{براہ کرم اس مضمون کی بہتر تفہیم کے لیے اسے زباں فہمی نمبر98:’’رُہتکی،رانگھڑی یا ہریانوی (یعنی کھڑی بولی): اردو کی ماں؟‘‘تحریر: سہیل احمد صدیقی، مشمولہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین ، مؤرخہ 23مئی 2021ء سے ملا کر پڑھا جائے جو مندرجہ ذیل ویب سائٹ ربط پر آن لائن دست یاب ہے:

https://www.express.pk/story/2180772/rhtky-rangry- ya-hryanwy-yany-kry- wly-ardw-ky-man-2180772}

 خاکسار نے اپنے ہریانوی سے متعلق گزشتہ کالم میں بعض باتیں تفضیل سے بوجوہ بیان نہیں کیں۔

ہریانوی کے ناموں میںدیگر کے علاوہ،بانگڑواورجاٹو بھی شامل ہیں۔محولہ بالا گزشتہ کالم میں یہ نکتہ بیا ن کیا تھا کہ اس زبان کے کسی ایک نام پر اکثریت کااتفاق نہیں ہوسکا ہے۔تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اس باب میں بہت پیش رفت ہوچکی ہے اور پاکستان میں ہریانوی نام ہی غالب آگیا ہے ۔

ہریانوی کے فروغ کے لیے 2017ء میں قائم ہونے والی اوّلین تنظیم نوہرہ کے اہم رہنما، جنرل سیکریٹری جناب اختر مرزا کا کہنا ہے کہ  ’’جہاں تک یہ بات ہے کہ اسے پاکستان میں رانگڑی زبان کے نام سے (بھی) جانا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے راجپوت بھائی، جنہیں رانگڑھ کہا جاتا ہے،یہ زبان عموماً اپنے گھر اور بازار میں بولتے ہیں اور(دیگر کی نسبت) تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔۔ جبکہ ہریانہ سے ہجرت کر کے آنے والے باقی اقوام مثلاٗ ملک، سیّد، مغل، آرائیں، جاٹ وغیرہ بھی وہی زبان بولتے ہیں ،لیکن وہ تعداد میں کم ہیں تو (ہماری  زبان) رانگڑھی زبان ہی کے نام سے پہچانی جانے لگی۔‘‘

ایک لسانی قیاس کے مطابق،ہریانوی سے استفادہ کرنے والی زبانوں کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے۔یہ انکشاف ڈاکٹر اَنوار احمد صاحب، سابق صدرنشیں مقتدرہ قومی زبان نے ’نوہرہ‘ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں کیا۔یہ اگست 2018ء کی بات ہے۔اس بیان کی روشنی میں باقاعدہ تحقیق کا دَر کھُل جائے، تو کیا بات ہے۔اس کانفرنس کے کرتادھرتا افرادمیں بعض خاکسارکی واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں شامل ہیں جیسے جاویدمرزا، انجینئر احمد سجاد اور نوشاد قاصر رانا (کچھ عرصہ پہلے مرحوم ہوگئے)۔

یہاں ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ اردو کی ماں ہونے کی دعوے دار زبانوں سے خود اُردو کا اشتراک مختلف جہتوں میں نظرآتا ہے ،لیکن جب کوئی زبان اپنا الگ تشخص حاصل کرنے میں کام یاب ہوتی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پھر وہ اپنی ہم رشتہ زبان یا زبانوں سے جُدادِکھائی دیتی ہے۔اکثر ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردوکی جڑیں کھڑی بولی عُرف ہریانوی اور بِرج بھاشا میں ملتی ہیں۔کھڑی بولی یعنی موجودہ ہریانی یا ہریانوی کی بنیاد میں دیگر زبانوں سے مماثلت کا عنصر نمایاں ہے۔ایک تحقیق کے مطابق’’کھڑی بولی میں مشدّد الفاظ کا استعمال کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے۔

