Express News:
2025-03-26@10:55:45 GMT

زرعی انقلاب کا خواب ادھورا کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

پاکستان کی ترقی کے لیے زرعی شعبہ کی ترقی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کسان کو بہترین بیج، کھاد اور اصلی زرعی ادویات مناسب قیمت پر فراہم کی جائیں تو دوبارہ زرعی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل ( پی اے آر سی) میں جدید ایرو پانکس طریقہ کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔

 اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باعث زراعت ہی پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور زرعی معیشت کی ترقی ملک کو معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل بنا سکتی ہے۔ ہمارا ملک پہلے زرعی شعبے کی برآمدات سے بھاری زرمبادلہ کماتا تھا، آج ہم اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بے دریغ خرچ کر رہے ہیں۔

زرعی پیداوار کا گراف نیچے کی طرف جارہا ہے، ہمارا زیرِ کاشت رقبہ بھی کم ہو رہا ہے اور فی ایکڑ زرعی پیداوار بھی۔یہ بات تکلیف دہ ہے کہ ہماری مختلف فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی فی ایکڑ پیداوار اس خطے کے ممالک سے کہیں کم ہے۔ ہمارے کسانوں کے فی ایکڑ پیداواری اخراجات بے حد زیادہ ہیں جب کہ ان کی فی ایکڑ آمدن بے حد کم ہے جس سے زراعت کا ہمارا بنیادی ستون ’’ کسان‘‘ تنگدستی کا شکار ہے۔ حکومتیں ان کے مسائل کو حل کرنے اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتی بلکہ ’’ کسی نہ کسی کسان پیکیج کی میٹھی گولی‘‘ دیکر خود ’’مزے کی نیند‘‘ سو جاتی چلی آرہی ہیں۔

کیا حکومت اور سرکاری زرعی ماہرین، یہ بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں کے دوران مختلف فصلوں اور سبزیوں کی کتنی نئی اقسام دریافت کیں اور ان کے بیج جن کی پیداواری صلاحیت بھی زیادہ ہو اور وہ بیماریوں کے خلاف زبردست قوت مدافعت رکھتی ہوں۔ ہمارے کسانوں کو خالص اور ملاوٹ سے پاک بیج، کھاد، زرعی ادویات، ڈیزل اور زرعی مشینری سستے داموں فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

پاکستانی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا حاصل ہے ۔ پاکستان میں دنیا کا ایک بہت بڑا نہری نظام موجود ہے، لیکن اس کے باوجود چھوٹے کسان مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

یہ چھوٹے کسان جب تھوڑی دیر سے اور غیر معیاری بیج و کھاد سے اپنی فصل کاشت کرتا ہے تو اس کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے۔ پھر جب یہ اپنی پیداوار اس آڑھتی کے پاس لے کر جاتے ہیں جہاں سے انھوں نے ادھار پر کھاد بیج لیا ہوتا ہے تو وہ اپنی مرضی کا نرخ لگاتا ہے اور سب سے پہلے اپنا ادھار وصول کرتا ہے۔ پھر بقایا رقم اسی وقت ادا نہیں کرتا بلکہ تھوڑی تھوڑی کر کے قسطوں میں ادا کرتا ہے۔ اس طرح چھوٹے کسان کے پاس بروقت پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے مہنگی اشیاء خریدنے اور کم قیمت پر پیداوار بیچنے کی وجہ سے اچھا خاصہ معاشی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ان کسانوں کو زرعی قرضوں تک رسائی ناممکن ہوتی ہے کیونکہ بینک کے قواعد و ضوابط کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کسانوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو جدید زرعی تقاضوں کا کا علم نہیں ہوتا اور یہ پرانے اور روایتی طریقہ کار پر ہی اکتفا کیے ہوتے ہیں۔ روایتی فصلوں میں مصروف رہتے ہیں اور یہ علم نہیں رکھتے کہ کم زمین میں منافع بخش فصلیں کیسے اگائی جا سکتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے یہ نا واقف ہوتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی زمین کو کون سی کھاد کی ضرورت ہے اور کتنی مقدار چاہیے۔

