WE News:
2025-03-29@09:54:20 GMT

موت کے سوداگر

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

موت کے سوداگر

یمن اور جبوتی کے ساحلوں پر 4 کشتیوں کے الٹنے سے 186 مسافر لاپتہ ہوئے، یہ ایک ایسا زخم ہے جو ہر دفعہ نئے انداز میں ہرا ہو جاتا ہے، ہر دفعہ نئی ٹھیس دے جاتا ہے۔

بےرحم موجوں سے لڑنے والے وہ بدنصیب تھے جو پیٹ کی آگ اور غربت کی زنجیروں سے بھاگ کر کسی بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن افسوس صد افسوس ان کی منزل سمندر کی گہرائیاں بن گئیں۔

ماں کا بیٹا، باپ کی امید، بہن کا مان — سب سمندر کی بے رحم موجوں میں کھو گئے اور پیچھے صرف چیختی خاموشی رہ گئی۔

درحقیقت اصل قاتل سمندر نہیں، بلکہ وہ درندہ صفت اسمگلر تھے جو گلی گلی چند سکوں کے عوض زندگیاں بیچتے پھرتے ہیں۔

یمن کے موسمیاتی ادارے نے بروقت خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، لیکن سوداگرانِ موت نے وارننگ کو ہوا میں اڑا دیا، بس اس فکر میں کہ کہیں سرحدی گشت والے ان پر نظر نہ ڈال لیں۔ ان کے لیے یہ لوگ انسان نہیں، صرف چلتی پھرتی رقم تھے۔ جو ڈوب جائے، وہ ان کے نصیب کا لکھا تھا اور جو پار لگ جائے، وہ اگلے شکار کے لیے ایک اور گواہی۔

یہ بے رحم کھیل ہے جو ہمیں اجنبی نہیں لگتا۔ بحیرۂ روم، اوقیانوس، یا بحیرۂ ایجیئن، ان سمندروں نے جانے کتنے پاکستانی نوجوانوں کی لاشیں ساحل پر اچھالیں ہیں، مگر ہمارے ایوانوں میں ابھی بھی راوی چین حس چین لکھتا ہے۔

فروری میں لیبیا کے قریب ایک کشتی الٹنے سے 16 پاکستانی ڈوب گئے۔ جنوری میں موریطانیہ سے اسپین کے لیے روانہ ہونے والی ایک اور کشتی 13 دن تک سمندر میں بھٹکتی رہی، یہاں تک کہ پیاس، بھوک اور موت نے اس میں سوار 50 پاکستانیوں کو نگل لیا۔

کچھ خوش نصیب بچ گئے، مگر ان کی کہانیاں سنیں تو معلوم ہو کہ مرنے والے شاید زیادہ خوش قسمت تھے، کیونکہ زندہ بچ جانے والوں کو مراکش میں ہتھوڑوں سے مارا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

یہ صرف چند واقعات نہیں، بلکہ ایک سلسلہ ہے جو نہ رکنے والا ہے۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ صرف اس سال انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں کم از کم 40 پاکستانی قتل ہو چکے ہیں۔

اور جو بچ گئے، وہ یا تو کسی خفیہ پناہ گاہ میں چھپے بیٹھے ہیں، یا پھر اگلے موقع کی تلاش میں ہے کہ شاید اس بار قسمت مہربان ہو جائے۔

ترکیہ، جو یورپ کے دروازے پر کھڑا ہے، پاکستانی تارکینِ وطن کے لیے ایک اہم پڑاؤ بن چکا ہے۔ ہزاروں پاکستانی قانونی ویزے پر وہاں پہنچتے ہیں، اور پھر غیر قانونی راستوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

محتاط اندازوں کے مطابق ترکیہ میں اس وقت 6,000 سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان میں سے کئی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں یورپ پہنچنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ افسوس در افسوس حقیقت اکثر بہت تلخ ہوتی ہے۔

دسمبر 2023 میں ترکیہ اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت غیر قانونی پاکستانی مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک تیز تر نظام قائم کیا جائے گا۔

دیر عاید درست عاید لیکن یہاں ایک معصومانہ سوال تو بنتا ہے، کیا یہ مسئلے کا حل ہے یا صرف  دل کو بہلا دینے والا وقتی بندوبست؟ جب تک لوگ اپنے ملک میں مواقع نہیں دیکھیں گے، وہ خطرناک راستوں کو اپنانے سے باز نہیں آئیں گے۔

پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے زیادہ غیر قانونی مہاجرین یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ہماری معیشت واقعی اتنی تباہ حال ہے کہ نوجوانوں کے پاس سمندر میں ڈوبنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا؟

حقیقت یہ ہے کہ حکومت اگر سنجیدہ ہو تو اس مسئلے کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے لیے آسان قرضے، فنی تربیت کے مواقع، اور بیرونِ ملک قانونی ملازمت کے لیے دو طرفہ معاہدے۔

یہ سب وہ اقدامات ہیں جو اس بحران کو روک سکتے ہیں۔ اگر ترکیہ اور یورپی یونین کے درمیان ایسا معاہدہ ممکن ہے جس کے تحت ترکیہ غیر قانونی مہاجروں کو روکنے کے لیے مالی امداد حاصل کرتا ہے، تو پاکستان کیوں ترکیہ کے ساتھ ایک ایسا نظام ترتیب نہیں دے سکتا جس سے محفوظ، قانونی اور باعزت ہجرت ممکن ہو سکے؟

ہر نئے سانحے پر ہماری حکومت بیان جاری کر دیتی ہے، فائلوں میں ایک نیا نوٹ لگ جاتا ہے، اور چند دنوں کے لیے ایک دو لوگوں کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ مگر نظام وہیں کا وہیں رہتا ہے، کیونکہ اصل مجرموں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ یا شاہد لگا نہیں سکتا۔

اس سال ایف آئی اے نے 2 بڑے انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا، جن میں سے ایک تو باقاعدہ طور پر “ریڈ بُک” میں شامل تھا۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ کیا اس سے کچھ فرق پڑا؟ جب تک پورے نیٹ ورک کا خاتمہ نہیں ہوتا، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

فیض احمد فیض سے  پوچھا جائے تو کہیں گے:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دُرِ اکرم

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے لیے ایک جاتا ہے

پڑھیں:

31مارچ: غیر قانونی افغانوں کے لیے آخری تاریخ

شہباز حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں اور دیگر غیر ملکیوں کے لیے31مارچ2025ء آخری تاریخ ہے ۔ انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر اِس تاریخ تک پاکستان میں مقیم افغانوں سمیت تمام غیر ملکی از خود نہ نکلے تو انھیں زبردستی ملک سے نکال باہر کیا جائے گا ۔

مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد حکومت تمام غیر ملکیوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا عندیہ رکھتی ہے ۔ غیر ملکیوں ، خصوصاً غیر قانونی افغانوں ، نے مملکتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے ۔

پاکستان کی سلامتی ، سیکیورٹی اور معیشت کے منافی اِن غیر قانونی غیر ملکیوں کے اُٹھائے گئے متعدد اور متنوع اقدامات کے پس منظر میں سب پاکستانی بیک زبان کہہ رہے ہیں: Enough is Enoughسادہ الفاظ میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں کی حرکات کے پیش منظر میں پاکستانی بیک زبان یوں کہہ رہے ہیں :بھئی ہماری تو بس ہو گئی ہے ، بہت ہو گئی مہمان نوازی ، اب تم سب بوریا بستر سمیٹو اور ہمارے ملک سے نکل جاؤ، جہاں تمہارے سینگ سماتے ہیں ، چلے جاؤ۔

31مارچ کے آنے میں چند دن ہی رہ گئے ہیں ۔ عید الفطر بھی سر پر ہے ۔ پاکستان کے طاقتور حکام اور ذمے دار اداروں کو اپنے وعدے اور وارننگ کے مطابق، ہر صورت میں،31مارچ کے اعلان کی ڈیڈ لائن پر عمل کرنا ہے۔ حالات جو بھی ہوں اور نام نہاد عالمی دباؤ خواہ کیسا ہی ہو، پاکستان کو 31مارچ کی تاریخ کو حتمی تاریخ سمجھ کر عمل کرنا چاہیے ۔

چارعشرے سے بھی زائد عرصہ قبل سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے جذبہ اخوت کے تحت 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو اپنے ہاں اقامت کی اجازت دی تھی ۔ اسلامیانِ پاکستان نے انصار بن کر ان لاکھوں افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی ۔