جیسے رٹّی (روٹی)بدّل (بادل)چدّر (چادر) گڈّی (گاڑی) وغیرہ۔  قدیم اردو یعنی دکنی اس لحاظ سے کھڑی بولی سے قریب نظر آتی ہے کہ اس میں ’’سُنا‘‘(سونا)’’چلّا‘(چولا)عام ہیں۔سہارنپور،مظفرنگراور میرٹھ مشدّد الفاظ کے کثرت ِاستعمال کی وجہ سے ’’اضلاع مشدّدہ‘‘ کہے جاتے ہیں۔دکنی اردو کی طرح کھڑی بولی کی یہ عام خصوصیت ہے کہ اس میں درمیانی ’’ہ‘‘گرا دی جاتی ہے اور آوازیں اپنی ہیت کھو دیتی ہیں۔جیسے نئیں (نہیں)کاں (کہاں)وغیرہ۔یہ سلسلہ معیاری اردوشاعری کے ابتدائی دورمیں بھی عام تھااور حسرت ؔ موہانی کے متروکات قراردیے جانے کے مدتوں بعد ، آج بھی بعض لوگ نئیں (نہیں)، یاں (یہاں)، واں(وہاں) کا استعمال کرتے ہیں۔

کھڑی بولی میں دکنی کی طرح مصوّتوں کو انفیانے کا رجحان عام ہے۔جیسے فاطماں (فاطمہ)کہناں (کہنا)دیاں (دیا)کونچ در کونچ(کوچ در کوچ)کھڑی بولی میں اسماء (ناموں)کی جمع الف نون لگا کر بنائی جاتی ہے۔جیسے دِن سے دناں،کھیت سے کھتیاں وغیرہ۔یہی پنجابی میں بھی ہوتا آیا ہے اور آج تک مستعمل ہے۔کھڑی بولی میں ضمیر میں تیرا میرا کی جگہ تجھ مجھ کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے، جو قُدَمائے سخن کی اردوشاعری میں بھی موجودہے۔کھڑی بولی میں افعال کی صورت یہ ہے ’’میں مارتا ہوں‘‘ کے ساتھ ’’میں ماروں ہوں،وہ مارے ہے،تو مارے ہے‘‘بھی ملتا ہے۔یہاں یاد رکھنے کی بات ہے کہ دکنی کاپنجابی، گوجری، ہندکو اور سرائیکی سے اشتراک ومماثلت بھی مفصّل بابِ تحقیق ہے، جس کی بابت خاکسار نے زباں فہمی کے کالموں/مضامین میں متعدد بارنشان دہی کی ہے۔

اردو، ہریانوی، ملتانی(سرائیکی)، پنجابی اور میواتی زبان کے فقرات کا لسانی جائزہ

انجینئر احمد سجادبابرنے اطلاع دی کہ’’  ڈاکٹر عمران اختر نے اپنا پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ ’’خطہ ملتان کی مختلف زبانوں کا لسانی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی،ملتان  سے 2011-15میں مکمل کیا۔آپ کے نگران مقالہ پروفیسر قاضی عبدالرحمان عابد مرحوم تھے۔اس مقالے میں ڈاکٹر عمران اختر مختلف زبانوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں‘‘:

اردو، ہریانوی، ملتانی، پنجابی اور میواتی زبان کے فقرات کا لسانی جائزہ

نمبر شمار: اردو، ہریانوی، ملتانی، پنجابی

1:   یہ بوڑھا نہیں ہے، یوہ بڈھا کونیاں، اے بڈھا کینی، اے بڈھا نئیں

2:    اکرم اسلم کے ساتھ گیا ہے، اکرم اسلم گیلاں گیا سَے، اکرم اسلم نال گئے، اکرم اسلم دے نال گیا اے

3:    اکبر کو کسی نے مارا، اکبر نے کسی نے ماریا، اکبر کوں کہیں مارے، اکبر نوں کنے ماریا

4:   ہم وہاں گئے تھے، ہم اُت گئے تھے، اساں اُتھاں گئے ہاسے، اسی اوتھے گئے سی

5:    یہ کس کا دروازہ ہے، یوہ کس کا بارنا سَے، اے کیں دا بْوہا ہے، اے کِدا بوہاوَا

6:   آپ کو کس نے پڑھایا؟، تھم کس نَے پڈھائے، تہاکوں کیں پڑھائے، تہانوں کنے پڈھایا

