لاہور پولیس کی حراست میں نوجوان ہلاک، ورثا کا تشدد کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
لاہور:
مزنگ پولیس کی حراست میں نوجوان ہلاک ہوگیا جس کے ورثا نے پولیس پر تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق رات گئے مزنگ پولیس نے اچھرہ سے اعجاز نامی نوجوان کو حراست میں لیا تھا جسے بعد ازاں طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا۔
پولیس کے مطابق اعجاز کے بھائی انعام کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ موقع سے فرار ہوگیا جس کے بعد پولیس نے اس کے بھائی اعجاز کو حراست میں لے لیا۔ انعام منشیات فروشی کے مقدمے میں مطلوب تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اعجاز کو قانونی کارروائی کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور تھانے منتقل کرتے وقت اس کی طبیعت خراب ہوئی جس کے بعد اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دم توڑ گیا۔
ایس پی سول لائنز کے مطابق متوفی کے خلاف منشیات فروشی کے مقدمات درج تھے۔ دوسری جانب ورثا نے پولیس پر تشدد کا الزام عائد کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے۔
ایس پی عبدالحنان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کسی غیر قانونی عمل میں ملوث نہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد تمام حقائق واضح ہوجائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بلوچستان میں ’مربوط‘ حملے، چھ افراد ہلاک: پولیس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) پاکستان میں بلوچستان پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو آج بروز جمعرات بتایا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ''مربوط‘‘ حملوں میں مسلح افراد نے کم از کم چھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے اس پولیس اہلکار نے کہا کہ ان حملوں میں بسوں میں سوار مسافروں کو بڑی حد تک ان کی نسل کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان دہائیوں سے شورش کا شکار ہے، جہاں علحیدگی پسند عسکریت پسند سکیورٹی فورسز، غیر ملکی باشندوں اور غیر مقامی افراد کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
جمعرات کو اے ایف اپی سے گفتگو کرنے والے پولیس اہلکار نے بتایا کہ تازہ حملوں میں ''دہشت گردوں نے بلوچستان کے متعدد اضلاع میں مسافر بسوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا، جن میں کم از کم پانچ غیر مقامی مسافر اور ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
(جاری ہے)
‘‘ اس پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ حملے گوادر اور پسنی میں کیے گئے، جہاں حملہ آوروں نے ''مسافر بسوں کو روک کر غیر مقامی افراد کی شناخت کی۔‘‘اس پولیس اہلکار کے بقول صوبے میں بڑی شاہراہوں کا کنٹرول لینے اور گاڑیوں کی تلاشی کے مقصد سے پوسٹس بنانے کے بعد سے درجنوں عسکریت پسندوں نے صوبے کے کئی اضلاع میں حملے کیے ہیں، اور کچھ اضلاع میں تو یہ حملے اب تک جاری ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں ان حملوں کو ''بزدلانہ فعل‘‘ اور ''انسانیت کے خلاف جرم‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''شناخت کے بعد مسافروں کو نشانہ بنایا ظالمانہ اور سفاکانہ‘‘ فعل ہے۔
بلوچستان میں ان تازہ حملوں کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں صوبے میں علحیدگی پسند بلوچ عسکریت پسندوں کے سکیورٹی فورسز اور غیر مقامی افراد کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔
رواں ماہ علحیدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بلوچستان میں ایک ٹرین پر حملہ کر کے اسے ہائی جیک کر لیا تھا۔ عسکریت پسندوں نے دو دن تک اس ٹرین پر قبضہ کیے رکھا تھا، جس میں سوار 450 مسافروں میں سے درجنوں ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کے کچھ دن بعد بی ایل اے نے ایک خود کش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جس میں پانچ نیم فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
گزشتہ برس اس گروپ نے مربوط حملے کر کے ایک مرکزی شاہراہ کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا تھا اور نسلی بنیادوں پر کئی مسافروں کو مار ڈالا تھا۔
م ا / م م (اے ایف پی)