ارسطو نے کہا تھا: ’کسی بھی انسان کی حکمرانی سے بہتر قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ‘ایسا ہی ہوگا لیکن قانون کی حکمرانی کہتے کسے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے تقاضے کیا ہیں؟

برطانیہ عظمیٰ کے دستوری نظام کے گن گانے والے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی سے مراد یہ ہے کہ ریاست کا نظام دستور کے مطابق چلتا ہو، برطانیہ کا دستور ایک طرح سے ’ام الدساتیر‘ مانا جاتا ہے کیونکہ کئی ریاستوں نے اپنے دستور میں اس کے دیے گئے نظام کی پیروی کی ہے۔ جب امریکا نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا اور کچھ عرصے بعد وفاق کی تشکیل کی تو اس وفاق کے دستور میں بھی کئی بنیادی نکات برطانیہ ہی کے دستور سے لیے گئے۔ البتہ دستور سازی کے دوران میں، اور پھر اس کے بعد سپریم کورٹ کی کاوشوں سے امریکی دستوری نظام نے بعض خصوصیات ایسی حاصل کرلیں جو برطانیہ میں اب بھی نہیں پائی جاتیں۔ برطانیہ اور امریکا کے دساتیر کا موازنہ کسی اور وقت، فی الحال توجہ ’قانون کی حکمرانی‘ کے تصور پر مرکوز کرتے ہیں۔

قانون کی حکمرانی کے تین ستون

ڈائسی (Dicey) نے (جس کی کتاب کو برطانیہ کے دستوری قانون کے موضوع پر کلاسیکس میں شمار کیا جاتا ہے) قراردیا تھا کہ برطانیہ کے دستوری نظام کی بنیادی خصوصیات دو ہیں: پارلیمانی نظام ِ حکومت اور قانون کی حکمرانی۔ پھر وہ قانون کی حکمرانی کی تین علامات ذکر کرتے ہیں:

1۔ طاقت کا جانبدارانہ استعمال نہ کیا جاسکے

2 ۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں، اور

3۔ برطانوی دستور کے قواعدِ عامہ (جن میں بیشتر ’تحریر شدہ صورت‘ میں نہیں پائے جاتے بلکہ ججز ان کو متعدد مآخذ کا جائزہ لے کر اور متعدد قوانین اور نظائر کا تجزیہ کرکے دریافت کرتے ہیں)۔

قانون کی حکمرانی یا حکمرانوں کی قانون سازی؟

ڈائسی کے کئی ناقدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی اور پارلیمانی نظامِ حکومت میں تطبیق کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں حکمران (یعنی وزیراعظم اور اس کی کابینہ) پارلیمان کے رکن ہوتے ہیں اور پارلیمان ہی قانون بناتی ہے، تو یہ قانون کی حکمرانی ہوئی یا حکمرانوں کی قانون سازی؟

مزید یہ کہ برطانیہ میں کیسے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں جبکہ برطانیہ میں ایک جانب ’مقتدر اعلیٰ کے اختیارات‘ (sovereign prerogatives) بھی تسلیم کیے جاتے ہیں، جیسے عدالتوں سے سزایافتہ کسی بھی شخص کو معاف کرنا، اور دوسری جانب حکمرانوں اور سرکاری افسروں بلکہ ملازمین تک کو قانون اور عدالت سے استثنا اور خصوصی استحقاق (immunities and privileges) حاصل ہوتے ہیں؟

ہمارے ہاں بھی دستور کی دفعہ 248 صدر مملکت، گورنر، وزیراعظم، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کو مقدمات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور قرار دیتی ہے کہ ان افراد کے بجائے وفاق یا صوبے کے خلاف مقدمہ ہوسکتا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاست کی ’فرضی شخصیت‘ کی بحث کا ہمارے ملکی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!

انتظامیہ کے لیے الگ قانون؟

فرانس کے دستوری نظام کے تحت سرکاری ملازمین کے لیے خصوصی قانونی نظام وضع کیا گیا جسے droit administratiff کہا جاتا ہے (انگریزی میں administrative lawاور اردو میں ’ادارہ جاتی قانون‘) ۔ ڈائسی کا خیال یہ تھا کہ یہ نظام قانون کی حکمرانی کے تصور کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح بعض لوگوں کے لیے خصوصی قانون ہوتا ہے اور عام قانون کا اطلاق ان خاص لوگوں پر نہیں ہوتا جو مساوات کے اصول کے خلاف ہے، البتہ دستوری قانون کے کئی ماہرین اس نظام کو قانون کی حکمرانی کے تصور کے خلاف نہیں سمجھتے اور اسے ناگزیر ضرورت قرار دیتے ہیں کیونکہ عام قانون کے اطلاق سے سرکار کا کاروبار ٹھپ ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے!

