بلاول پی ٹی آئی کو منا لیں، قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس پھر بلا لیں گے: مشیر وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (این این آئی+خبر نگار) حکومت نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی کی پیشکش مانتے ہوئے پی ٹی آئی سے بات کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کو دے دی۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری تحریک انصاف سے اجلاس میں شرکت کی یقین دہانی حاصل کرلیں تو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری خود حکومت میں ہیں اگر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ہماری ہی کامیابی ہو گی۔ پیکا قانون کی ضرورت ہے، اس کے غلط استعمال کی شکایت بھی جائز ہے ، اس پر بیٹھ کر بات ہونی چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ سیاسی استحکام اور ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستانی ادارے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ رانا ثناء اللہ سے آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکنز نے ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تعلقات، باہمی تعاون اور خطے کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکنز نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے امن کے قیام کے لیے بے مثال جد وجہد کی ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آسٹریلیا پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دے گا۔ وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان مضبوط تعلقات باہمی ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں اور دونوں ممالک کو تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور عالمی برادری کو قیامِ امن میں پاکستان کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ سیاسی استحکام اور ترقی لازم و ملزوم ہیں اور جمہوری روایات کے فروغ سے ہی ملک میں حقیقی استحکام ممکن ہو گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: رانا ثناء اللہ نے کے لیے
پڑھیں:
اختر مینگل کا لانگ مارچ کا اعلان، بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں، رانا ثناء اللہ
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناء اللہ کا بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل کے ٹوئٹ کے جواب میں کہنا ہے کہ ہم اختر مینگل کے ساتھ بیٹھ کر ان کے تحفظات میں بیان کئے گئے معاملات کو سلجھانے کا ان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں۔
اختر مینگل نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’میں وڈھ سے کوئٹہ تک ایک لانگ مارچ کا اعلان کرتا ہوں، جو ہماری بیٹیوں کی گرفتاری اور ہماری ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کے خلاف ہے۔ میں اس مارچ کی قیادت خود کروں گا، اور تمام بلوچ بھائیوں اور بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مارچ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ یہ صرف ہماری بیٹیوں کی گرفتاری کا معاملہ نہیں، یہ ہمارے قومی وقار، ہماری غیرت، اور ہمارے وجود کا سوال ہے۔ جب تک ہماری ماہیں، بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں، ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ہماری یہ تحریک پرامن ہے، ہم ظلم، جبر، اور ناانصافی کے خلاف نکلے ہیں اور جب تک انصاف نہیں ملتا، ہم رکیں گے نہیں۔ وڈھ سے کوئٹہ تک ہمارا مارچ صرف قدموں کا نہیں، ضمیر کا سفر ہے۔ جو خاموش ہے، وہ بھی قصوروار ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک آواز بن جائیں۔‘
نجی ٹی وی سےگفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سننے میں آرہا ہے جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد دہشتگردوں کی لاشوں پر کوئی جھگڑا ہوا، اس صورتحال میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی، لیکن ان معاملات کو سلجھانے کی جو سوچ ہے اسے آگے بڑھنا چاہئیے اور قائم رہنا چاہئیے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے احتجاج کی قیادت کرنے والے افراد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کم از کم مسلم لیگ اور اس کے قائد میاں نواز شریف، پیپلز پارٹی کے قائد صدر آصف زرداری سے بہت بڑی توقعات تھیں کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو ٹھنڈے دل سے سوچیں گے اور وہ حکمت عملی اختیار کریں گے جس سے حالات بہتر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ ہم آپریشن آپریشن نہ کریں، راستے ڈھونڈے کانفیڈنس بلڈنگ کریں، بلوچستان میں گورننس کو بہتر کریں اور لاپتا افراد کے مسئلے پر بات کریں۔