7:   یہ بوڑھا وہاں سے یہاں آیا ہے، یوہ بْوڈّھا اْت سَے اْریا آیا سے، اے بْڈھا اْتھوں اِتھاں آئے، اے بڈھا اوتھوں ایتھے آے

8:   پانی کون پلائے گا، پانی کون پیاوَے گا؟، پانی کون پلیسی؟، پانی کنے پیاوناں ؟

9:   آہستہ آہستہ چل، اَلگے اَلگے چال، ہولے ہولے ٹْر، ہولی ہولی ٹْر

10:   وہ کس کا انتظار کررہا ہے، واہ کس کی باٹ میں سَے، او کیندی تانگھ اِچ ہے، او کِدی راہ ویکھدا اے

انجینئر احمد سجاد بابر کے مضمون سے خوشہ چینی کرتے ہوئے مزید مواد پیش کرتاہوں: صابر علی صابرؔ اپنے ایم فل کے مقالہ بعنوان ’’دوہا نگاری میں اردو اور ہریانوی کا لسانی اشتراک‘‘  میں ویسے تو دوہا نگاری پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، لیکن شروع کے ابواب میں ہریانہ کا تعارف اور ساتھ ہی ہریانوی صرف و نحو پر بھی اختصار سے بیانیہ ملتا ہے۔ صابر علی صابرؔ ہریانوی کی گرامر،جملوں کی ساخت،بناوٹ پر کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں:ہریانوی میں نون غنہ کا ستعمال زیادہ ہوتا ہے،۔جیسے ’’سے کی بجائے سیں‘‘اسی طرح’’تُو کی بجائے توں‘‘ وغیرہ۔ ہریانوی میں جمع متکلم ’’ہم‘‘ آتا ہے۔اسی طرح اشارہ کی ضمیریں ہریانی میں’’یو،اِس‘‘ رائج ہیں۔اگر شیخ محبوب عالم کے محشر نامہ کو دیکھیں تو اشارہ کی ضمیریں’’یہ،وے،اِس،اِن،یو،تیں،توں‘‘ملتی ہیں ۔ہریانوی میں ’’نے‘‘ علامتِ فاعل بھی ہے اور علامتِ مفعول بھی جب کہ اردو میں یہ صرف علامتِ فاعل ہے وہ بھی صرف ’’متعدی‘‘افعال میں، جملہ دیکھیے: مَن نے سانپ ماریا۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔۔۔ ماسٹر نے مَن نے ماریا وغیرہ

ہریانوی میں ڑ کی جگہ  ڈ کا استعمال زیادہ ہے۔۔۔۔۔ ملا وجہی نے سب رس اور  قطب مشتری میں پڑھنے کی جگہ پڈھنے، چھوڑ کی جگہ چھوڈ،بڑا کو بڈا،چڑھنا کو چڈھنا لکھا ہے۔

ہریانوی میں جمع بنانے کے لئے ’’وں‘‘ کی بجائے ’’آں‘‘ استعمال کرتے ہیں جیسے کتاب سے کتابوں کی بجائے کتاباں،ٹکر سے ٹکروں کی بجائے ٹکراں،غریباں،راتاں، باتاں، لاتاں وغیرہ۔ماضی مطلق بنانے کے لئے الف کی بجائے ’’یا‘‘لگاتے ہیں۔ جیسے مارنا سے مارا کی بجائے ماریا،کہنا سے کہا کی بجائے کہیا،چلنا سے چلا کی بجائے چالیا وغیرہ

ہریانوی میں الفاظ کو مشدّد کر دیا جاتا ہے جیسے سونا کی جگہ سونّا اور سُونا کی بجائے سُنّا، لاڈو کی بجائے لاڈّو، شادی کی بجائے شادّی،گوڈا کی بجائے’’گوڈّا‘‘ وغیرہ۔ ہریانوی میں درمیان کی ہ گرا دیتے ہیں اور یہی کام کھڑی بولی کی نشانی ہے جیسے نہیں کی جگہ نئیں،اور کہاں کی ہ کا غیر واضح بولنا وغیرہ

صابر علی صابر ؔمزید ہریانوی کے ضمائر اور زمانوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فعل مستقبل کی گردان

واحد متکلم، جمع متکلم،واحد حاضر،جمع حاضر،واحد غائب، جمع غائب، میں کہؤں گا، ہم کہواں گے، تیںکہوے گا، تھم کہؤں گے، وا کہؤے گا، ویں کہویں گے

ماضی استمراری کی گردان

واحد متکلم، جمع متکلم، واحد حاضر، جمع حاضر، واحد غائب، جمع غائب، میں کہؤں تھا، میں کہیاں کروں تھا، ہم کہواں  تھے، ہم کہیاں کراں تھے، تیںکہوے  تھا، تیں کہیا کرے تھا، تھم کہؤں تھے، تھم کہیا کرو تھے، وا کہؤے تھا، وا کہیا کرے تھا، ویں کہویں تھے، ویں کہیا کرے تھے

فعل مضارع کی گردان

واحد متکلم، جمع متکلم، واحد حاضر، جمع حاضر، واحد غائب، جمع غائب، میں لیاؤں، ہم لیاواں، تیں لیاوے، تھم لیاو، وا لیاوے، ویں لیاویں

ماضی شکیہ کی گردان

واحد متکلم، جمع متکلم، واحد حاضر، جمع حاضر، واحد غائب، جمع غائب، میں لے آیا ہو گا، ہم لے آئے ہو ں گے، تیں لے آیا ہو گا، تھم لے آئے ہو ں گے،  وا لے آیا ہو گا، ویں لے آئے ہو ں گے

فعل امر کی گردان

واحد متکلم ،جمع متکلم، واحد حاضر، جمع حاضر، واحد غائب، جمع غائب

……………

تیں لیا، تھم لیاؤ، وا لیاوے، ویں لیاویں

 ہریانوی کی بطور زبان بہ سُرعت تمام کام یابی کے سلسلے میں مندرجہ ذیل نِکات قابلِ داد ہیں:

1۔ ہریانوی زبان میں ادب کی تمام اصناف تخلیق کی جارہی ہیں ۔ ہریانوی زبان کوادارہ فروغ قومی زبان( مقتدرہ قومی زبان) اور اکادمی ادبیات نے پاکستانی زبانوں میں شامل کر لیا ہے۔

2۔ ہریانوی زبان کا قاعدہ مکمل ہوچکا ہے۔ جس میں ہریانوی کے مخصوص تلفظ کے لیے چھَے( 6 )نئے حروف مزید استعمال کیے گئے ہیں۔ اور اب اسی رسم الخط میں کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔

3۔ ہریانوی زبان کے اس وقت 6 لہجے موجود ہیں،جنھیں ہندوستان کے صوبہ ہریانہ میں پڑھایا بھی جا رہا ہے۔ ان میں باگڑی، بانگری، نردکھی، دیش والی، آہیر واٹی اور میواتی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع انبالہ کے علاقہ میں جو لہجہ بولا جاتا ہے اسے پوادھی لہجہ کا نام دیا جاتا ہے۔

4۔ ہجرت کے دوران میں راجپوتوں نے زیادہ تر کرنال، حصار، گڑگاؤں اور روہتک سے ہجرت کی اور ان کا لہجہ بھی علاقوں کے فرق سے آپس میں مختلف ہے۔ ان میں زیادہ تر بانگری، نردکھی اور دیش والی لہجہ بولنے والے ہیں۔

5۔ نوہرہ تنطیم نے تمام ہریانوی بولنے والوں کو اکٹھا کیا ،خواہ وہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں،یوں پورے پاکستان سے لوگ ہریانوی کے ایک متفق پرچم تلے جمع ہو چکے ہیں۔

ہریانوی کتابیں:  2017 سے 2025 تک شایع ہونے والی کتابوں کی تفصیل

1۔ سہ ماہی میگزین ''نوہرہ''  (اس کے دو شمارے مجھے بھی ارسال کیے گئے )

2۔ سماج گیان (اختر مرزا)

3۔ مراڑ۔ ہریانوی افسانے (راؤ رحمت علی)

4۔ ہریانوی لوک گیت (اختر مرزا)

5۔  ماٹّی کی چیس (ہریانوی افسانوں کا انتخاب، مرتّبہ رانا تصویر احمد)

