بھارت میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی مخالفت
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
بھارت میں اذان کے خلاف شدت پسند ہندو تنظیموں کے علاوہ مختلف حلقوں سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی مخالفت بڑھتی جارہی ہیں۔انتہا پسند ہندو نت نئے بہانوں سے اذان اور نماز پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ اب بھارت میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
بھارت میں بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتراکھنڈ میں ایک ہندوتوا تنظیم نے اسلام اوراذان کے خلاف ایک ریلی نکالی اور اشتعال انگیز نعرے لگائے۔یہ واقعہ دہرادون شہر کی مقامی جامع مسجد کے قریب پیش آیا جہاں ہندوتوا تنظیم ”ہندو رکشا دل ”کے ارکان نے ” ایودھیا صرف ایک جھلک تھی،اگلا نمبر کاشی اور متھراکا ہے” اور” بھارت میں رہنے کے لیے جے شری رام کا نعرہ لگانا ہوگا”جیسے متنازعہ اور اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ انہوں نے مسجد میں”ہنومان چالیسہ”پڑھنے کا بھی مطالبہ کیا۔
ایک ہندوتوا رہنما نے دھمکی دی کہ اگر مساجد میں لائوڈ سپیکر بند نہ کیے گئے تو بھارت بھرمیں ہر مسجد کے سامنے ہنومان چالیسہ(ایک ہندو دعا )پڑھیں گے۔مسجد کے سربراہ نے کہا کہ اگر انہیں اذان کی آواز سے کوئی مسئلہ ہے تو ہم لائوڈ اسپیکر کی آواز کم کر سکتے ہیں۔ یہ مسائل صرف رمضان کے مقدس مہینے میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہم امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ، اس لیے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو۔بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے علاقے ہریدوار میں ہائی کورٹ نے لاؤڈ سپیکر پر بلند آواز میں اذان دینے پر جامع مسجد ہریدوار، عباد اللہ ہتلہ (ککر والی) مسجد، بلال مسجد، صابری جامع مسجد اور دیگر 3 مساجد پر پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا۔ مودی کی جماعت کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا تھا۔ ان مساجد نے لاؤڈ سپیکر پر آواز کی مقرر کردہ حد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اونچی آواز میں اذان دی جس سے بزرگ اور بیمار شہریوں کے آرام میں خلل پڑا۔
مسلم عالم محمد عارف نے کہا کہ سب نے آواز کو کم رکھنے کو تسلیم کیا تھا۔ اس میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن شور شرابہ اذان سے نہیں بلکہ شادی بیاہ، گانے بجانے، گاڑیوں کے ہارن وغیرہ سے ہوتا ہے۔ پولیس اس قانون کا اطلاق صرف مساجد پر کرتی ہے دیگر کو چھوڑ دیتی ہیں۔ ہم چالان بھر دیں گے اور لاؤڈ سپیکر کی آواز کم کرنے کا انا کا مسئلہ نہیں بنائیں گے۔ابھی کچھ عرصہ قبل ہی الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی جانب سے اذان کے خلاف شکایت کی گئی پروفیسر سنگیتا سریواستوا نے ضلع مجسٹریٹ کو دی گئی اپنی شکایت میں کہا ہے، ”میں یہ بات آپ کے علم میں لانا چاہتی ہوں کہ قریبی مسجد سے ہر روز صبح ساڑھے پانچ بجے مائیک پر اذان دینے کی وجہ سے میری نیند خراب ہو جاتی ہے۔ میری نیند میں اتنا زیادہ خلل پڑتا ہے کہ کوششوں کے باوجود میں دوبارہ سونہیں پاتی اور اس کے نتیجے میں دن بھر میرے سر میں درد رہتا ہے اور میں کام نہیں کر پاتی ہوں۔”الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے اپنی شکایت میں مزید لکھا، ”میں کسی مذہب، ذات یا نسل کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن وہ مائیک کے بغیر بھی اذان دے سکتے ہیں تاکہ دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔ رمضان کے دنوں میں مائیک پر سحری کا اعلان صبح چار بجے شروع ہو جاتا ہے، جس سے دوسروں کو بھی پریشانی ہوتی ہے۔ بھارتی آئین نے تمام فرقوں کو پر امن بقائے باہمی کی ضمانت دی ہے، جسے عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔” ضلعی حکام نے اذان کے متعلق شکایت موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔
الہ آباد یونیورسٹی کے قریب واقع تاریخی لال مسجد کی انتظامی کمیٹی نے از خود فیصلہ کرتے ہوئے گوکہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم کر دی ہے اور اس کی سمت بھی وائس چانسلر کی رہائش گاہ کی جانب سے موڑ کر دوسری طرف کردی ہے ۔ اس سے وائس چانسلر کا مسئلہ کو کافی حد تک کم ہو گیا مگر اب یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرنے لگا ہے۔مختلف سیاسی تنظیموں نے اذان پر پابندی کے خلاف شہر میں مظاہرے کیے۔ اپوزیشن کانگریس سے وابستہ طلبہ تنظیم این ایس یو آئی نے وائس چانسلر کا پتلا جلایا اور کہا کہ یہ مذہبی منافرت کو ہوا دینے کی بی جے پی کی چال ہے۔ اس تنظیم نے اذان پر پابندی کے مطالبے کی مذمت کی اور سوال کیا کہ صرف اذان سے ہی شہریوں کی نیند میں خلل کیوں پڑتا ہے۔ بھجن، کیرتن، آرتی اور کتھا کے دوران ہونے والے شوروغل سے انہیں پریشانی کیوں نہیں ہوتی۔