اِن افغان مہمان مہاجرین نے مگر میزبان پاکستان اور پاکستانیوں کو بدلے میں ایک بھی اچھا صلہ نہیں دیا ہے۔ احسان شناسی کی بجائے اِنھوں نے احسان فراموشی کی ہے۔ حقیقی بات کی جائے تو نام نہاد افغان جہاد پاکستان اور پاکستانیوں کے گلے پڑ گیا ہے۔ اب تو یہ بات کھلے بندوں کہی جارہی ہے کہ افغان جہاد، جہاد تھا ہی نہیں۔ یہ ایک نری جنگ تھی جو سوویت رُوس اور امریکا کے درمیان لڑی گئی۔ہمارے وزیر دفاع اور ممتاز سیاستدان، جناب خواجہ محمد آصف، بار بار ٹی وی شو میں اقرار اور اصرار کے ساتھ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ افغان جہاد کا تصور غلط تھا۔

خاص طور پر پچھلے چند برسوں کے دوران پاکستان میں خونریز دہشت گردی کے متعدد ایسے واقعات و سانحات جنم لے چکے ہیں جن میں افغان شہری اور افغان مہاجرین رنگے ہاتھوں ملوث پائے گئے۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور میڈیا ان کے خونیں اور خوں آشام چہرے قوم کے سامنے پیش بھی کر چکے ہیں ؛ چنانچہ اب پاکستان میں یہ خیال مستحکم ہو چکا ہے کہ پاکستان میں مقیم تمام غیر قانونی افغانوں کے نکلنے ہی سے پاکستان مستحکم ہوگا اور ہم کامل امن کا چہرہ دیکھ سکیں گے۔

اس لیے ہم سب پاکستانی 31مارچ کی تاریخ کا چہرہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ کب یہ دن طلوع ہو اور کب ہماری جان اِن غیر قانونی افغانوں سے چھُوٹے۔ افغانوں سمیت جملہ غیر ملکی غیر قانونی مقیم افراد کا پاکستان سے انخلا از بس ضروری ہو چکا ہے ۔ اِن افغان مہاجرین کی لاتعداد قابلِ گرفت حرکات کے سبب حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ پاکستانی حکام نے اعلان کر دیا ہے کہ اب31مارچ کو پاکستان میں مقیم ’’افغان سٹیزن کارڈ‘‘ ہولڈرز کو بھی پاکستان سے نکلنا ہوگا ۔

پاکستان نے فیاضی اوراعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے ایک بار پھر تقریباً تین ماہ کا وقت دیا تھا کہ اِس دوران پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں سمیت تمام غیر ملکی نکل جائیں۔ جنوری2025ء میں وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو یہ وقت فراہم کیا تھا کہ اِس عرصے میں وہ باوقار انداز میں پاکستان سے نکل جائیں ۔

اب بھی اگر وہ ڈھٹائی سے نہ نکلے تو زبردستی اور گرفتاریوں کا عمل بروئے کار آئے گا ۔ غیر قانونی افغانوں کو پاکستانی حکام کو مزید کسی آزمائش میں ڈالنے سے اعراض اور گریز کرنا چاہیے ۔

بد مزگی اور تلخی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز مقررہ تاریخ تک پاکستان کی سرزمین چھوڑ دیں ۔ اِسی میں اُن کی اور ہماری بہتری ہے ۔ ہمارے آرمی چیف، جنرل عاصم منیر صاحب، بھی اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اب Soft State کی بجائے Hard State بننا ہے ؛ چنانچہ پاکستان کے مبینہ ’’سخت ریاست‘‘ بننے کے بھی تقاضے ہیں کہ پاکستان31مارچ کی ڈیڈ لائن پر عمل کرتے ہُوئے تمام غیر قانونی افغانوں کو ملک سے نکال باہر کرے۔

 ایران بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران اپنے ہاں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو نکال چکا ہے ۔ جن افغانوں نے از خود ایران سے نکلنے سے انکار کیا ، اُن کے ساتھ سختی برتی گئی۔ اور یوں افغان طالبان حکومت اور ایرانی حکومت کے درمیاں تلخی اور ناراضی بھی ہُوئی ہے ۔ ایران مگر اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا ہے ۔ اب تو ڈونلڈ ٹرمپ کے کئی احکامات کے تحت امریکا میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کو جہاز بھر بھر کر اُن کے آبائی وطنوں میں بھیجا جارہا ہے ۔