پانی کی کیا کوالٹی ہے، زمین ناہموار ہوتی ہے۔ اس طرح یہ پانی اور کھادوں کا اندھا دھند استعمال کرتے ہیں جس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ منڈیوں کی صورتحال سے بے خبر ہوتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کا معاشرتی ڈھانچہ غیر منظم ہوتا ہے۔ ہر کسان اپنی انفرادی دوڑ میں لگا ہوتا اور اجتماعیت کی افادیت سے آگاہی نہیں ہوتی۔ یہ تمام مسائل اور ان کے ساتھ منسلک دشواریاں ایک ایسا گرداب بناتے ہیں جس کے اندر چھوٹے کسان اپنی پوری زندگی جکڑے رہتے ہیں۔ دنیا اس وقت آرگینِک فصلوں اور فوڈ کی طرف آ رہی ہے اور کتنی ایسی فصلیں ہیں جن کے صرف بیجوں سے بے تحاشہ زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں مستقبل قریب میں ’’ فوڈ سیکیورٹی‘‘ جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم نے وقت پر اپنی زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا، جدید ٹیکنالوجی، جدید تحقیق بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے اور زیادہ پیداوار دینے والے تصدیق شدہ بیج کی تیاری اور فراہمی، خالص اور ملاوٹ سے پاک کھاد اور زرعی ادویات کی کاشتکاروں کو فراہمی اور سب سے بڑھ کر کاشت کاروں کی تربیت اور عملی رہنمائی سے عدم توجہی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمارا یہ اہم شعبہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ انھی مسائل کی وجہ سے کاشتکاری اب کسان کے لیے سراسر ’’ گھاٹے کا سودا ‘‘ بن چکی ہے جس سے زرعی خود کفالت اور زرعی انقلاب کے ہمارے تمام سنہرے خواب ’’ چکنا چور‘‘ ہو چکے ہیں۔

دوسری طرف ہماری زرخیز زرعی اراضی پر کسی منصوبہ بندی کے بغیر ’’ دھڑا دھڑ‘‘ رہائشی اسکیمیں بنتی جا رہی ہیں۔ اس وجہ سے بھی ہماری زراعت مکمل تباہی کے دہانے پر ہے لیکن افسوس کہ اس اہم مسئلے پر کسی حکومت نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔ دیہی علاقوں سے منتخب ہو کر ’’ اقتدار کے ایوانوں‘‘ تک پہنچے والے عوامی نمایندے بھی نہ جانے کیوں زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سیکٹر کے بے رحمانہ دھاوے پر مسلسل خاموش ہیں جب کہ بلدیاتی اور ترقیاتی ادارے محض اپنی فیس کھری کرنے کے لیے زرخیز زرعی اراضی کو اجاڑ رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ محکمہ زراعت اپنے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے ملک کے چند بڑے محکموں میں شمار ہوتا ہے لیکن زرعی شعبے کی تباہ حالی اس کی مثالی کارکردگی کا واضح ثبوت ہے۔

 ہماری زراعت میں حالیہ بحران کی وجہ سے دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیزل، پٹرول، بجلی کو قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ زرعی مداخل کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا کاشتکار بد حال ہوچکا ہے۔ اس کے فی ایکڑ پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرنے کے بجائے اُسے خالی چھوڑنے پر مجبور ہے۔

 حکومت جب تک وہ زراعت اور کسان کے مسائل کو ترجیجی بنیادوں پر حل نہیں کرتی، یہ زرعی بحران کبھی بھی ٹل نہیں سکتا۔ ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ہم کئی بار غذائی بحران کا پہلے بھی شکار ہو چکے ہیں۔ جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں گندم مختلف سبزیاں اور چینی ہنگامی طور پر برآمد کرنا پڑی تھی لیکن ہم نے اس سے پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا، وگرنہ ہمارے دیہات اور کسانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ہمارے حکمران اور اس کے پالیسی ساز یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ پاکستان کی ترقی کا ہر راستہ زراعت سے ہوکر گزرتا ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی زراعت کو بحران سے باہر کیسے نکالیں؟ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت کو فوری طور پر ہنگامی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ زراعت اور کسان کے مسائل کو حل کرنے اور انھیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینا ہوگی۔ غذائی اجناس سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کی مقامی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بے کار پڑے قابل کاشت رقبے کو زیرِ کاشت لانا ہوگا۔ زراعت سے متعلقہ اشیاء خاص طور سبزیوں اور پھلوں کی درآمد پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ اس مد میں خرچ ہونے والا زرمبادلہ، ملک زرعی پیداوار کو بڑھانے پر استعمال کیا جاسکے، ہم پیاز، لہسن، مرچ ہلدی ادرک، ٹماٹر اور دیگر کئی سبزیاں درآمد کر رہے ہیں حالانکہ ہماری زمینیں آب و ہوا اور کاشتکار کی لگن، ان کی کاشت اور پیداوار بڑھانے کے لیے نہایت موزوں ہے۔

تمام زرعی ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی غذائی اجناس سبزیاں اور پھل اپنی غذائیت ذائقے اور خوشبو کی وجہ سے دنیا بھر میں اول نمبر پر ہیں لیکن زراعت سے ہماری عدم توجہی نے ہمیں زرعی پیداوار برآمد کرنے والے ملک سے زرعی پیداوار در آمد کرنے والا ملک بنا دیا اور یہ ہمارے حکمرانوں، زرعی سائنس دانوں، زرعی تعلیمی ماہروں اور خود کسانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زرعی پیداوار چھوٹے کسان کی وجہ سے زراعت کو اور زرعی فی ایکڑ کرنے کے کی ترقی کسان کے ہوتا ہے کے لیے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

قانون کی حکمرانی: خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا!

ارسطو نے کہا تھا: ’کسی بھی انسان کی حکمرانی سے بہتر قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ‘ایسا ہی ہوگا لیکن قانون کی حکمرانی کہتے کسے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے تقاضے کیا ہیں؟

برطانیہ عظمیٰ کے دستوری نظام کے گن گانے والے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی سے مراد یہ ہے کہ ریاست کا نظام دستور کے مطابق چلتا ہو، برطانیہ کا دستور ایک طرح سے ’ام الدساتیر‘ مانا جاتا ہے کیونکہ کئی ریاستوں نے اپنے دستور میں اس کے دیے گئے نظام کی پیروی کی ہے۔ جب امریکا نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا اور کچھ عرصے بعد وفاق کی تشکیل کی تو اس وفاق کے دستور میں بھی کئی بنیادی نکات برطانیہ ہی کے دستور سے لیے گئے۔ البتہ دستور سازی کے دوران میں، اور پھر اس کے بعد سپریم کورٹ کی کاوشوں سے امریکی دستوری نظام نے بعض خصوصیات ایسی حاصل کرلیں جو برطانیہ میں اب بھی نہیں پائی جاتیں۔ برطانیہ اور امریکا کے دساتیر کا موازنہ کسی اور وقت، فی الحال توجہ ’قانون کی حکمرانی‘ کے تصور پر مرکوز کرتے ہیں۔

قانون کی حکمرانی کے تین ستون

ڈائسی (Dicey) نے (جس کی کتاب کو برطانیہ کے دستوری قانون کے موضوع پر کلاسیکس میں شمار کیا جاتا ہے) قراردیا تھا کہ برطانیہ کے دستوری نظام کی بنیادی خصوصیات دو ہیں: پارلیمانی نظام ِ حکومت اور قانون کی حکمرانی۔ پھر وہ قانون کی حکمرانی کی تین علامات ذکر کرتے ہیں:

1۔ طاقت کا جانبدارانہ استعمال نہ کیا جاسکے

2 ۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں، اور

3۔ برطانوی دستور کے قواعدِ عامہ (جن میں بیشتر ’تحریر شدہ صورت‘ میں نہیں پائے جاتے بلکہ ججز ان کو متعدد مآخذ کا جائزہ لے کر اور متعدد قوانین اور نظائر کا تجزیہ کرکے دریافت کرتے ہیں)۔

قانون کی حکمرانی یا حکمرانوں کی قانون سازی؟

ڈائسی کے کئی ناقدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی اور پارلیمانی نظامِ حکومت میں تطبیق کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں حکمران (یعنی وزیراعظم اور اس کی کابینہ) پارلیمان کے رکن ہوتے ہیں اور پارلیمان ہی قانون بناتی ہے، تو یہ قانون کی حکمرانی ہوئی یا حکمرانوں کی قانون سازی؟

مزید یہ کہ برطانیہ میں کیسے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں جبکہ برطانیہ میں ایک جانب ’مقتدر اعلیٰ کے اختیارات‘ (sovereign prerogatives) بھی تسلیم کیے جاتے ہیں، جیسے عدالتوں سے سزایافتہ کسی بھی شخص کو معاف کرنا، اور دوسری جانب حکمرانوں اور سرکاری افسروں بلکہ ملازمین تک کو قانون اور عدالت سے استثنا اور خصوصی استحقاق (immunities and privileges) حاصل ہوتے ہیں؟

ہمارے ہاں بھی دستور کی دفعہ 248 صدر مملکت، گورنر، وزیراعظم، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کو مقدمات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور قرار دیتی ہے کہ ان افراد کے بجائے وفاق یا صوبے کے خلاف مقدمہ ہوسکتا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاست کی ’فرضی شخصیت‘ کی بحث کا ہمارے ملکی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!