انتظامیہ اور مقننہ پر کی نگرانی عدلیہ کے ذریعے

برطانیہ میں عدالتوں کے لیے یہ اختیار مانا گیا کہ وہ انتظامیہ کے انتظامی عمل کا جائزہ لے کر فیصلہ کرسکتی ہیں کہ وہ عمل قانون کے مطابق تھا یا نہیں، لیکن ایسا صرف استثنائی صورتوں میں اور نہایت کڑی شرائط کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اسے judicial review of administrative action یعنی ’انتظامی عمل کی عدالتی نگرانی‘ کہا جاتا ہے۔

البتہ برطانیہ کے دستوری نظام میں عدالت کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ پارلیمان کے وضع کردہ قانون کا جائزہ لے کر بتاسکے کہ یہ قانون دستور کے مطابق ہے یا اس سے متصادم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کی اساس ’پارلیمان کی بالادستی‘ (Supremacy of the Parliament) کے تصور پر ہے۔ گویا اس نظام میں judicial review of legislative action یا ’قانون سازی کے عمل کی عدالتی نگرانی‘ ممکن نہیں تھا, اس کی راہ امریکی سپریم کورٹ نے نکال لی۔

ججوں کی حکمرانی؟

امریکی دستوری نظام میں دستور کو ان ریاستوں کے درمیان طے شدہ معاہدہ مانا گیا ہے جنہوں نے مل کر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے وفاق کی تشکیل کی اور اس نظام میں سپریم کورٹ کو اس معاہدے کے محافظ (Custodian of the Constitution) کی حیثیت دی گئی ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نہ صرف یہ کہ امریکا کے صدر کی جانب سے جاری کردہ کسی انتظامی حکم کو دستور سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے سکتی ہے، بلکہ کانگریس کے منظور کردہ کسی قانون کے ساتھ بھی یہی کچھ کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں قرار دیا جاتا ہے کہ انتظامیہ نے یہ انتظامی حکم جاری کرتے ہوئے حدود سے تجاوز کیا، یا مقننہ کا یہ قانون دستور کی مقررکردہ ’حدود سے متجاوز‘ (ultra vires) ہے۔

پس امریکا کا دستوری نظام مقننہ کی بالادستی کے بجائے ’دستور کی بالادستی‘ کے اصول پر قائم ہے، کئی لوگ اسی کو قانون کی حکمرانی سمجھتے ہیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون کی نہیں بلکہ گنتی کے چند ’ججوں کی حکمرانی‘ (Rule of Judges) ہے اور جج بھی وہ جن کو عوام نے منتخب نہیں کیا!

پاکستان کا دستوری نظام کس اصول پر قائم ہے؟

ہم نے کچھ اصول برطانیہ کے دستور سے لیے ہیں، کچھ امریکا کے دستور سے اور کچھ اسلامی دفعات کا بھی اضافہ کیا ہے، لیکن سوال تو برقرار ہے :

کیا یہاں پارلیمان بالادست ہے؟ دستور بالادست ہے؟ یا قرآن و سنت بالادست ہیں؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی دستور کی رو سے قرآن و سنت بالادست ہیں اور سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں اس بات کو دستور کے ’بنیادی ڈھانچے‘ میں شامل قرار دیا ہے، اس کے جواب میں عرض ہے کہ ’بنیادی ڈھانچے کا نظریہ‘ (Basic Structure Theory) ابھی محض نظریہ ہے اور سپریم کورٹ مسلسل اس میں کمی بیشی کرتی رہی ہے، لیکن اگر اسے ایک مسلمہ اصول مانا بھی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت اس لیے بالادست ہیں کہ دستور نے ایسا قرار دیا ہے؟ گویا قرآن و سنت کی بالادستی دستوری شق کی محتاج ہے۔

ہمارے دستور کے تحت وفاقی شرعی عدالت کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن دستور، ’مسلم شخصی قانون‘ اور ’عدالتی طریقِ کار کے متعلق قوانین‘ اس کے اختیارِ سماعت سے باہر ہیں۔ دستور کے استثنا کی وجہ بعض ماہرینِ قانون یہ بتاتے ہیں کہ اگر اس عدالت کو دستوری شقوں کو بھی کالعدم قرار دینے کا اختیار دیا جائے تو بہت شدید تنازعات اور بحران پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو، لیکن عدالت کے ذریعے دستوری شقوں کے کالعدم کرنے کے بجائے دستوری شقوں کی ایسی تعبیر کیوں نہیں کی جاسکتی کہ وہ قرآن و سنت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں؟

دستور اور قوانین کی اسلامی تعبیر

مثال کے طور پر اوپر دستور کی دفعہ 248 کا حوالہ دیا گیا، کیا اس دفعہ کی ایسی تعبیر ضروری نہیں کہ یہ قرآن وسنت کے احکامات کے مطابق ہو جائے اور کسی شخص (صدر، وزیراعظم وغیرہ) کو صرف اسی حد تک تحفظ حاصل ہو جس حد تک قرآن و سنت نے اجازت دی ہے؟

