محمود خان اچکزئی، اخترمینگل ، ڈاکٹر مالک سب اہم لوگ ہیں، اگربلوچستان کی مقامی لیڈرشپ کو بھی شامل کرلیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتری آسکتی ہے ،قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں حرج نہیں

بلاول بھٹو خود حکومت ہیں، حکومت کوئی ان سے علیحدہ تو نہیں ہے ، اور اگر ان کا رابطہ پی ٹی آئی سے ہوجاتا ہے اور اگر وہ مذاکرات کی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ یہ ہماری کامیابی ہے ،رانا ثنا اللہ

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو پی ٹی آئی کو راضی کرلیں تو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم اسے اپنی کامیابی سمجھیں گے ۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے پیپلزپارٹی کی جانب سے ثالثی کی پیش کش کے حوالے سے کہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری پی ٹی آئی کی رضامندی حاصل کرلیں تو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ ایک ایسا بنیادی اور انتہائی اہمیت کا حامل معاملہ ہے کہ اس کے اوپر جتنے بھی زیادہ سے زیادہ اجلاس ہوں اور جتنی بھی بات چیت ہو تو وہ سود مند ہی ہوگی۔واضح رہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردوں کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کے لیے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں بلایا گیا تھا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف بھی شریک تھے ۔ابتدائی طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کو شرکت کرنے والے اپنے ارکان کی فہرست بھجوا دی تھی، تاہم بعد میں اجلاس سے قبل پی ٹی آئی نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا تھا کہ ہم نے اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا ہے ، ہم اس وقت کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں، 77 سالوں سے ان حالات کا شکار ہیں اور ان حالات کے حق میں نہیں ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو پے رول پر رہا کیا جائے ، ہم نے اس ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور فسطائیت کا خاتمہ کرنا ہے ۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اگر دوبارہ کوشش کریں اور پھر اجلاس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جو پہلے شامل نہیں تھے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس میں پی ٹی آئی کے علاوہ محمود خان اچکزئی ہیں، اخترمینگل ہیں، ڈاکٹر مالک ہیں، یہ سب اہم لوگ ہیں، اور اگربلوچستان کی مقامی لیڈرشپ کو بھی شامل کرلیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتری آسکتی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو خود حکومت ہیں، حکومت کوئی ان سے علیحدہ تو نہیں ہے ، اور اگر ان کا رابطہ پی ٹی آئی سے ہوجاتا ہے اور اگر وہ مذاکرات کی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ یہ ہماری کامیابی ہے ۔ اور بلاول بھٹو کی اس کوشش کو وزیراعظم بھی ویلکم کریں گے ۔انھوں نے کہا کہ ہم خود تو اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے ، ہم نے تو مذاکراتی کمیٹی بھی بنائی تھی جس کے ساتھ دو اجلاس کیے گئے مگر تیسری میٹنگ کے لیے انہوں ( پی ٹی آئی) نے کہا کہ ہم تیسری میٹنگ نہیں کریں گے ۔عمران خان کی سزا کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ میں نے جو بات کی تھی وہ اس پیرائے میں کی تھی کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ اگر 9 مئی کے معاملات پر بات کرنی ہے تو پہلے صدق دل سے معذرت کریں، تو اس سے صورتحال بہتری کی طرف جا سکتی ہے اور جانی چاہیے ۔رانا ثنا نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ہمارے ساتھ جو مخالفت ہے اسے بھی انہوں نے سیاسی مخالفت سے دشمنی میں تبدیل کیا ہے ، یہ ان کا سارا کیا دھرا ہے ، انہوں نے سیاسی اختلاف رائے کو ہمیشہ دشمنی کے معنوں میں سمجھا ہے ، اس وقت پی ٹی آئی کا جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رویہ ہے اور جو ان کا سوشل میڈیا کررہا ہے ، یہ چیزیں ان رویوں میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں جن رویوں کا کسی کو گلہ ہوتا ہے ۔پیکا آرڈیننس پر نظرثانی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ قابل بحث معاملہ ہے اس پر بات چیت ہونی چاہیے ، جو صحافتی تنظیمیں اور ان کے لیڈران ہیں انہیں ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہیے ، اس کی ضرورت تو ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے اوپر جو کچھ ہورہا ہے اسے ایسے ہی نہیں چھوڑا جاسکتا، تاہم یہ شکایت بھی جائز ہے کہ یہ قانون کسی حد تک مس یوز ہوگا، اس پر احتجاج تو ہورہا ہے لیکن اس پر گفتگو نہیں ہوسکی۔بلوچستان کے مسئلے کے حل کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ جن لوگوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور جو قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے ، ان کے خلاف سخت سے سخت آپریشن ہونا چاہیے ۔ ان لوگوں کے ساتھ بات ہونی چاہیے جو پاکستان پر یقین رکھتے ہیں اور بلوچستان کی ترقی چاہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس،دہشت گردی کے خلاف حکومت کا دو ٹوک مؤقف

