کراچی: درخت سے گر کر نوجوان جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
ملیر میمن گوٹھ پاکستان ہوٹل کے قریب درخت سے گر کر نوجوان ہلاک ہوگیا جس کی اطلاع پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر متوفی کی لاش چھیپا کے رضا کاروں کی مدد سے جناح اسپتال پہنچائی۔
ریسکیو حکام کے مطابق متوفی کی شناخت 20 سالہ راحیل کے نام سے کی گئی جو کہ درخت پر چڑھنے کے دوران اتفاقیہ طور پر گر جاں بحق ہوگیا جبکہ وہ ملیر کا رہائشی بتایا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
نوجوان کرکٹرز کو تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں زمانہ کہتا ہے کہ وہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ بن جاتی ہے، دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیم کو ہراتی اور چھوٹی سے چھوٹی ٹیم سے ہار جاتی ہے، اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزرنے والی قومی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی کے بعد دورئہ نیوزی لینڈ میں ناقص ترین کارکردگی سے چوتھے ٹی ٹوئنٹی میں بدترین شکست کے بعد سیریز گنوا دی۔
پاکستان نے تیسرے میچ میں اچھا کھیل پیش کر کے امید قائم کی لیکن چوتھے ٹی ٹوئنٹی میں نیوزی لینڈ کے 220 رنز کا پیچھا کرتے ہوئے16 ویں اوور کی دوسری گیند پر 105 رنز پر ہی ڈھیر ہو جانا افسوسناک رہا، پاور پلے کے 6 اوورز میں 5 وکٹیں گر گئیں، وہ تو آخری کھلاڑیوں نے لاج رکھ لی ورنہ یہ محسوس ہو رہا تھا کہ 10 ویں اوورز میں محض 56 رنز پر 8 وکٹوں سے محروم ہونے والی ٹیم اپنی تاریخ کے کم ترین اسکور کا ریکارڈ قائم کرے گی جو اس نے آسٹریلیا کے خلاف 74 رنز پر آؤٹ ہو کر بنایا تھا، میزبان ٹیم کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہونے والی پاکستان ٹیم ایک مرتبہ پھر دباؤ شکار ہو کر ناکامی سے دوچار ہوئی۔
9 کھلاڑیوں کا دوہرا ہندسہ بھی عبور نہ کرنا لمحہ فکریہ ہے، اس کے ساتھ ہی ہماری بولنگ نے بھی بہت مایوس کیا،سب نے دیکھا کہ کیوی بولرز نے اپنے اسکور کا عمدگی سے دفاع کرتے ہوئے پاکستان کی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر دیا،'وہ آیا،اس نے دیکھا اور فتح کر لیا' کہ مصداق نوجوان بیٹر حسن نواز نے اپنے تیسرے ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچ میں پاکستان کو نیوزی لینڈ کے خلاف 9 وکٹ سے شاندار فتح دلائی تھی،انھوں نے اس کارنامے کے ساتھ ہی بے شمار ریکارڈز توڑنے والے بابراعظم کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا، حسن نواز 44 گیندوں پر 9 چوکوں اور 6 چھکوں کی مدد سے 100 رنز جوڑ کر ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں تیز ترین سنچری بنانے والے پاکستانی بیٹر بنے،آکلینڈ کے ایڈن پارک گراؤنڈ میں بیٹنگ کے لیے سازگار پچ پر پاکستان کی فتح سے سیریز میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔
پہلی کامیابی کے بعد قومی ٹیم سے اگلے دونوں میچز میں بہتر کارکردگی کی توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں، تیسرے میچ میں فتح کا سہرا بولرز کے سر رہا جنھوں نے مشکل حالات میں میزبان ٹیم کو مکمل 20 اوورز کھیلنے نہ دیے اور بیٹنگ کیلئے سازگار کنڈیشنز میں 19.5 اوورز میں 204رنز تک ہی محدود رکھا، چھوٹے گراؤنڈ پر حارث روف، ابرار احمد،شاہین شاہ آفریدی اور عباس آفریدی نے عمدہ بولنگ کر کے مایوسی میں ڈوبی قوم کو خوش کر دیا، دوسرے میچ میں ٹم سائفرڈ سے4 چھکوں سمیت 26 رنز کی پٹائی برداشت کرنے والے شاہین آفریدی کو بھی ہمت ملی تھی، ابتدائی 2 میچز میں بدترین ناکامیوں کے بعد ہمت اور حوصلہ ملنے سے پاکستان کرکٹ ٹیم سے اچھی توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں۔
ابتدائی دونوں میچز میں صفر کی خفت کا شکار ہونے والے حسن نواز نے عمدہ سنچری بنا کے خود کو اچھا بیٹر ثابت کیا،اس سے امید ہوئی کہ دیگر کھلاڑی بھی اسی طرح اعتماد کا مظاہرہ کریں گے لیکن بدقسمتی سے اگلے ہی میچ میں پھر بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان کرکٹ ہر دور میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی ہے، بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر اسے بدترین دور کا سامنا ہے، 29 برس بعد آئی سی سی کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کی صورت میں کسی بڑے ایونٹ کا انعقاد پاکستان کرکٹ کے لیے ایک روشن باب کی مانند رہا،تمام تر حربوں اور مخالفتوں کے باوجود ناگزیر حالات میں ایونٹ کا بہترین طریقے سے منعقد ہونا پاکستان کی کامیابی رہا، دوسری جانب قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا تسلسل تھم نہ سکا بلکہ نیوزی لینڈ میں بھی جاری ہے لیکن امید پر دنیا قائم ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں انتہائی ناقص کارکردگی کے بعد شدید عوامی رد عمل کے نتیجے میں سینئرز کو