انتظامیہ کے لیے الگ قانون؟

فرانس کے دستوری نظام کے تحت سرکاری ملازمین کے لیے خصوصی قانونی نظام وضع کیا گیا جسے droit administratiff کہا جاتا ہے (انگریزی میں administrative lawاور اردو میں ’ادارہ جاتی قانون‘) ۔ ڈائسی کا خیال یہ تھا کہ یہ نظام قانون کی حکمرانی کے تصور کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح بعض لوگوں کے لیے خصوصی قانون ہوتا ہے اور عام قانون کا اطلاق ان خاص لوگوں پر نہیں ہوتا جو مساوات کے اصول کے خلاف ہے، البتہ دستوری قانون کے کئی ماہرین اس نظام کو قانون کی حکمرانی کے تصور کے خلاف نہیں سمجھتے اور اسے ناگزیر ضرورت قرار دیتے ہیں کیونکہ عام قانون کے اطلاق سے سرکار کا کاروبار ٹھپ ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے!

انتظامیہ اور مقننہ پر کی نگرانی عدلیہ کے ذریعے

برطانیہ میں عدالتوں کے لیے یہ اختیار مانا گیا کہ وہ انتظامیہ کے انتظامی عمل کا جائزہ لے کر فیصلہ کرسکتی ہیں کہ وہ عمل قانون کے مطابق تھا یا نہیں، لیکن ایسا صرف استثنائی صورتوں میں اور نہایت کڑی شرائط کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اسے judicial review of administrative action یعنی ’انتظامی عمل کی عدالتی نگرانی‘ کہا جاتا ہے۔

البتہ برطانیہ کے دستوری نظام میں عدالت کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ پارلیمان کے وضع کردہ قانون کا جائزہ لے کر بتاسکے کہ یہ قانون دستور کے مطابق ہے یا اس سے متصادم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کی اساس ’پارلیمان کی بالادستی‘ (Supremacy of the Parliament) کے تصور پر ہے۔ گویا اس نظام میں judicial review of legislative action یا ’قانون سازی کے عمل کی عدالتی نگرانی‘ ممکن نہیں تھا, اس کی راہ امریکی سپریم کورٹ نے نکال لی۔

ججوں کی حکمرانی؟

امریکی دستوری نظام میں دستور کو ان ریاستوں کے درمیان طے شدہ معاہدہ مانا گیا ہے جنہوں نے مل کر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے وفاق کی تشکیل کی اور اس نظام میں سپریم کورٹ کو اس معاہدے کے محافظ (Custodian of the Constitution) کی حیثیت دی گئی ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نہ صرف یہ کہ امریکا کے صدر کی جانب سے جاری کردہ کسی انتظامی حکم کو دستور سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے سکتی ہے، بلکہ کانگریس کے منظور کردہ کسی قانون کے ساتھ بھی یہی کچھ کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں قرار دیا جاتا ہے کہ انتظامیہ نے یہ انتظامی حکم جاری کرتے ہوئے حدود سے تجاوز کیا، یا مقننہ کا یہ قانون دستور کی مقررکردہ ’حدود سے متجاوز‘ (ultra vires) ہے۔

پس امریکا کا دستوری نظام مقننہ کی بالادستی کے بجائے ’دستور کی بالادستی‘ کے اصول پر قائم ہے، کئی لوگ اسی کو قانون کی حکمرانی سمجھتے ہیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون کی نہیں بلکہ گنتی کے چند ’ججوں کی حکمرانی‘ (Rule of Judges) ہے اور جج بھی وہ جن کو عوام نے منتخب نہیں کیا!