6۔ کُلھڑی مینھ دانڑے(بچوں کے لئے ہریانوی نظمیں،مرتّبہ اختر مرزا)

7۔ ترکھیت (ہریانوی شعراء کا منتخب کلام، مرتبہ: رانا نوشاد قاصر)

8۔روکھ پے بیٹھے پنچھی کی سنڑُ (ہریانوی شاعری کا مجموعہ: انور علی رانا)

9۔ کِکاری (ہریانوی فکاہیہ۔مضامین اور ترجمہ، مرتّبہ اختر مرزا

10۔ آلے مینھ دیوا (ہریانوی تحقیقی مضامین اور مقالہ جات کا مجموعہ: مرتّبہ رانا تصویر احمد)

11۔ ایکلا درکھت (ہریانوی افسانے از راؤ زاہد وارثی) 

12۔اس کے علاوہ ہریانوی ۔اردولغت پر بھی کام ہو رہا ہے جوبہت جلد شایع ہوگی۔

 13۔پاکستان ٹیلی ویژن کے ملتان سنٹر سے پندرہ روزہ ہریانوی پروگرام بھی پیش کیا جاتا ہے جو بہت جلد ہفتہ وار ہو جائے گا۔

14۔ ہر سال یکم نومبر کوپاکستان میں ’’ہریانوی یوم ثقافت‘‘[Haryanvi Cultural Day]جوش خروش سے منایا جاتا ہے۔

خاکسار کے واٹس ایپ حلقے بزم زباں فہمی کے سب سے زیادہ فعال اراکین میں متعدد ہریانوی اصحاب بشمول انجینئر احمد سجاد بابر، اخترمرزا، غلام محمد وامق  اور راؤ شکیل احمد گُل ہریانوی کے اسماء لائق ذکر ہیں، کچھ عرصے پہلے تک نوشاد قاصر (مرحوم) بھی بہت فعال رہے، میں ان سب کا شکر گزارہوںکہ اس موضوع پر موادکی فراہمی میں تعاو ن کیا۔ وامق صاحب بطور اُردو اور سندھی شاعر معروف ہیں، مگر اب وہ اپنی آبائی زبان ہریانوی کا حق بھی ادا کرنے لگے ہیں۔

آخر میں عرض کروں کہ ہریانوی کے اردو سے تعلق کے موضوع پر مزید مواد بھی دست یاب ہے اور میری دست رَس میں بھی ہے ، لیکن دیگر موضوعات کی باری باقی ہے ، لہٰذا فی الحال تھوڑے کو بُہت جانیں۔

مآخذ

1۔ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ از ڈاکٹر سہیل بخاری

2۔اردو کی کہانی .

...............ایضاً..........

3۔مختصر تاریخ ادب اردواَزڈ اکٹر اَنور سدید

4۔اردواَدب کی مختصرترین تاریخ از ڈاکٹر سلیم اختر

5۔’’ہریانوی نثر کا تخلیقی سرمایہ، قیام پاکستان کے بعد‘‘ از انجینئراحمد سجاد بابر(غیرمطبوعہ مضمون ہدیہ برائے راقم سطور)

6۔’’اردو زبان کے ابتدائی نقوش اَز  وجے کمار، ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو ،جموں یونیورسٹی، مقبوضہ وادی جمّوں(آن لائن اشاعت)

7۔’’ہریانوی اور اُردو زبان کی ثقافتی مماثلت:لسانیاتی ومساحتی مطالعہ‘‘ ازڈاکٹر عمران اختر(آن لائن اشاعت)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہریانوی زبان ہریانوی میں کا استعمال ہریانوی کے ا کی بجائے زباں فہمی اکرم اسلم واحد حاضر واحد غائب کا لسانی ہے کہ اس زبان کے ہے جیسے ملتا ہے جاتا ہے میں بھی اردو کی بات ہے کی جگہ ہے اور

پڑھیں:

گھروں میں سولر سسٹم کے بجائے ونڈ پاور سسٹم لگانا کتنا مفید ہے؟

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں سے ہر خاص و عام پریشان ہے، بجلی کے زائد بلوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے گھروں میں سولر سسٹم لگانا شروع کر دیے تھے۔

