WE News:
2025-03-29@10:52:39 GMT

پی ایس ایل 10 کے لیے گانا کون گائے گا، پی سی بی نے بتا دیا

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

پی ایس ایل 10 کے لیے گانا کون گائے گا، پی سی بی نے بتا دیا

پاکستان سپر لیگ سیزن 10 کی تیاریاں اس وقت عروج پر ہیں۔ اسی سلسلے میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل 10) کے دسویں ایڈیشن کے آفیشل اینتھم کی پرفارمنس کے لیے معروف گلوکار علی ظفر کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ جس کی تصدیق پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے لیگ کے آفیشل پیج کے ذریعے کی۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Pakistan Super League (@thepsl)

علی ظفر کا پی ایس ایل کے ساتھ طویل تعلق رہا ہے، کیونکہ انہوں نے لیگ کے کچھ سب سے مشہور گانے پیش کیے ہیں۔ ان کا 2017 کا ترانہ ’اب کھیل جمے گا‘ پاکستان کے سب سے مشہور کرکٹ ترانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

علی ظفر نے پہلے 2016 میں ’اب کھیل کے دکھا‘، 2017 میں ’اب کھیل جمے گا‘، اور 2018 میں ’دل سے جان لگا دے‘ پیش کیے تھے۔

پی ایس ایل کے ترانوں میں گزشتہ سالوں کے دوران مختلف آرٹسٹ شامل رہے ہیں۔ 2019 میں فواد خان اور ینگ دیسی کا ’کھیل دیوانوں کا‘ مقبول ہوا، 2020 میں علی عظمت، ہارون، عاصم اظہر اور عارف لوہار کا ’تیار ہیں‘ آیا، جبکہ 2021 میں آئمہ بیگ، نصیبو لال اور ینگ اسٹنرز کا ’گروو میرا‘ نیا موسیقی کا انداز لے کر آیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل 10 کی ٹرافی ’لومینارا‘ 29 مارچ تک کن 11 شہروں کا سفر کرے گی؟

2022 میں عاطف اسلم اور آئمہ بیگ کا ’آگے دیکھ‘ آیا، جس کے بعد 2023 میں عاصم اظہر، شائے گل اور فارس شفیع کا ’سب ستارے ہمارے‘ پیش کیا گیا۔

گزشتہ اور نویں سیزن میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے علی ظفر اور آئمہ بیگ کی خدمات حاصل کیں۔ اس گانے کا نام ’ کھل کر کھیل‘ تھا جو کہ شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔

واضحرہے کہ پی ایس ایل کے میچز 11 اپریل سے شروع ہوں گے، جس میں دفاعی چیمپیئن اسلام آباد یونائیٹڈ کا مقابلہ لاہور قلندرز سے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں ہوگا۔ یہ 6 ٹیموں کا ٹورنامنٹ 34 میچز پر مشتمل ہوگا جو لاہور، کراچی، ملتان اور راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے، اور 18 مئی کو اختتام پذیر ہوگا۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Pakistan Super League (@thepsl)

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں 13 میچز ہوں گے، جن میں ایلیمنٹرز اور فائنل شامل ہوں گے۔ راولپنڈی میں 11 میچز ہوں گے، جن میں پہلا کوالیفائر بھی شامل ہے، جبکہ کراچی اور ملتان میں 5,5میچز ہوں گے۔ 3 ڈبل ہیڈرز شیڈول کیے گئے ہیں، جن میں سے 2 ہفتہ کو اور ایک یکم مئی (مزدور ڈے) کو ہوگا۔

ایک نمائشی میچ بھی 8 اپریل کو پشاور میں منعقد کیا جائے گا، جس کی ٹیموں کے تفصیلات بعد میں اعلان کی جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پی ایس ایل پی ایس ایل 10 پی ایس ایل میچز علی ظفر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ایس ایل پی ایس ایل 10 پی ایس ایل میچز علی ظفر پی ایس ایل 10 علی ظفر ہوں گے

پڑھیں:

پاکستان افغانستان تعلقات کا چیلنج

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ایک پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔دونوں اطراف میں ہمیں بد اعتمادی کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ۔پاکستان میں افغانستان سے تعلقات کے تناظر میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔اول، ہمیں معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور اگر ہمیں طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔

دوئم، ہمیں افغانستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے مذاکرات ہی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت افغانستان سے تعلقات میں بگاڑ یا جنگی ماحول کا پیدا ہونا کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔حال ہی میں پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے جو خارجی عوامل ہیں ان میں افغانستان سمیت  بھارت سرفہرست ہے ۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکومت کسی بھی طور پر اس نقطہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی سرزمین عملا پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے یا کالعدم تحریک طالبان جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں افغان حکومت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ پاکستان تواتر کے ساتھ افغان حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی سے تمام جڑے مسائل کا تبادلہ کر رہا ہے لیکن افغان حکومت کی جانب سے اس تناظر میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی پاکستان کی بات کو تسلیم کیا جا رہا ہے جو تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

