غزل
جہاں وہ خوبصورت، رونقِ محفل نہیں ہوتا
ہمیں جانا ہی پڑتا ہے اگرچہ دل نہیں ہوتا
ذرا آہستگی سے اپنی عرضی پیش فرمائیں
محبت میں دوانہ رونقِ محفل نہیں ہوتا
وہ آنسو بن کے بہ جاتے ہیں رخساروں کے رستے سے
مری آنکھوں میں جن خوابوں کا مستقبل نہیں ہوتا
اتار آتا ہے مچھواروں کو زندہ ریگِ ساحل پر
سمندر اپنے دشمن سے کبھی غافل نہیں ہوتا
ہمارا رشتہ سچائی کی بنیادوں پہ قائم ہے
وگرنہ جھوٹ کہنا تو کوئی مشکل نہیں ہوتا
ٹھکانہ کر لیا دل میں، بغیرِ اذنِ دربدری
بھٹک کر بھی وہ میرے ذہن میں داخل نہیں ہوتا
بناتے اس کو اپنے تاج کا ممتاز سا ہیرا
تری پائل میں یہ پتھر اگر شامل نہیں ہوتا
(عاجز کمال رانا ۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
وہ تو مجھ کو ہی نہ، چلنے کے سِوا کچھ آئے
ورنہ خطرات تو اِس راہ میں کیا کچھ آئے
یہی بے روح طلب ہے تو غرض کیا اِس سے
اب نہ کچھ آئے مرے ہاتھ میں یا کچھ آئے
جانے کیا دکھتا ہے اُس رخ پہ کہ اس دفعہ بھی
لے کے ہم کچھ گئے، اُس کو دکھا کچھ آئے
تُو نہ اِس دامنِ خالی کو سمجھ مجبوری
لینے والے ہوں اگر ہم تو بڑا کچھ آئے
کچھ تو اِس گلشنِ بے رنگ میں مہکے کوئی پھول
کسی رت میں تو تجھے چین دلا! کچھ آئے
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
یہ مرحلہ بھی تو آخر گزر ہی جانا ہے
ترا خلا بھی کسی روز بھر ہی جانا ہے
نہ اب وہ عمر، نہ آسائشیں، نہ عشق کا روگ
کہ اب تو کام سے بس سیدھا گھر ہی جانا ہے
اے ہم سفر! کبھی تو زندگی کی بات بھی کر
بھلے جیے نہ جیے، تُو نے مر ہی جانا ہے
یہ خامشی، یہ اداسی، یہ دل کی ویرانی
جو کہتے رہتے ہیں اک روز کر ہی جانا ہے
یہ تیرا غم ہمیں کب تک اداس رکھے گا
کہ آخرش کبھی ہم نے سنور ہی جانا ہے
نہ کوئی وعدۂ بیعت نہ صلح جوئی کوئی
کہ اب کی بار تو مقتل میں سر ہی جانا ہے
وہ شعر حضرتِ غالب کا کیوں نہ ہو اکرام
کسی کے دل پہ مگر بے اثر ہی جانا ہے
(اکرام افضل مٹھیال۔ اٹک)
۔۔۔
غزل
خوف کب ہے مجھے سزاؤں سے
میں تو شرمندہ ہوں خطاؤں سے
شور سے مجھ کو سخت نفرت ہے
یعنی بیزار ہوں صداؤں سے
دھوپ میں کب ہوئے ہیں بال سفید
میں بھی گزرا ہوں اِبتلاؤں سے
کیا ضرورت تھی پھر دوا کی مجھے
کام چلتا اگر دعاؤں سے
میں مسافر ہوں ایسے رستے کا
دور ہے جو گھنیری چھاؤں سے
شہر سے تو سہولتیں ملی ہیں
پیار مجھ کو ملا ہے گاؤں سے
میں دِیا ہوں فقَط محبّت کا
مجھ کو خطرہ نہیں ہواؤں سے
بھوک ہے، خوف ہے، محبت ہے
بچّے لپٹے ہوئے ہیں ماؤں سے
آج کل کاروبار کرتے ہیں
لُوٹ لیتے تھے جو اداؤں سے
ختم کب ہوں گی خواہشیں کیفی
جان چھوٹے گی کب بلاؤں سے
(محمود کیفی ۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
کوئی تو حل نکالو اس بلائے ناگہانی کا
محبت کھا گئی مجھ سے مرا حصہ جوانی کا
وصال و ہجر کے بیچوں کھڑی اس زندگانی کا
نہ جانے ختم کب ہو گا تماشا آگ پانی کا
میسر خود کو لمحہ بھر جو ہو جاؤں، غنیمت ہے
سمجھ لو دیکھ کر مجھ کو، معانی رائیگانی کا
میں تھا تو مرکزی لیکن مجھے اب ثانوی سمجھو
ہوا کردار میرا اب ضرورت اِس کہانی کا
میں ہرگز حق شراکت کا کسی کو بھی نہ دوں اس میں
اکیلا میں ہی وارث ہوں، غموں کی راجدھانی کا
اسی اک سوچ میں غلطاں کہیں دائم ؔنہ مرجائے
’اتارے قرض کیسے وہ محبت کی نشانی کا‘
(ندیم دائم ۔ ہری پور)
۔۔۔
غزل
خراب حال میں سب کو خراب لگتا ہوں
بس ایک تُو ہے جسے میں نواب لگتا ہوں
میں ایک تیر کی صورت کسی نشانے پر
اگر لگوں تو بڑا بے حساب لگتا ہوں
حروف توڑ کے پھینکا گیا ہے کاغذ پر
بھلا کہاں سے میں تازہ نصاب لگتا ہوں
میں آئنہ ہوں تمہارے لیے بنایا گیا
تمہارے جیسا ہی بالکل جناب لگتا ہوں
ابھی تو شاخ ہری ہے کہ خشک سالی میں
تمہیں کہو گے کدھر سے گلاب لگتا ہوں
حریص لوگوں سے میری کبھی نہیں بنتی
سو اس لیے تجھے تھوڑا خراب لگتا ہوں
(عابد حسین ۔ صائم بورے والا)
۔۔۔
غزل
پہلے پہلے مرے اندر کا فسوں ٹوٹے گا
پھر کہیں جا کے یہ اندیشۂ خوں ٹوٹے گا
میں اُسے پیار سے توڑوں گا وگرنہ وہ شخص
یوں نہ ٹوٹے گا کبھی، اور نہ یوں ٹوٹے گا
میری تنہائی تو اُس وقت مکمل ہو گی
جب کہیں سلسلۂ کُن فیکوں ٹوٹے گا
شہرِ عشّاق میں اک تازہ ہوس گھومتی ہے
دیکھنا اب کہ یہاں صبر و سکوں ٹوٹے گا
رفتگاں لوٹ کے آئیں گے اچانک مجھ میں
اور اچانک سے مرا زورِ جنوں ٹوٹے گا
کوئی بنتا ہی نہ تھا ردِعمل کا باعث
کس نے سوچا تھا کہ ایسے یہ ستوں ٹوٹے گا
(حسن فاروق۔ فتح جنگ ،اٹک)
۔۔۔
غزل
گھٹن ہے اور عجب بے بسی ہوا میں ہے
یقین جان بڑی تشنگی ہوا میں ہے
یہ کون ہو گیا رخصت ملے بغیر ہمیں
ہے سوگوار نگر، خامشی ہوا میں ہے
ہر ایک پھول گھٹن کا شکار لگتا ہے
ذرا پتہ تو کرو کیا کمی ہوا میں ہے
تمہارے شہر کے سب لوگ بد مزاج ہوئے
کرخت لہجے ہیں اور بے رخی ہوا میں ہے
فلک سے آنے لگیں قہقہوں کی آوازیں
گمان ہونے لگا زندگی ہوا میں ہے
لکھا ہے نام ترا رات کی ہتھیلی پر
جہاں مہکنے لگا ہے، خوشی ہوا میں ہے
تری غزل میں جو احساس ہے نئے پن کا
یہ اُس کا فیض ہے یا تازگی ہوا میں ہے
یہ لگ رہا ہے مرے آس پاس ہو اب تک
ترے بدن کی مہک آج بھی ہوا میں ہے
(راشد انصر۔ پاک پتن)
.
غزل
نمی آنکھ میں اور ہنسی کا سفر
بڑا ہے کٹھن زندگی کا سفر
کہاں مجھ کو لے جائے اب دیکھیے
مرا یہ سفر بے خودی کا سفر
کہیں تو ملے میرے دل کو قرار
کہیں تو تھمے بے کلی کا سفر
دوبارہ وہ صورت دکھائی نہ دی
کیا بار ہا اس گلی کا سفر
اڑا آسماں کی بلندی میں وہ
کیا جس نے بھی عاجزی کا سفر
میں سمجھا تھا پھولوں کا بستر مگر
تھا کانٹوں سے پر زندگی کا سفر
مری آنکھ کی روشنی لے گیا
مسلسل سفر تیرگی کا سفر
یہاں سانس لینا روا تک نہیں
میاں حبس ہے عاشقی کا سفر
ہے ممکن میں کھو جاؤں راحل کہیں
کہ در پیش ہے آگہی کا سفر
(علی راحل۔بورے والا)
...
غزل
نہیں اے دل ربا نہ ہو سکے گی
طویل اتنی سزا نہ ہو سکے گی
تمہارے جسم سے لپٹی رہے گی
مری خوشبو جدا نہ ہو سکے گی
تمہارے اور میرے درمیاں اب
یہ دنیا مبتلا نہ ہو سکے گی
وفاداری نبھاؤگی یہ ہم سے
محبّت، بے وفا نہ ہو سکے
ہمارا قرب ہے حاصل تمہی کو
بچھڑنے کی خطا نہ ہو سکے گی
جہاں مرضی نہیں شامل ہو میری
تمہاری بھی رضا نہ ہو سکے گی
ابھی تو ابتدا کرنی ہے شوبیؔ
تمہاری انتہا نہ ہو سکے گی
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)
...
غزل
کسی مجبور کی یہ لوگ جب امداد کرتے ہیں
یہ لوگوں کی جمع پہلے بڑی تعداد کرتے ہیں
میں جن سے پیار کرتا ہوں میں جن پہ جاں چھڑکتا ہوں
وہی تو یار سب مل کر مجھے برباد کرتے ہیں
ہمارا ہاتھ نہ پھیلے کسی مجبور کے آگے
مرے مالک ترے آگے یہی فریاد کرتے ہیں
یہ بچے جب جواں ہوں گے بنیں گے آسرا ان کا
یہی تو سوچ کر ماں باپ خود کو شاد کرتے ہیں
میں گھر سے دور رہتا ہوں مری ہے نوکری ایسی
مرے بچے مجھے گھر میں بہت ہی یاد کرتے ہیں
یہاں کے لوگ کیسے ہیں عجب قانون ہے ان کا
یہاں جو قتل کرتا ہے اُسے آزاد کرتے ہیں
(زکریا نوریز۔ پاک پتن)
...
غزل
ہاں سب سے جدا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
خوابوں میں سجا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
ہاں یار مجھے اسکی ضرورت ہے بلا کی
ہاں سر پہ چھڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
جو کچھ بھی ہوا پیار کی خاطر وہ بھلا دو
یہ کیسی سزا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
دیکھوں نہ زلیخا کی طرح ٹوٹ گیا ہوں
یوسف کی طرح رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
ہاں چاہنے والے تو بہت ہے میرے لیکن
بس دل میں بسا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
کمبخت ولی ہوگا یا پہنچا ہوا بندہ
وہ جس نے بھی پا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
وہ ساتھ نہیں دل کے بہت پاس ہے پھر بھی
ہاں دل میں یہاں رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
جل جل کے میرے دل میں تو سب راکھ ہوا ہے
ہاں ایک بچا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
ارسل ؔجو تیرے واسطے پاگل تھا میری جاں
اب خاک اڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہ ہو سکے گی ہی جانا ہے ہوا میں ہے نہیں ہوتا لگتا ہوں کرتے ہیں کچھ ا ئے کا سفر مجھ کو بھی تو
پڑھیں:
کیسی گرل فرینڈ چاہئیے؟ ادھیڑ عمر پروفیسر کی سخت شرائط پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ
بیجنگ(نیوز ڈیسک)چین کی ایک معروف یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی جانب سے اپنی ممکنہ گرل فرینڈ کے لیے مقرر کردہ شرائط سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔ چینی خبر رساں ادارے ”ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ“ کی رپورٹ کے مطابق مشرقی چین کی زیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف مارکسزم سے وابستہ 35 سالہ پروفیسر، جنہیں مسٹر لو کے نام سے شناخت کیا گیا ہے، نے ایک میچ میکنگ چیٹ روم میں اپنی تفصیلات اور توقعات شیئر کیں۔
انہوں نے اپنی شناخت 175 سینٹی میٹر لمبے، 70 کلو وزنی، ایک اعلیٰ چینی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ شخص کے طور پر کرائی اور بتایا کہ ان کی سالانہ آمدنی 1 ملین یوان (تقریباً 3.81 کروڑ پاکستانی روپے) ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں کھیلوں اور مالیاتی سرمایہ کاری میں دلچسپی ہے اور وہ زیجیانگ کے شہر یی وو میں ایک خوشحال خاندان کے اکلوتے بیٹے ہیں۔
مسٹر لو نے اپنی گرل فرینڈ کے لیے مخصوص معیارات طے کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی لڑکی چاہتے ہیں جو سال 2000 کے بعد پیدا ہوئی ہو، یعنی ان سے 10 سال چھوٹی ہو۔ مزید برآں، ان کے مطابق لڑکی کا قد 165 سے 171 سینٹی میٹر کے درمیان، جسم دبلا پتلا اور مجموعی شخصیت متاثر کن ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا، ’میں ان خواتین پر بھی غور کروں گا جو دنیا کی ٹاپ 20 یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں، لیکن یہ ان کی دیگر خصوصیات پر منحصر ہوگا۔ اگر لڑکی نے قانون یا میڈیکل میں ڈگری حاصل کی ہو تو اسے اضافی پوائنٹس ملیں گے۔‘
مسٹر لو نے اپنی پوسٹ کے آخر میں لکھا، ’اگر کسی لڑکی کی یونیورسٹی میری فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن وہ دیگر خوبیوں جیسے غیر معمولی خوبصورتی، مالی طور پر مستحکم خاندانی پس منظر یا نمایاں صلاحیتوں کی حامل ہو، تو میں اسے موقع دینے پر غور کر سکتا ہوں۔‘
ان سخت شرائط پر عوامی ردعمل کے بعد زیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف مارکسزم نے 17 مارچ کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس پوسٹ سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا، ’اس میں کچھ غلط معلومات شامل ہیں،‘ تاہم یونیورسٹی نے مزید وضاحت نہیں دی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ مسٹر لو نے معاملے کی اطلاع پولیس کو دے دی ہے۔
یہ واقعہ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شدید ردعمل کا باعث بنا، جہاں بیشتر صارفین نے مسٹر لو کی ’ناقابل قبول‘ شرائط پر تنقید کی، جبکہ کچھ نے کہا کہ ہر شخص کو اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
ایک صارف نے تبصرہ کیا، ’یہ تعلیم کے لیے ایک المیہ ہے، وہ محبت کو کاروباری لین دین کی طرح سمجھ رہے ہیں۔‘ جبکہ دوسرے نے لکھا، ’اس شخص کو کیا مسئلہ ہے؟ وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل ہیں، اس لیے ان کا چناؤ کرنا بالکل منطقی ہے۔ کئی صارفین محض حسد کا شکار ہیں۔‘
مزیدپڑھیں:وہ یورپی ملک جو رہائش اختیار کرنیوالوں کو کروڑوں روپے ادا کرے گا