تاہم حکومت کی جانب سے حال ہی میں نئے سولر صارفین سے بجلی کا فی یونٹ 27 روپے میں خریدنے کے بجائے 10 روپے میں خریدنے کے حوالے سے پالیسی متعارف کروائی گئی ہے جس کے تحت سولر سسٹم پر خرچ کی جانے والی رقم جو پہلے 5 سالوں میں وصول ہوتی تھی اب 10 سالوں سے بھی زائد وقت میں وصول ہو گی، اس وجہ سے سولر سسٹم کی جگہ اب لوگ ونڈ پاور سسٹم لگانے کا سوچ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: سولر پینلز مہنگے: 5 سے 12 کلوواٹ کے سولر سسٹم کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا؟

وی نیوز نے ماہرین توانائی سے گفتگو کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں کیا ونڈ پاور سسٹم کامیاب ہے اور ونڈ پاور سسٹم لگانے پر اخراجات سولر سسٹم سے زیادہ آتے ہیں یا کم؟

رینیوایبل انرجی ایسوسی ایشن پاکستان کے سربراہ نثار لطیف نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ونڈ پاور سسٹم دنیا میں بھی کامیاب ہے اور پاکستان میں بھی اگر یہ لگائی جائے تو یہ کامیاب ہے لیکن اس سسٹم کی کامیابی کے لیے بہت سے عوامل کا ہونا بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صوبہ سندھ کے علاقے جھمپیر میں بہت کامیاب ونڈ پاور پلانٹس تنصیب کیے گئے ہیں اور یہ گرڈ اسٹیشن کو بھی بجلی دیتے ہیں، پاکستان کے ہر علاقے میں ہوا کا تناسب مختلف ہے، کچھ علاقوں میں ونڈ پاور سسٹم زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتے جبکہ سولر سسٹم کے لیے صرف سورج کی ضرورت ہے جو کہ ہر جگہ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے: سندھ میں بڑے پیمانے پر سولر سسٹم دینے کا اعلان

نثار لطیف نے بتایا کہ دنیا بھر میں سب سے سستی بجلی سولر سے ہی بنائی جا رہی ہے، سولر سسٹم کی تنصیب کا عمل کم خرچ اور آسان ہے جبکہ ونڈ پاور سسٹم وہاں زیادہ کامیاب ہیں جہاں ہوا کا تناسب بہت زیادہ ہو۔

اخراجات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ونڈ پاور سسٹم لگانے پر سولر سسٹم سے دگنے اخراجات آتے ہیں، گھروں میں اگر سولر سسٹم 10 لاکھ کا لگتا ہے تو اتنی ہی بجلی بنانے کے لیے ونڈ پاور سسٹم پر 20 لاکھ روپے کے اخراجات آئیں گے، ونڈ پاور سسٹم بڑی تعداد میں میگا واٹ اور گیگا واٹس تک بجلی بنانے کے لیے زیادہ مفید ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اخراجات بجلی توانائی سولر سسٹم ونڈ پاور

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت کا کسانوں کو بڑا جھٹکا
  • ہم زبان کے پکے ہیں، بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی، وفاقی وزیر توانائی
  • بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی، چند دنوں میں میری باتیں ثابت ہوجائیں گی، اویس لغاری
  • گھروں میں سولر سسٹم کے بجائے ونڈ پاور سسٹم لگانا کتنا مفید ہے؟
  • اور کوئی نہیں، وہ واحد شخص میں ہوں جو یوکرین جنگ ختم کروا سکتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اردو، پنجابی، سندھی اور بلوچی زبانوں کے خالق روسیِ، ماہر تحقیق
  • پنڈ سلطانی: منفرد ریلوے اسٹیشن جہاں مسافر آتے ہیں نہ ریل گاڑی رکتی ہے
  • 23 مارچ کو مسلمانوں نے خدائے واحد کے سوا ہر غلامی کو مسترد کیا: خالد مقبول صدیقی
  • 23 مارچ کو مسلمانوں نے خدائے واحد کے سوا غلامی کو مسترد کردیا، خالد مقبول صدیقی