عیدین خاص طور پر عیدالفطر کے موقع پر عیدی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کا بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کو انتظار ہوتا ہے۔ عیدی کو اگر ایک بیش قیمت تحفہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تازہ کڑکڑاتے نوٹ اور ان کی خوشبو عید کے دن سب کا موڈ خوشگوار کردیتی ہے۔
مجھے تو اپنے بچپن کی ہر عیدی یاد ہے جب ابو ہمیں پانچ یا دس روپے عیدی دیا کرتے تھے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ پچاس روپے فی بچہ عیدی مل جایا کرتی اور ہم اسی پر خوش ہوجایا کرتے۔ سستی چیزوں کا زمانہ تھا پچاس روپے میں تو بہت سی چیزیں آجایا کرتی تھیں.
ابو سے عیدی کے بعد ایک اہم چیز امی کے گلک سے پیسے اکٹھے کرنا ہوتے تھے۔ امی کے پاس ایک مٹی کا گلک ہوا کرتا تھا جس میں وہ روز خرچے سے بچ جانے والے سکوں کو بھر لیتی تھیں اور اس کے بعد پلان یہ ہوتا تھا کہ عیدین یا شب برات پر اسے صحن میں توڑا جائے گا اور جتنے بھی بچے ہیں ان کو کہا جائے گا کہ وہ پیسے لوٹ لیں۔ میرے بڑے بہن بھائی تو گلک کے ٹوٹنے کے انتظار میں ہوتے اور خوب سکے بٹور لیتے لیکن میں اور میری چھوٹی بہن گڑیا وہیں کھڑے منہ بسورتے رہتے۔ جس کے بعد ہمیں امی بعد میں خود سے کچھ پیسے دے دیتیں اور ہمارا رونا بند ہوتا۔ بعد میں ہر تہوار کےلیے نیا گلک خرید لیا جاتا۔
جب ہم لاہور اپنے ننھیال جاتے تو وہاں ماموں اور خالہ سب سے عیدی ملتی اور واپسی پر ٹرین میں سب اپنی اپنی پسند کی چیزیں کھاتے یا ایسا ہوتا کہ خالہ لاہور ہی میں عید کے بعد بازار لے جاتیں اور سب اپنی اپنی عیدی سے اپنے اپنے شوق کے مطابق چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خریداری کرتے، جن میں نئے نئے اسٹائل کے ربڑ، شارپنر، کہانیوں کی رنگین کتابیں، رنگ برنگے مارکر اور اسی طرح کے اسٹیشنری آئٹم خریدے جاتے۔ ددھیال میں چچا اور پھپھو بھی عیدی دیتے۔
غرض یہ کہ چھوٹی عید ہم بچوں کےلیے خوشی کا موقع ہوتا جب ہمیں پیسے ملنے کی امید ہوتی۔ ہمارے زمانے میں عموماً ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ہمیں رشتے داروں سے جو عیدی ملتی ہو وہ ہمارے والدین لے لیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی تھی کہ ایک تو عیدی میں ملنے والی رقم تھوڑی ہوتی تھی اور دوسرا رشتے داروں کے بچوں کو بھی یہی توقع ہوتی تھی کہ انھیں بھی ہمارے والدین سے کم عیدی ہی ملے گی۔
جیسے جیسے بڑے ہوئے عیدی کا ایک نیا تصور سامنے آیا۔ جب میری بڑی بہن کی منگنی ہوئی تو ان کی ہونے والی سسرال سے ان کےلیے اس وقت کے حساب سے قیمتی سوٹ، جوتے، چوڑیاں، میک اپ، مہندی اور دیگر اشیا بھی آئیں۔ وہ بھی ہم سب چھوٹے بچوں کےلیے ایک نیا تجربہ تھا اور اس وقت ہم بھی ان سب چیزوں کو دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتے رہے اور دل میں شادی کی امنگ جاگتی رہی لیکن اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ شادی بذات خود ایک بہت بڑی ذمے داری ہے جو کہ ان جوتے کپڑوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔
آج کل کے دور میں عیدی کا تصور بہت حد تک بدل گیا ہے۔ بچوں کو آج کل دو دو ہزار عیدی بھی دے دی جائے تو وہ خوش نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ہے کہ ان کا زمانہ ہمارے زمانے سے بالکل الگ ہے۔ آج کل مہنگائی بھی بہت ہے اور اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچوں کی اشیا بڑوں کے استعمال کی چیزوں کی نسبت زیادہ مہنگی بھی ہیں۔
جہاں تک رہی عید اور عیدی پر خلوص کی بات، وہ تو اب خال خال ہی نظر آتا ہے لیکن پھر بھی کئی رشتے دار اور دوست احباب بہت مخلص اور ملنسار ہوتے ہیں اور دل سے عیدی یا عید کے موقع پر تحائف دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی قدر کرنا چاہیے اور ان کی دی گئی عیدی کو دل سے قبول کرنا چاہیے۔ آخر میں رہ گئے وہ کنجوس دوست احباب اور رشتے دار جو جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر واٹس ایپ پر تصویر کی صورت میں پانچ ہزار کا نوٹ عیدی کے طور پر بھیج دیتے ہیں کہ بس بھیا یہی قبول کرلیں ہم بہت دور ہیں آ ہی نہیں سکتے۔
عیدی دینے والے بڑوں کی ایک قسم یہ بھی ہوتی ہے جن سے عیدی مانگی جائے تو وہ بڑی حیرت سے کہتے ہیں ’’کون سی ایدھی بھئی؟‘‘ یہ سن کر بندہ حیرت اور صدمے کے مارے کچھ کہہ ہی نہیں سکتا کہ انھوں نے عیدی اور ایدھی کو کہاں ملا دیا۔ ہم نے تو آپ کو عیدی کی پوری کہانی سنادی، اب آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ عیدی لینے والے خوش نصیبوں میں سے ہیں یا ہر عید پر ہماری طرح آپ کی جیب بھی ڈھیلی کروا دی جاتی ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جاوید اختر نے فلم ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ کے گانے کیوں نہیں لکھے؟ دلچسپ وجہ سامنے آگئی
شاہ رخ خان اور کاجول کی 1998 کی بلاک بسٹر فلم کچھ کچھ ہوتا ہے کی کہانی اور نغموں نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔
کلاسک نغموں سے سجی اس فلم میں شاہ رخ خان، کاجول اور رانی مکھرجی نے شاندار اداکاری سے مداحوں کے دل جیت لیے تھے۔
تاہم چند ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ کرن جوہر کی اس فلم کے گیت لکھنے سے جاوید اختر نے معذرت کرلی تھی حالانکہ انھیں فلم کی کہانی بہت اچھی لگی تھی۔
جس کے بعد نغمہ نگار سمیر انجان نے اس فلم کے گیت لکھے تھے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں سمیر انجان نے دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔
سمیر انجان کے بقول جاوید صاحب کو فلم کی کہانی بہت پسند آئی تھی لیکن انھیں فلم کے نام پر اعتراض تھا۔
جاوید اختر کا کہنا تھا کہ ایک رومانوی فلم کا نام کچھ کچھ ہوتا ہے، عجیب سا لگتا ہے اگر کرن جوہر فلم کا نام تبدیل کردیں تو میں گیت لکھ دوں گا۔
تاہم کرن جوہر نے فلم کا نام تبدیل کرنے کی تجویز کو قابل عمل نہیں سمجھا جس کے بعد فلم کے گیت سمیر انجان نے لکھے تھے۔
سمیر انجان کے بقول میں نوجوان تھا اور سمجھ سکتا تھا کہ جب آپ کو محبت ہوتی ہے تو پھر کچھ کچھ ہوتا ہے۔