اسلام آباد: وزیرِ اعظم ہاؤس میں گزشتہ روز ہونے والے ایک اہم اجلاس میں وفاقی اور صوبائی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف حکومت کے واضح اور دو ٹوک مؤقف کا اعادہ کیا۔ اجلاس کی صدارت وزیرِ اعظم نے کی، جس میں عسکری و سول قیادت سمیت چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندے شریک ہوئے۔
اہم فیصلے:
جعفر ایکسپریس کے حملہ آوروں کو بے نقاب کرنے کا عزم:
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے ذمہ داروں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔

ملک دشمن مہم کا مؤثر جواب:
حکومت نے فیصلہ کیا کہ روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ملک دشمن پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے گا، تاکہ پاکستان کی سالمیت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

قومی بیانیے کو مضبوط کرنے پر اتفاق:
نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی بیانیے کو مزید مؤثر بنانے پر اتفاق ہوا۔ قومی بیانیہ کمیٹی کو ہدایت کی گئی کہ وہ دہشت گردوں اور شرپسندوں کے خلاف ایک مؤثر اور متحرک بیانیہ تیار کرے۔

میڈیا اور نصاب میں قومی بیانیے کی ترویج:
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلم اور ڈراموں میں ایسے موضوعات شامل کیے جائیں گے جو شرپسند عناصر کے بیانیے کا مؤثر جواب دیں۔ اس کے علاوہ، قومی بیانیے کو نوجوانوں تک پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا پر بھی مواد نشر کیا جائے گا اور قومی نصاب میں دہشت گردی کے حوالے سے آگاہی شامل کی جائے گی۔

جھوٹی خبروں کا سدباب:
سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں اور گمراہ کن معلومات کا سدباب کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔ ڈیپ فیک اور جعلی معلومات کے خلاف مستند معلومات سے بھرپور جواب دیا جائے گا۔

قومی ہم آہنگی اور تعاون کا عزم:
اجلاس میں تمام صوبوں کے درمیان تعاون اور روابط بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تاکہ ملک کی سلامتی کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔

یہ اجلاس ملک میں دہشت گردی کے خلاف مربوط حکمت عملی کی تشکیل میں اہم قدم ثابت ہوگا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے جلد ہی اقدامات شروع کر دیے جائیں گے۔

 

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس،دہشت گردی کے خلاف حکومت کا دو ٹوک مؤقف
  • بلاول بھٹو زرداری کی کوئٹہ میں ڈبل روڈ پر پولیس موبائل کے قریب دھماکے کی شدید مذمت
  • بلاول بھٹو زرداری کی گوادر کے علاقے کلمت میں مسلح افراد کی فائرنگ کی شدید مذمت
  • حکومت، اپوزیشن کیساتھ تعمیری روابط کی پوزیشن میں، گہری تقسیم اتفاق رائے میں رکاوٹ: بلاول
  • عمران خان سے بلاول بھٹو کی ملاقات بڑی انٹرسٹنگ ہو گی، اسد عمر
  • قومی سلامتی معاملات اور پی ٹی آئی
  • بلاول کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے کی تجویز پر خواجہ آصف کا مؤقف بھی آ گیا
  • ملک میں گہری تقسیم اتفاق رائے پیدا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، بلاول بھٹو
  • پی ٹی آئی کو مار پڑ رہی ہے، گنڈاپور کی چھٹی ہوجانے کااندیشہ ہے، شیر افضل مروت
  • بلاول بھٹو کا سندھ بھر میں جلسے کرنے کا فیصلہ