آرام دے کر نیوزی لینڈ کے خلاف اہم ترین سیریز میں قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں نیا ٹیلنٹ شامل کیا گیا، 5 میچز پر مشتمل سیریز کے لیے 16 رکنی اسکواڈ میں مسلسل ناکامیوں کے شکار بابر اعظم کی عدم شمولیت تو یقینی تھی لیکن نامعلوم اسباب کی بنا پر محمد رضوان سے قیادت واپس لینے کے بعد ان کو بھی باہر کر دیا گیا، نوجوان فاسٹ بولر نسیم شاہ پر بھی اعتماد نہ کیا گیا،دوسری جانب ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کی بنیاد پر ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہ کھیلنے والے تین کھلاڑیوں عبدالصمد، حسن نواز اور محمد علی کو اس اہم سیریز میں موقع دیا گیا، حسن نواز نے تیسرے میچ میں خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
دراصل نئے کھلاڑیوں کو یکدم انٹرنیشنل مقابلوں میں دھکیل دینا ان کے مستقبل کے ساتھ گھناؤنا کھیل ہے، بنیادی طور پر با صلاحیت کھلاڑیوں کو غیر ملکی پچز پر کھیلنے کا تجربہ دلانا بہت ضروری تھا، یکدم انٹرنیشنل مقابلوں میں ان سے بہتر کارکردگی کی توقعات مناسب نہیں، اب تک پاکستان کرکٹ ٹیم کا کمبی نیشن ہی نہیں بن سکا تو پرفارمنس کی توقعات کیا رکھی جاسکتی ہیں ،مقامی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اسکواڈ کو میچز شروع ہونے سے پہلے نیوزی لینڈ بھیجنا چاہیے تھا، طویل ترین عرصے سے عبوری ہیڈ کوچ عاقب جاوید کے حوالے سے رائے کا اظہار کسی اور موقع پر کریں گے، البتہ یہ امر باعث حیرت اور قابل توجہ ہے کہ محض تین ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کھیلنے والے محمد یوسف بطور بیٹنگ کنسلٹنٹ ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، سابق ٹیسٹ کپتان شاہد خان آفریدی کے بقول محمد یوسف کھلاڑیوں کو اسپن بولنگ کا مقابلہ کرنے کی ترکیبیں بھی بتا رہے ہیں،سب جانتے ہیں کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا فائنل کھیلنے والی نیوزی لینڈ ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈز پر مزید طاقتور ہو جاتی ہے۔
اہم ترین کھلاڑی نہ ہونے کے باوجود نئے پلیئرز نے بہتر کارکردگی پیش کی، نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز آسان نہیں ہوتیں، سخت سرد موسم میں تیزی سے اٹھتی ہوئی گیندیں ہمارے نا تجربہ کار بیٹرز کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہیں، سینئر کھلاڑی تو ڈراپ کیے جانے پر ہی دل ہی دل میں شکر ادا کر رہے ہوں گے کہ ان کو مزید ذلت اور رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا،غیر ملکی پچز پر کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے ہمارے بولرز میں بھی اعتماد کا فقدان نظرآرہا ہے، شاہین شاہ آفریدی کی بولنگ کا اب خوف ختم ہوچکا،ان کی مشہور زمانہ یارکرز حریف بیٹرز کے لیے کوئی مشکلات پیدا نہیں کر رہیں، اس امر کا احساس خود شاہین کو بھی ہے۔
اب وقت آگیا کہ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کر لیں، دنیا بھر کے معروف کرکٹرز نے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہہ کر ٹی ٹوئنٹی پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے،انگلینڈ کے بین اسٹوکس اس کی بہترین اور تازہ ترین مثال ہیں، جو روٹ کے بعد قیادت ملنے کے چند ہفتے بعد ہی ان کا فیصلہ سامنے آگیا اور انھوں نے ون ڈے انٹرنیشنل کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا، پھر نیوزی لینڈ کے ٹرینٹ بولٹ بھی سامنے ہیں جنھوں نے بورڈ کے سینٹرل کنٹریکٹ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا،مسلسل لیگز کی وجہ سے کرکٹ تیز سے تیز تر اور کرکٹر کا کیریئر مختصر ہوتا جا رہا ہے۔
کھلاڑی بھی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ آمدنی کے خواہاں نظر آتے ہیں،پاکستان کرکٹ کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں تھامنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کی نظریں مستقبل پر ہیں اور وہ آئندہ آنے والے وقت کے لیے مضبوط ترین ٹیم بنانے کے لیے کوشاں ہیں، بنیادی مقصد رواں سال ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ اور اگلے برس ہونے والے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے لیے ایک بہترین ٹیم کی تشکیل دینا ہے، بظاہر یہ مستقبل کے لیے تیاریوں کا یہ بدترین آغاز ہے، ٹی ٹوئنٹی سیریز کا پانچواں اور آخری میچ 26 مارچ کو ویلنگٹن میں کھیلا جانا ہے، ضرورت اس امر کی ہے۔
ایک اس مقابلے میں پاکستان کرکٹ ٹیم نئے جذبے اور عزم کے ساتھ میدان میں اترے اور فتح اپنے نام کر کے قوم کی امیدوں کو روشن کرے، بظاہر یہ لگتا ہے کہ بڑھتے ہوئے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوان کرکٹرز کو تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور سینئرز کی دوبارہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں واپسی ہوگی۔