پاکستان کا دستوری نظام کس اصول پر قائم ہے؟

ہم نے کچھ اصول برطانیہ کے دستور سے لیے ہیں، کچھ امریکا کے دستور سے اور کچھ اسلامی دفعات کا بھی اضافہ کیا ہے، لیکن سوال تو برقرار ہے :

کیا یہاں پارلیمان بالادست ہے؟ دستور بالادست ہے؟ یا قرآن و سنت بالادست ہیں؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی دستور کی رو سے قرآن و سنت بالادست ہیں اور سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں اس بات کو دستور کے ’بنیادی ڈھانچے‘ میں شامل قرار دیا ہے، اس کے جواب میں عرض ہے کہ ’بنیادی ڈھانچے کا نظریہ‘ (Basic Structure Theory) ابھی محض نظریہ ہے اور سپریم کورٹ مسلسل اس میں کمی بیشی کرتی رہی ہے، لیکن اگر اسے ایک مسلمہ اصول مانا بھی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت اس لیے بالادست ہیں کہ دستور نے ایسا قرار دیا ہے؟ گویا قرآن و سنت کی بالادستی دستوری شق کی محتاج ہے۔

ہمارے دستور کے تحت وفاقی شرعی عدالت کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن دستور، ’مسلم شخصی قانون‘ اور ’عدالتی طریقِ کار کے متعلق قوانین‘ اس کے اختیارِ سماعت سے باہر ہیں۔ دستور کے استثنا کی وجہ بعض ماہرینِ قانون یہ بتاتے ہیں کہ اگر اس عدالت کو دستوری شقوں کو بھی کالعدم قرار دینے کا اختیار دیا جائے تو بہت شدید تنازعات اور بحران پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو، لیکن عدالت کے ذریعے دستوری شقوں کے کالعدم کرنے کے بجائے دستوری شقوں کی ایسی تعبیر کیوں نہیں کی جاسکتی کہ وہ قرآن و سنت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں؟

دستور اور قوانین کی اسلامی تعبیر

مثال کے طور پر اوپر دستور کی دفعہ 248 کا حوالہ دیا گیا، کیا اس دفعہ کی ایسی تعبیر ضروری نہیں کہ یہ قرآن وسنت کے احکامات کے مطابق ہو جائے اور کسی شخص (صدر، وزیراعظم وغیرہ) کو صرف اسی حد تک تحفظ حاصل ہو جس حد تک قرآن و سنت نے اجازت دی ہے؟

ہمارے علمائے کرام کی توجہ ہمیشہ دستور میں کسی نئی دفعہ کے اضافے، یا قانون میں کسی نئے قانون کے اضافے کی طرف ہوتی ہے، حالانکہ قوانین میں اضافہ اصل چیز نہیں ہے، اصل چیز قوانین کی تعبیر (Interpretation) ہے۔ جب تک دستور کی تمام شقوں کی تعبیر قرآن و سنت کے مطابق کیے جانے کا اصول تسلیم نہیں کیا جاتا، یہ بات ادھوری رہے گی کہ پاکستان میں قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہے۔

موجودہ نظام میں دستور سمیت تمام قوانین ریاست کی تخلیق ہیں اور ریاست جب چاہے ان میں تبدیلیاں لاسکتی ہے اور انہیں ختم بھی کرسکتی ہے۔ قانون کی حکمرانی تب ہوگی جب ریاست اور اس کے تمام ادارے قوانین قرآن و سنت کی بالادستی مان لیں اور سپریم کورٹ اور تمام عدالتیں اپنی یہ آئینی و قانونی ذمہ داری پوری کریں کہ وہ دستور اور تمام قوانین کی ایسی تعبیر کریں گی جو قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہو (دیکھیے: دستور کی دفعہ 227 اور قانونِ نفاذِ شریعت 1991 کی دفعہ 4)۔

پاکستان میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کی یہی ایک صورت ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

wenews امریکا برطانیہ پاکستان حکمران قانون سازی قانون کی حکمرانی قرآن و سنت وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • قانون کی حکمرانی: خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا!
  • عورت، خلا اور خواب
  • رمضان ریلیف پیکج تھرڈپارٹی آڈٹ کی ہدایت: آلوکی پیداور کیلئے ادارہ قایم ‘ زراعت کا معیشت میں حصہ بڑھانا ہے : وزیراعظم 
  • معیاری بیج کی فراہمی سے ملک میں زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے، وزیراعظم
  • زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے؛ وزیراعظم 
  • معیاری بیج کی فراہمی سے ملک میں زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے، وزیراعظم شہبازشریف
  • زرعی گریجویٹ کو زرعی شعبے میں کام کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • اظفر رحمان اپنی نجی زندگی کو سوشل میڈیا سے دور کیوں رکھتے ہیں؟
  • اظفر رحمان اپنی فیملی لائف کو سوشل میڈیا سے دور  کیوں رکھتے ہیں؟