پاکستان افغانستان کے تعلقات کے تناظر میں دو بڑی اہم پیش رفت حالیہ دنوں میں ہوئی ہیں۔ اول، امریکی وفد کا دورہ کابل جس میں ان کے خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور زلمے خلیل زاد جیسی شخصیت شامل تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس دورے کا مقصد افغانستان میں قید امریکی شہریوں کی رہائی اور دیگر اہم دو طرفہ امور پر بات چیت کرنا تھا۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ موجودہ صورتحال میں امریکا افغانستان سے براہ راست بات چیت کر رہا ہے اور اس عمل میں وہ پاکستان کی سہولت کاری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

دوئم، امریکی وفد کے دورے افغانستان کے بعد محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد کا دورہ کابل دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو بھی مسائل ہیں ان کو بات چیت کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کی طرف سے اعلیٰ وفود کا تبادلہ بھی ہوگا اور بات چیت کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کی عملا کوشش کی جائے گی۔اچھی بات یہ ہے کہ افغان حکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات میں بہتری پیدا کی جائے اور ٹی ٹی پی کے بارے میں بھی ہمیں پاکستان کے تحفظات پر توجہ دینی ہوگی۔خود پاکستان یہ چاہتا ہے کہ دوحہ مذاکرات ومعاہدے کے تحت افغان حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو اور جو لوگ ٹی ٹی پی کے نام پر پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں ان کے خلاف افغان حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے چاہیے یا پاکستان کے ساتھ مل کرباہمی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات محض دو ملکوں تک محدود نہیں بلکہ ان بہتر تعلقات کا براہ راست اثر جنوبی ایشیا اور خطہ کی سیاست پر پڑے گا۔ پاکستان میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور افغان حکومت کو مختلف انداز میں بھارت کی سہولت کاری بھی حاصل ہے۔سیاسی ومعاشی طور پر مستحکم افغانستان اور مستحکم پاکستان نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطہ کے مفاد میں بھی ہے۔

اس لیے یہ دونوں ملکوں کی ضرورت بنتی ہے کہ وہ آپس کے معاملات میں جو بگاڑ ہے اس کا تصفیہ سیاسی حکمت عملی کے تحت کرنے کی کوشش کریں۔تنازعات،شدت پسندی ،بد اعتمادی اور جنگی ماحول کو اس انداز میں بالادست نہ کیا جائے کہ وہ دونوں ملکوں کے لیے نئے خطرات کو جنم دینے کا سبب بنے۔پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی کا ایک اہم نقطہ یہ ہی ہے کہ وہ تنازعات اور جنگوں کے معاملات میں مزید جنگ کا حصہ بننے کی بجائے افہام و تفہیم کو بنیاد بنا کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا۔اس لیے افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات اور اعتماد سازی کا ماحول ہی پاکستان کے مفاد میں ہے اور یہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ دنوں میں بات چیت کے جو نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں ان سے ہر صورت میں فائدہ اٹھانا ان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور جو بھی سیاسی آپشن بات چیت کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں اس کو اپنی ترجیح کا حصہ بنانا ہماری ضرورت کے زمرے میں آتا ہے۔یقینی طور پر تعلقات کی نوعیت پیچیدہ ہے اور کافی بد اعتمادی کا ماحول بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود تدبر ،فہم و فراست اور بردباری کے ساتھ ہمیں ان معاملات کو آگے بڑھانا ہے۔

کیونکہ اس خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں آتی تو افغان حکومت کا جھکاؤ بھارت کی جانب مزید بڑھ سکتا ہے، جو پاکستان کے لیے مزید نئے خطرات کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ایک طرف پاکستان کو افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں تو دوسری طرف سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر پاکستان کو بڑی طاقتوں سمیت دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنی ہوگی۔

کیونکہ سفارتی اور ڈپلومیسی کی جنگ سیاسی تنہائی میں نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کے لیے ہم جتنا زیادہ دیگر ممالک کو اپنے تحفظات اور معاملات پر اعتماد میں لے سکیں گے یہ ہمارے مفاد میں ہوگا۔ بالخصوص چین ،امریکا اور روس کا کردار اہم ہے۔ امریکا کو بھی باور کروانا ہوگا کہ وہ افغان حکومت پر دباؤ ڈالے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سپر لیگ 10 کے ٹکٹ 3 اپریل سے دستیاب ہوں گے
  • جواب کون دے گا
  • کلائمیٹ فنانسنگ کے تحت پاکستان کو 1.3 ارب ڈالر ملیں گے،آئی ایم ایف
  • پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی کلائمیٹ فنانسنگ، 1.3 ارب ڈالر کی منظوری
  • پاکستان نے چین کا ایک ارب ڈالر قرض واپس کر دیا، ذخائر میں کمی
  • پاکستان نے چین کا قرضہ واپس کر دیا 
  • پاکستان افغانستان تعلقات کا چیلنج
  • پی ایس ایل ترانہ؛ علی ظفر کو منتخب کرنا ملتان سلطانز کے اونر کو پسند نہ آیا؟
  • ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن کی کھیل کے موجودہ ڈھانچے میں تبدیلی کی تجویز
  • پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اہم معاہدہ طے پا گیا