ہمارے علمائے کرام کی توجہ ہمیشہ دستور میں کسی نئی دفعہ کے اضافے، یا قانون میں کسی نئے قانون کے اضافے کی طرف ہوتی ہے، حالانکہ قوانین میں اضافہ اصل چیز نہیں ہے، اصل چیز قوانین کی تعبیر (Interpretation) ہے۔ جب تک دستور کی تمام شقوں کی تعبیر قرآن و سنت کے مطابق کیے جانے کا اصول تسلیم نہیں کیا جاتا، یہ بات ادھوری رہے گی کہ پاکستان میں قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہے۔

موجودہ نظام میں دستور سمیت تمام قوانین ریاست کی تخلیق ہیں اور ریاست جب چاہے ان میں تبدیلیاں لاسکتی ہے اور انہیں ختم بھی کرسکتی ہے۔ قانون کی حکمرانی تب ہوگی جب ریاست اور اس کے تمام ادارے قوانین قرآن و سنت کی بالادستی مان لیں اور سپریم کورٹ اور تمام عدالتیں اپنی یہ آئینی و قانونی ذمہ داری پوری کریں کہ وہ دستور اور تمام قوانین کی ایسی تعبیر کریں گی جو قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہو (دیکھیے: دستور کی دفعہ 227 اور قانونِ نفاذِ شریعت 1991 کی دفعہ 4)۔

پاکستان میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کی یہی ایک صورت ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

wenews امریکا برطانیہ پاکستان حکمران قانون سازی قانون کی حکمرانی قرآن و سنت وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا برطانیہ پاکستان قانون کی حکمرانی وی نیوز قانون کی حکمرانی کے برطانیہ کے دستور کے دستوری نظام کی بالادستی برطانیہ میں سپریم کورٹ امریکا کے دستور کی کے مطابق قانون کے دستور سے یہ قانون دستور کے کی دفعہ کے خلاف جاتا ہے ہیں اور کے تصور کے ساتھ اور اس سنت کے ہیں کہ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ایف بی آر کا بنیادی ڈھانچہ حساس قرار، پیکا قانون لاگو

اسلام آباد:

وفاقی حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے بنیادی ڈھانچے کو "حساس انفراسٹرکچر" قرار دیتے ہوئے پیکا قانون لاگو کر دیا اور سائبر حملوں پر سخت سزائیں نافذ کر دی گئیں۔

ایکسپریس کو موصول دستیاب دستاویز کے مطابق ایف بی آرکی جانب سے تمام ریجنل ٹیکس دفاتر، کارپوریٹ ٹیکس آفسز، لارج ٹیکس آفسز ،میڈیم ٹیکس آفسز کے چیف کمشنرز،  اے ای او آئی زونز، بے نامی زونز کے کمشنرز ان لینڈ ریونیو اور کمشنر اپیلز، ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز سروس کے تمام ڈائریکٹر جنرلز اور ڈائریکٹرز سمیت ملک بھر کے فیلڈ سربراہان کو مراسلہ ارسال کردیا گیا ہے۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کابینہ ڈویڑن کی جانب سے جاری کردہ ایک میمورنڈم کے مطابق کابینہ نے ایف بی آر کے آئی ٹی انفرا اسٹرکچر، بشمول ڈیٹا سینٹرز، ایپلیکیشنز اور وہ تمام سسٹمز جو ٹیکس دہندگان کے ڈیٹا ہوسٹ کرتے ہں ان سب کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ(پیکا) 2016 کے تحت حساس حیثیت دینے کی منظوری دے دی ہے۔

اس فیصلے کا مقصد ایف بی آر کے ڈیٹا سسٹمز کو کسی بھی ممکنہ سائبر حملے یا غیر مجاز رسائی سے محفوظ بنانا ہے، اس اقدام کے تحت کوئی بھی فرد یا گروہ جو ایف بی آر کے نظام میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے، ڈیٹا چرانے یا اس میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016 کے تحت ایسے جرائم پر قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

ایف بی آر نے تمام متعلقہ اداروں اور افراد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائیں اور ایف بی آر کے تنقیدی انفرا اسٹرکچر کے تحفظ کے لیے ضروری سیکیورٹی اقدامات کریں تاکہ کسی بھی ممکنہ سائبر خطرے کو روکا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • عورت، خلا اور خواب
  • زرعی انقلاب کا خواب ادھورا کیوں؟
  • خوابوں کی تعبیر
  • ایف بی آر کا بنیادی ڈھانچہ حساس قرار، پیکا قانون لاگو
  • حکومت نے بلاول کی ثالثی کی پیشکش مان لی
  • بچے کی روڈ پر پیدائش اور حادثے میں میاں بیوی کیسے جاں بحق ہوئے؟ عینی شاہد کا آنکھوں دیکھا حال
  • ہم سب ملکر تپ دق سے پاک پاکستان کا خواب شرمند تعبیر کریں گے: آصفہ بھٹو  
  • اگر تعلیمی نظام پر آر ایس ایس کا قبضہ ہوگیا تو یہ ملک تباہ ہوجائیگا، راہل گاندھی
  • 23 مارچ کا جذبہ ہمیں اپنی اصل راہ پر واپس لانے کا درس دیتا ہے، سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری