بہت سی چیزوں میں فیڈرل گورنمنٹ بے اختیار ہے
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ جب بلاول پولیٹیکل بات کر رہے ہیں مذاکرات کی بات کر تے ہیں تو پھر یہ جو ایکشن ہو رہا ہے یہ بھی نہیں ہونا چاہیے لیکن جو آپریشن ہو رہا ہے اس میں شاید بلاول صاحب بہت بے بس ہوں گے، ان کے اختیار میں نہیں ہیں کچھ چیزیں جو ہو رہی ہیں، نہ بلوچستان میں ہوں گے نہ سندھ میں ہوں گی اگرچہ سیاسی حکومت موجود ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بہت سی چیزوں میں ہمارے پرائم منسٹر اور فیڈرل گورنمنٹ بے اختیار ہے، وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا اگر صرف شغل میلہ کرنا ہے تفریح کرنی ہے، پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہے تو پھر اس طرح کا پارلیمانی پارٹی کا ایک بے مقصد سا ایک بے معنی سا اجلاس دوبارہ کر لیں بلکہ ایسے سو اجلاس کر لیں کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اگر آپ کو سنجیدہ کاوش کرنی ہے تو اس وقت پاکستان میں فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ اس وقت جو صورتحال ہے آدھے سے زیادہ پاکستان میں شورش ہے، دہشت گردی ہے اور وہاں پہ بدامنی ہے، ہماری جو سوچ ہے اس کو دیکھ لیں، عظمٰی بخاری کی اسٹیٹمنٹ سے اندازہ لگائیں کہ کتنی سنجیدہ ہے یہ قوم، بلاول نے کوئی غلط بات نہیں ہے انھوںنے بالکل ٹھیک بات کی ہے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی بات کے دو تین پہلو ہے، نمبر ون پی ٹی آئی کو لانا اس لیے آسان ہو سکتا ہے کہ جمعرات کو اگر ان کے پولیٹیکل لوگوں کی ملاقات ہو جاتی ہے اور گورنمنٹ دوبارہ سلامتی کمیٹی کی بات کرے تو وہ شرط پوری ہو جائے گی کہ ہمیں عمران خان سے تو ملنے دیں لیکن بلاول صاحب جو بات کر رہے ہیں وہ ویسے بالکل ٹھیک ہے سیاسی اپروچ ہے لیکن جو صورتحال کو گھمبھیر کر رہی ہے وہ ہے جیسے اختر مینگل صاحب نے کہاکہ وہ 28تاریخ کو جلوس لیکر وڈ ھ سے نکلیں گے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ ہر پارٹی کی اپنی اپنی سوچ کی بات ہے، پیپلز پارٹی اس چیز کا ادارک کرتی ہے، سمجھتی ہے اس بات کو، انھوں نے ویسے ہی نہیں کہا، اس بات کا ان کو پورا پتہ ہے کہ اس وقت ملک کی بقا خطرے میں ہے اس کے لیے سب کو سر جوڑنے چاہییں، سب پارٹیوں کو ملانا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ بات کر کی بات
پڑھیں:
پی ٹی آئی کوراضی کر لیں،حکومت نے بلاول بھٹو کی ثالثی کی پیشکش مان لی
محمود خان اچکزئی، اخترمینگل ، ڈاکٹر مالک سب اہم لوگ ہیں، اگربلوچستان کی مقامی لیڈرشپ کو بھی شامل کرلیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتری آسکتی ہے ،قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں حرج نہیں
بلاول بھٹو خود حکومت ہیں، حکومت کوئی ان سے علیحدہ تو نہیں ہے ، اور اگر ان کا رابطہ پی ٹی آئی سے ہوجاتا ہے اور اگر وہ مذاکرات کی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ یہ ہماری کامیابی ہے ،رانا ثنا اللہ
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو پی ٹی آئی کو راضی کرلیں تو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم اسے اپنی کامیابی سمجھیں گے ۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے پیپلزپارٹی کی جانب سے ثالثی کی پیش کش کے حوالے سے کہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری پی ٹی آئی کی رضامندی حاصل کرلیں تو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ ایک ایسا بنیادی اور انتہائی اہمیت کا حامل معاملہ ہے کہ اس کے اوپر جتنے بھی زیادہ سے زیادہ اجلاس ہوں اور جتنی بھی بات چیت ہو تو وہ سود مند ہی ہوگی۔واضح رہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردوں کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کے لیے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں بلایا گیا تھا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف بھی شریک تھے ۔ابتدائی طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کو شرکت کرنے والے اپنے ارکان کی فہرست بھجوا دی تھی، تاہم بعد میں اجلاس سے قبل پی ٹی آئی نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا تھا کہ ہم نے اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا ہے ، ہم اس وقت کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں، 77 سالوں سے ان حالات کا شکار ہیں اور ان حالات کے حق میں نہیں ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو پے رول پر رہا کیا جائے ، ہم نے اس ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور فسطائیت کا خاتمہ کرنا ہے ۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اگر دوبارہ کوشش کریں اور پھر اجلاس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جو پہلے شامل نہیں تھے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس میں پی ٹی آئی کے علاوہ محمود خان اچکزئی ہیں، اخترمینگل ہیں، ڈاکٹر مالک ہیں، یہ سب اہم لوگ ہیں، اور اگربلوچستان کی مقامی لیڈرشپ کو بھی شامل کرلیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتری آسکتی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو خود حکومت ہیں، حکومت کوئی ان سے علیحدہ تو نہیں ہے ، اور اگر ان کا رابطہ پی ٹی آئی سے ہوجاتا ہے اور اگر وہ مذاکرات کی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ یہ ہماری کامیابی ہے ۔ اور بلاول بھٹو کی اس کوشش کو وزیراعظم بھی ویلکم کریں گے ۔انھوں نے کہا کہ ہم خود تو اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے ، ہم نے تو مذاکراتی کمیٹی بھی بنائی تھی جس کے ساتھ دو اجلاس کیے گئے مگر تیسری میٹنگ کے لیے انہوں ( پی ٹی آئی) نے کہا کہ ہم تیسری میٹنگ نہیں کریں گے ۔عمران خان کی سزا کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ میں نے جو بات کی تھی وہ اس پیرائے میں کی تھی کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ اگر 9 مئی کے معاملات پر بات کرنی ہے تو پہلے صدق دل سے معذرت کریں، تو اس سے صورتحال بہتری کی طرف جا سکتی ہے اور جانی چاہیے ۔رانا ثنا نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ہمارے ساتھ جو مخالفت ہے اسے بھی انہوں نے سیاسی مخالفت سے دشمنی میں تبدیل کیا ہے ، یہ ان کا سارا کیا دھرا ہے ، انہوں نے سیاسی اختلاف رائے کو ہمیشہ دشمنی کے معنوں میں سمجھا ہے ، اس وقت پی ٹی آئی کا جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رویہ ہے اور جو ان کا سوشل میڈیا کررہا ہے ، یہ چیزیں ان رویوں میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں جن رویوں کا کسی کو گلہ ہوتا ہے ۔پیکا آرڈیننس پر نظرثانی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ قابل بحث معاملہ ہے اس پر بات چیت ہونی چاہیے ، جو صحافتی تنظیمیں اور ان کے لیڈران ہیں انہیں ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہیے ، اس کی ضرورت تو ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے اوپر جو کچھ ہورہا ہے اسے ایسے ہی نہیں چھوڑا جاسکتا، تاہم یہ شکایت بھی جائز ہے کہ یہ قانون کسی حد تک مس یوز ہوگا، اس پر احتجاج تو ہورہا ہے لیکن اس پر گفتگو نہیں ہوسکی۔بلوچستان کے مسئلے کے حل کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ جن لوگوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور جو قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے ، ان کے خلاف سخت سے سخت آپریشن ہونا چاہیے ۔ ان لوگوں کے ساتھ بات ہونی چاہیے جو پاکستان پر یقین رکھتے ہیں اور بلوچستان کی ترقی چاہتے ہیں۔