا ہے۔‘‘خلیل ہاشمی کے بقول دونوں ممالک کے مابین اعتماد قائم ہے۔ انہوں نے کہا، ''سکیورٹی کا ماحول اس وقت پیچیدہ ہے۔ (تاہم) ہمارے پاس دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے اور انہیں شکست دینے کی صلاحیت موجود ہے۔
‘‘پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں کے بعد سے بیجنگ اسلام آباد پر زور ڈالتا رہا ہے کہ پاکستان ان باشندوں کی حفاظت کے لیے چینی سکیورٹی عملے کے آنے کی منظوری دے۔ یہ مطالبہ گزشتہ برس اکتوبر میں کراچی ایئرپورٹ پر ایک بم حملے میں دو چینی انجینیئروں کی ہلاکت کے بعد زور پکڑ گیا ہے۔
م ا / ع ب (روئٹرز، مقامی میڈیا)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے باشندوں کی حفاظت پاکستان میں اسلام ا باد کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
حفاظت کہاں ہو رہی ہے
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے بعض وزیروں اور اہل خانہ کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کر کے وطن واپسی پر ایف بی آر کی طرف سے 24 گھنٹوں کے اندر 34.5 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے پر ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سمیت پوری قوم اس پر ایف بی آر کی شکر گزار ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو فائدہ ہوا، یہ کارکردگی قابل ستائش ہے، میں اور پوری قوم قومی خزانے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کریں گے یہ وصولی اچھی شروعات ہے۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکم امتناع ختم ہونے سے ملک کے مختلف بینکوں سے ساڑھے 34 ارب روپے خزانے میں منتقل ہوئے تھے جس کے لیے وزیر اعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ملاقات کی تھی اور چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں حکم امتناعی کے باعث ایف بی آر مذکورہ رقم کی وصولی نہیں کر پا رہی اور حکومتی معاملات متاثر ہو رہے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ونڈ فال ٹیکس پر بینکوں کی درخواستوں پر سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر 23 ارب اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خاتمے پر 11.5 ارب روپے قومی خزانے میں منتقل ہوئے تھے۔
وزیر اعظم نے ایک ماہ قبل چیف جسٹس پاکستان کو ایف بی آر کی مشکلات سے آگاہ کیا تھا کہ اگر عدالتوں سے حکم امتناع ختم ہو جائے تو اربوں روپے قومی خزانے میں آجائیں گے اور حکومت یہ رقم صحت، تعلیم اور عوامی فلاحی منصوبوں پر خرچ کرے گی۔
جس روز یہ رقم قومی خزانے میں منتقل ہوئی اسی روز وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر تھے اسی روز حکومت نے وفاقی وزیروں، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں 188 فی صد تک اضافے کا اعلان کر دیا۔ قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی جب کہ اس سے قبل تنخواہوں میں اضافے کے لیے ایکٹ1975 میں حکومت نے ترمیم کرکے دو ماہ قبل اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائی تھیں اور ارکان پارلیمنٹ نے اپنے مالی مفاد کے اس فیصلے کی منظوری متفقہ طور پر دی تھی۔
ساڑھے 34 ارب روپے قومی خزانے میں آنے کے روز ہی وزیروں کی تنخواہوں میں دگنے سے بھی زیادہ اضافہ کیا جب کہ ایک ہفتہ قبل ہی حکومت نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی پر ملک میں پٹرولیم مصنوعات سستی کرکے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے پٹرولیم لیوی میں ساٹھ سے ستر فی صد اضافہ کرکے عوام کو اس جائز ریلیف سے بھی محروم کر دیا تھا مگر ساڑھے 34 ارب روپے قومی خزانے میں آتے ہی وزیروں، مشیروں کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کیا کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ وفاقی وزیر کی تنخواہ دو لاکھ اور وزیر مملکت کی ایک لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ 19 ہزار روپے کی گئی ہو۔ وزیروں کے الاؤنس، گاڑی، دفتری اخراجات علاوہ ہوں گے۔
وزیر اعظم ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے دوست ملکوں کے دورے کرکے ان سے قرضے اور مراعات حاصل کر رہے ہیں اور انھوں نے گزشتہ دنوں ہی اپنی کابینہ میں بڑی توسیع بھی کی تھی۔ وزیر اعظم نے عمرے اور سعودیہ کے سرکاری دورے سے واپسی پر اپنے عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ عوام کی ایک ایک پائی کی حفاظت کے لیے جس قدر ہو سکا کوشش کریں گے۔
وزیر اعظم نے سعودیہ جانے سے قبل پٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے پرانی قیمتیں برقرار رکھی تھیں اور ایک ہفتے بعد ہی سپریم کورٹ کی مہربانی سے ملنے والے ساڑھے 34 ارب روپے قومی خزانے میں آتے ہی اپنے وزیروں کو ضرورت سے زیادہ ریلیف دے دیا جب کہ میاں شہباز شریف حکومت کے ڈھائی سالوں میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا اور اس رقم کی قومی خزانے میں منتقلی پر تعریف و ستائش اعلیٰ عدلیہ کی کرنے بجائے وزیر خزانہ، ایف بی آر کے بڑے افسروں اور قانونی ٹیم کی کی گئی جب کہ یہ منتقلی عدلیہ کے فیصلے سے ممکن ہوئی ہے، مگر ساڑھے 34 ارب روپے سے عوام کو ریلیف دینے کا کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا مگر وزیروں اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں ضرور بڑھا دی گئیں، جو پہلے ہی امیر ترین ہیں اور ایک سال قبل کروڑوں روپے خرچ کرکے پارلیمنٹ میں آئے تھے۔ ارکان پارلیمنٹ اور وزیروں کی تنخواہیں بڑھانے کے فیصلے حکومت، قائمہ کمیٹیوں اور پارلیمنٹ میں متفقہ طور ہوتے ہیں۔
موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ کو جعلی قرار دینے اور تسلیم نہ کرنے والی بڑی جماعت پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی سمیت کسی اپوزیشن رکن پارلیمنٹ اور وفاقی وزیروں نے بھی تنخواہیں بڑھانے کے حکومتی فیصلوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ سب کا اس میں فائدہ تھا۔
ڈیڑھ سال سے جیل میں قید بانی پی ٹی آئی جو اس بار پارلیمنٹ میں بھی نہیں ہیں، انھوں نے بھی حکومت کے تنخواہیں بڑھانے کو دل سے تسلیم کیا اور اپنے ارکان سے یہ نہیں پوچھا کہ انھوں نے اس حکومت کا فیصلہ کیوں مانا؟ اور تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ متفقہ کیوں ہونے دیا۔ قومی خزانہ عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے اور وزیر اعظم نے ساڑھے 34 ارب روپے ملنے کے بعد عوام کے ایک ایک پائی کی خود حفاظت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
اس سے قبل اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہیں بڑھائی جا چکی ہیں اور اب عوام اور صرف ایف بی آر افسران ہی محروم رہ گئے ہیں جن کی وزیر اعظم نے تعریف بھی کی ہے مگر وہ پہلے ہی تنخواہ کے محتاج نہیں مگر ریلیف سے محروم عوام کو حکومت نے ریلیف کیا دینا تھا ان کی تو تعریف بھی نہیں ہوئی جو اپنا پیٹ کاٹ کر قومی خزانہ بھرتے ہیں جس کی حفاظت تنخواہیں بڑھا کر کی جا رہی ہے۔