ٹرمپ انتظامیہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 24 اپریل 2025ء تک امریکا میں مقیم 5لاکھ غیر قانونی تارکین ِ وطن امریکا سے از خود نکل جائیں ۔یہ تاریخ گزرنے کے بعداُن سے جو سلوک ہوگا، اس کے وہ خود ذمے دار ہوں گے۔ ایسے میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو نکالنے سے کوئی عالمی ادارہ( مثلاً UNCHR) یا نام نہاد انسانی حقوق کی کوئی تنظیم حکومتِ پاکستان کو کیسے روک سکتی ہے؟ ہمارے عمل کو کیسے غیر انسانی قرار دیا جا سکتا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مناسب موقع ہے کہ پاکستان میں عشروں سے رہائش پذیر افغانوں کو ہر صورت نکال دیا جائے۔

پاکستان میںمقیم کئی افغان اپنے افغان سٹیزن کارڈز میڈیا کو دکھا دکھا کر کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ’’ ہماری یہاں (پاکستان میں) دو نسلیں پیدا ہو کر جوان ہو رہی ہیں ، ہم اب کیسے افغانستان چلے جائیں؟۔‘‘ پاکستان اور پاکستانی اِس بودے اور بے بنیاد موقف کو تسلیم نہیں کرسکتے ۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ پاکستان نے اِن مبینہ دو افغان مہاجر نسلوں کا کمر توڑ اور پاکستان کی قومی سلامتی کے منافی بوجھ اُٹھانے کا مسلسل ٹھیکہ نہیں اُٹھا رکھا ہے ۔

ایران میں بھی اِن افغان مہاجرین کی دو نسلیں پیدا ہو کر جوان ہُوئیں مگر ایران نے اِس کے باوصف، ہر دباؤ کو مسترد کرتے ہُوئے، اِنہیں ملک سے نکال دیا۔ افغان طالبان حکام نے پاکستان کے ساتھ جو رویہ اختیار کررکھا ہے اور جس طرح اپنے ہاں ٹی ٹی پی کو اپنی سرپرستی میں پاکستان مخالف خونریز کارروائیاں جاری رکھنے کی کھلی چھُوٹ دے رکھی ہے۔

 اِس پس منظر میں پاکستانی حکام نے افغان طالبان حکمرانوں کی مذکورہ درخواست مسترد کرکے پاکستانی قوم کے آدرشوں کی ترجمانی کی ہے۔ اب افغان مہاجرین سے مزید کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے ۔ ماضی میں بار بار نرمیاں برت برت کر پاکستان نے اِن کے مہلک نتائج بھی دیکھ لیے ہیں۔اب ہر قسم کی گنجائش بھی ختم ہو چکی ہے اور پاکستانیوں کا صبر بھی ۔

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ، اکرم امام اوغلو کے وکیل کو گرفتار کر لیا گیا
  • پاکستانی اداکار کوئی دہشت گرد نہیں، بھارت انھیں ویزا جاری کرے، سلمان خان
  • امریکی ویزا، ایڈولسینس اور 14سالہ پاکستانی امریکن ٹک ٹاکر لڑکی کا قتل!
  • 31مارچ: غیر قانونی افغانوں کے لیے آخری تاریخ
  • ترکیہ: امام اوغلو کے حامی 1900 گرفتار مظاہرین میں سے 500 چھوڑ دیے گئے
  • افغان باشندوں کی واپسی کی آخری مہلت؛ وزارت داخلہ نے اہم فیصلہ صادر کر دیا
  • پاکستان میں ترکیہ کی سفارتخانے کی طرف سے نیشنل پریس کلب کے ممبران کیلئے رمضان پیکجز تقسیم
  • پاکستانی کمپپنیوں پر بلا ثبوت پابندیاں لگائی گئیں، فارن آفس کا ردعمل
  • سعودی ڈیجیٹل سسٹم سے ہم آہنگی نہ ہونے پر 80 ہزاروں پاکستانی حاجیوں کا سفرِ حج غیر یقینی
  • ترکیہ کے معروف اداکار کی ویرات کوہلی سے حیرت انگیز مشابہت نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی