یواین ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے طالبان سے لڑکیوں کو تعلیم دینے کا مطالبہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
افغانستان میں طالبان کے زیرِ اقتدار خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سنگین صورتحال سامنے آئی ہے۔
طالبان حکومت کے تحت افغانستان میں لڑکیوں کے لیے ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی ادارے گزشتہ تین سال سے مسلسل بند ہیں، جس سے لاکھوں افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو چکی ہیں۔
مزید پڑھیں: طالبان نے 18 سال سے تعلیمی مراکز چلانے والے برطانوی جوڑے کو گرفتار کر لیا
یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بہاؤس نے اس حوالے سے ایک سخت انتباہ جاری کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا نسلوں تک اثرات مرتب کرے گا۔
انہوں نے افغان لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ طالبان کو لڑکیوں کو اسکول واپس جانے کی اجازت دینی چاہیے۔
سیما بہاؤس نے مزید کہا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ مزید 4 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو چکی ہیں، جس سے افغانستان میں مجموعی طور پر تعلیم سے محروم لڑکیوں کی تعداد 2.
مزید پڑھیں: طالبان کے سینئر وزیر لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت پر افغانستان چھوڑنے پر مجبور
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر موجودہ پابندیاں برقرار رہیں تو 2030 تک افغانستان کی 4 ملین سے زیادہ لڑکیاں اسکول سے باہر ہو سکتی ہیں۔
یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے کا فوری حل نکالے تاکہ لڑکیوں کو ان کے حقوق اور تعلیمی مواقع واپس مل سکیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تعلیم سے محروم افغانستان میں لڑکیوں کو
پڑھیں:
آئی جی پختونخوا کا وزیراعلیٰ کو خط، صوبے کو ہارڈ ایریا قرار دینے کا مطالبہ
آئی جی نے کہا کہ کے پی اور بلوچستان اندرونی اور سرحدی دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں پولیسنگ اتنی ہی مشکل اور چیلنجنگ ہے، جتنی بلوچستان میں ہے، بلوچستان کو ہارڈ ایریا قرار دیا گیا ہے اور کے پی میں بھی خطرات زیادہ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقارحمید نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو خط لکھا ہے۔ مراسلے میں آئی جی ذوالفقار حمید نے خیبر پختونخوا کو ہارڈ ایریا قرار دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کے پی کو ہارڈ ایریا قرار دے کر پولیس کی تنخواہیں بلوچستان پولیس کے برابر کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کے پی اور بلوچستان اندرونی اور سرحدی دہشت گردی کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں پولیسنگ اتنی ہی مشکل اور چیلنجنگ ہے، جتنی بلوچستان میں ہے، بلوچستان کو ہارڈ ایریا قرار دیا گیا ہے اور کے پی میں بھی خطرات زیادہ ہیں۔
مراسلے کے متن کے مطابق بلوچستان میں پولیس افسران اور اہلکاروں کو زیادہ مالی مراعات دی جاتی ہیں، کے پی پولیس زیادہ قربانیاں دے رہی ہے مگر انہیں دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں ملتی ہے اور تنخواہوں میں واضح فرق پولیس میں بے چینی اور عدم اطمینان پیدا کر رہا ہے۔ مراسلے کے مطابق فیصلے سے سالانہ مالی بوجھ 2 ارب 19 کروڑ 94 لاکھ 90 ہزار روپے آئے گا۔