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور معروف دینی درسگاہ لکھنؤ کے فرنگی محل کے سربراہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی کہتے ہیں، ”اذان سے متعلق الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے خط کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت گنگا جمنی تہذیب کے لیے مشہور ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسجدوں سے اذانیں اور مندروں سے بھجن کیرتن فضا میں گونجتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے کسی کی نیند میں خلل نہیں پڑتا۔ لہذا اس طرح کے غیر ضروری معاملے کو اٹھا کر لوگوں کو گمراہ نہ کیا جائے۔ اذان کے حوالے سے ہائی کورٹ نے جو حکم دیا تھا اس پر تمام مساجد میں عمل کیا جاتا ہے۔”گزشتہ برس مئی میں لکھنؤ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ گوکہ اذان نماز کا لازمی جز ہے لیکن اسے لاؤڈ اسپیکر یا آواز بڑھانے والے کسی دوسرے آلے کی مدد سے دینا مذہب کا لازمی حصہ نہیں ہے۔اترپردیش کے انسپکٹر جنرل پولیس کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کسی مذہب کا ذکر کیے بغیر واضح طور پر کہا تھا کہ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ کیا جائے۔
لاؤڈ اسپیکر پراذان کا معاملہ نیا نہیںبلکہ 2017 میں بالی وڈ کے گلوکار سونو نگم نے بھی اذان کے حوالے سے ایک متنازع ٹوئٹ میں کہا تھا ”میں مسلمان نہیں ہوں لیکن مجھے فجر کی اذان کی وجہ سے نیند سے جاگ جانا پڑتا ہے۔ آخر بھارت میں مذہبی زبردستی کا سلسلہ کب ختم ہوگا۔”سونو نگم کے اس ٹوئٹ پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ بالی وڈ کی مختلف شخصیات نے ان کے بیان کی مذمت کی تھی، جب کہ ایک حلقہ ان کے حق میں کھڑا ہوگیا تھا۔نغمہ نگار جاوید اختر کا کہنا تھا کہ اذان پر کسی کو اعتراض نہیں ہے لیکن لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ کسی تہوار کے موقع پر اگر لا ؤڈ اسپیکر کا استعمال کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن ہر روز مندروں اور مسجدوں میں اسے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔”اذان اعتقاد کا حصہ ہے لیکن یہ آلہ نہیں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: الہ آباد یونیورسٹی لاؤڈ اسپیکر پر ہائی کورٹ نے وائس چانسلر بھارت میں کی وجہ سے سپیکر پر سپیکر کی کی آواز ہے لیکن اذان کی اذان کے کے خلاف
پڑھیں:
اظہار رائے کی آزادی سلب کر کے بھارت اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا، عزیر احمد غزالی
پاسبان حریت کے رہنما کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ بھارتی غاصب پولیس کی جانب سے آزادی، حق خودارادیت اور انصاف کے حق میں سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کی پاداش میں نوجوانوں کو گرفتار کرنا آزادی اظہارِ رائے پر پابندی کی بدترین مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ سرینگر میں بھارتی غاصب انتظامیہ کی جانب سے 8 کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر بھارتی جبر و اسبتداد سے آزادی کے حق میں پوسٹ کرنے پر گرفتار کرنا فسطائیت کی بدترین مثال ہے۔ ایک بیان میں چیئرمین پاسبان حریت عزیر احمد غزالی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کے شہر خاص سرینگر میں 8 نوجوانوں کو بھارتی غاصب پولیس کی جانب سے آزادی، حق خودارادیت اور انصاف کے حق میں سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کی پاداش میں گرفتار کرنا آزادی اظہارِ رائے پر پابندی کی بدترین مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گرفتار کئے گئے نوجوانوں میں سرینگر کے رہائشی ابرار مشتاق، ذوہیب ظہور، فرہاد رسول جبکہ ضلع کولگام کے رہائشی سجاد احمد لون کے علاوہ چار نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سفاک حکومت مقبوضہ جموں کشمیر میں بے گناہ کشمیری شہریوں کو ظلم و استہزاء کا شکار بنانے کیلئے ان کے خلاف سازشی اقدامات کا جواز پیش کرنے کیلئے اکثر انہیں حریت پسند تنظیموں کا کارکن قرار دیتی ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر کا ایک ایک شہری بھارتی جبر سے آزادی کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے دہشت پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کی حق پر مبنی مزاحمت آزادی کو نہ تو دبایا جا سکتا اور نہ ہی سوشل میڈیا صارفین کی اظہار رائے کی آزادی سلب کر کے بھارت اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ انہون نے مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ بھارتی فوجیوں کے دباؤ اور جماؤ اور کالے قوانین کے بدترین استعمال کو کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ قرار دیتے ہوئے اسے فسطائیت کی بدترین صورتحال قرار دیا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی کریک ڈاؤن کیخلاف آواز اٹھائیں اور بھارتی جیلوں، اذیت خانوں، ٹارچر سیلوں اور فوجی کیمپوں میں گرفتار رکھے گئے کشمیری شہریوں کی رہائی کے لیے کردار ادا کریں۔