ان کا کہنا تھا ’سردست لاپتا افراد کے ایشو کو ایڈریس کریں، اس کے بعد میرٹ کے حوالے سے جابز دینا شروع کریں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جو کرپشن کا بازرا گرم ہے، جو پوسٹیں بکتی ہیں اسے روکیں‘۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم 30 سال سے مسلم لیگ (ن) کے اتحادی رہے ہیں، اگر آپ بلوچستان میں اس طرح الیکشن کروائیں اور کہیں کہ لوگ ناراض نہ ہوں تو لوگ کیسے نارض نہیں ہوں گے۔ یہاں مونگ پھلی کے داموں میں حلقے بک رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی بات کا جواب دیتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں کہ الیکشن متنازع ہوئے ہوں، یہاں تو جب جب الیکشن ہوئے متنازع ہی ہوئے ہیں۔
نواز شریف کا سیاسی کردار صرف پنجاب کی حد تک محدود ہونے کے سوال پر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ’میاں نواز شریف اپنا کردار سو فیصد نہیں ہزار فیصد ادا کرنے کو تیار ہیں، لیکن معاملہ یہ ہے کہ کوئی آگے سے سننے والا بھی تو ہونا‘۔
عبدالمالک بلوچ کے لاپتا افراد کے بارے میں تحفظات پر انہوں نے کہا کہ مسنگ پرسنسز کا معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے، اس میں بہت پیچیدگیاں ہیں، اس پر ان کیمرا میٹنگز اور بڑی گفتگو ہوئی ، معاملے کو حل کرنے کیلئے تین فریق ہیں انہیں ساتھ بیٹھنا پڑے گا اور اس معاملے کو حل کرنا پڑے گا، لیکن کوئی بیٹھنے کو تیار ہوتا ہی نہیں ہے۔
رانا ثناء اللہ کی بات کے جواب میں عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام لاپتا افراد کو رہا کرو، ہم کہتے ہیں انہیں بازیاب کرکے کسی جگہ پر رکھ لو، جو بے گناہ ہیں انہیں کورٹ کے ذریعے ضمانت پر رہا کر دو، جن لوگوں نے گناہ کیا ہے ان کو آپ سزا دے دیں، تاکہ ان کے لواحقین کو پتا چل جائے کہ وہ ہیں، جو مارے گئے ہیں ان کا بھی بتا دیا جائے کہ کون زندہ ہیں کون مرا ہوا ہے، یہ نہ مجھے پتا ہے، نہ رانا ثناء اللہ کو پتا ہے نہ حکومت کو، یہ اگر پتا ہے تو سکیورٹی اداروں کو پتا ہے کہ کتنے ہمارے پاس ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں کہتا ہوں آپ ان بچیوں کو رہا کریں اور ایک مثبت عمل کی طرف جائیں، ’اب اس ڈنڈا ماری سے بلوچستان کنٹرول نہیں ہوگا‘۔
ایک سوال پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کے دور میں جب مسنگ پرسنز کا معاملہ اٹھا تو اس وقت اداروں سے بات ہوئی تھی، ’اس وقت وہ کہہ رہے تھے کہ جی ٹھیک ہے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ جو ساری چیزیں ہیں انہیں اس طرح سے ہینڈل کیا جائے تو اس کیلئے ایک لیجسلیٹیو آرگن ہونا چاہئے، آپ قانون سازی کریں اور اس کے بعد ہمیں اختیار دیں کہ ہم لوگوں کو گرفتار کرسکیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس طرف کوئی جاتا ہے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈنڈا لے کر آجاتی ہیں کہ آپ ان کو اختیار دے رہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس واقعے میں جن فورسز نے آپریشن کیا وہ ان دہشتگردوں کو مار تو سکتی تھیں، لیکن گرفتار نہیں کرسکتی تھیں۔
ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ابھی ایک ہفتے میں کتنے لوگ اٹھائے، وہ کس قانون کے تحت اٹھائے؟ کون سے کورٹ نے اجازت دی ہے کہ آپ جا کر فلانے کو غائب کردیں۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جن لوگوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، جو لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، جو اتنے سفاک ہیں کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کوئی بس میں بیٹھ کر زیارت کیلئے جا رہا ہے یا ٹرین میں گھر جا رہا ہے اور اس کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں، ان سے ہمیں تھوڑی سی دوری بنانی چاہئیے، ان کی ہمدردی کی گنجائش نہیں ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر اسٹبلشمنٹ اور سیاسی حلقے بیٹھیں گے تو مسئلے کا حل نکل آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ عبدالمالک نے ابھی بچیوں کے حوالے جو بات کی وہ وزیراعظم نے سنی ہوگی، میں بھی وزیراعظم سے عبدالمالک کے حوالے سے یہ بات کروں گا اور اللہ کرے کہ اس میں مثبت پیشرفت ہو۔ جس پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے رانا ثناء اللہ کا شکریہ ادا کیا۔