سگنل میسجنگ ایپ کیا ہے، یہ کتنی محفوظ ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
فری میسجنگ ایپ سگنل اس وقت سرخیوں میں آئی جب وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ اسے سینیئر امریکی حکام کے درمیان خفیہ گروپ چیٹ کے لیے استعمال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ نے یمن میں حوثی باغیوں پر فوجی حملوں کی خبر کیوں لیک کی؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اٹلانٹک کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ کو نادانستہ طور پر اس گروپ میں شامل کر لیا گیا تھا جہاں یمن میں حوثی گروپ کے خلاف حملے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹ لیڈر چک شومر نے اسے تاریخ کی سب سے حیران کن فوجی انٹیلیجنس لیکس قرار دیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن اصل میں سگنل کیا ہے اور اس پر سینیئر سیاست دانوں کی بات چیت کتنی محفوظ تھی؟
سگنل کے ماہانہ صارفین کا تخمینہ 40 سے 70 ملین ہے جو سب سے بڑی میسجنگ سروسز واٹس ایپ اور میسنجر کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے جو ان کے صارفین کی تعداد اربوں میں شمار کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: واٹس ایپ نے ایک کروڑ بھارتیوں کے اکاؤنٹس بند کردیے، وہ کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھے؟
اس میں صرف میسجز بھیجنے اور وصول کرنے والے ہی پیغامات پڑھ سکتے ہیں – یہاں تک کہ سگنل خود ان تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا ہے۔
واٹس ایپ سمیت کئی دیگر پلیٹ فارمز میں بھی اینڈ ٹو اینڈ انکریپشن موجود ہے لیکن سگنل کے سیکیورٹی فیچرز اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
مثال کے طور پر وہ کوڈ جو ایپ کو کام کرتا ہے وہ اوپن سورس ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اسے چیک کرسکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ایسی کوئی کمزوری نہیں ہے جس کا ہیکرز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اس کے مالکان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین سے بہت کم معلومات جمع کرتا ہے اور خاص طور پر صارف ناموں، پروفائل تصاویر یا ان گروپوں کے ریکارڈ اسٹور نہیں کرتا ہے جن کا لوگ حصہ ہیں۔
زیادہ پیسہ کمانے کے لیے ان خصوصیات کو کم کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سگنل امریکا میں قائم ایک غیر منافع بخش ادارے سگنل فاؤنڈیشن کی ملکیت ہے جو اشتہاری آمدنی کے بجائے عطیات پر منحصر ہے۔
مزید پڑھیں: واٹس ایپ گروپ سے کیوں نکالا، شہری نے ایڈمن کو قتل کردیا
لیکن انتہائی حساس قومی سلامتی کے معاملات کے بارے میں بہت اعلی ٰ سطحی بات چیت کے لیے بھی سیکیورٹی کی اس سطح کو ناکافی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون کے ذریعے بات چیت کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ناگزیر خطرہ ہے۔
اگر کوئی سگنل کھولنے کے ساتھ آپ کے فون تک رسائی حاصل کرتا ہے یا اگر وہ آپ کا پاس ورڈ سیکھتا ہے – تو وہ آپ کے پیغامات دیکھ سکے گا۔
اور اگر آپ اپنے فون کو عوامی جگہ پر استعمال کر رہے ہیں تو کوئی بھی ایپ کسی کو جھانکنے سے نہیں روک سکتی ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والے ڈیٹا ایکسپرٹ کارو روبسن کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سیکیورٹی حکام کا سگنل جیسے میسجنگ پلیٹ فارم پر بات چیت کرنا بہت غیر معمولی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر آپ ایک بہت ہی محفوظ حکومتی نظام استعمال کرتے ہیں جو بہت اعلی درجے کی خفیہ کاری کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کے ذریعہ چلایا جاتا ہے اور اس کی ملکیت ہے۔
امریکی حکومت نے تاریخی طور پر قومی سلامتی کے معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک حساس کمپارٹمنٹڈ انفارمیشن سہولت (ایس سی آئی ایف – جسے ’اسکیف‘ کہا جاتا ہے) کا استعمال کیا ہے۔ ایس سی آئی ایف ایک انتہائی محفوظ ہے جس میں ذاتی الیکٹرانک آلات کی اجازت نہیں ہے۔
خفیہ کاری اور ریکارڈسگنل کے ساتھ منسلک ایک اور مسئلہ ہے جس نے خدشات کو جنم دیا ہے جو ہے غائب ہونے والے پیغامات۔
سگنل بہت سی دیگر میسجنگ ایپس کی طرح اپنے صارفین کو ایک مقررہ مدت کے بعد پیغامات کو غائب کرنے کے لیے سیٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسکائپ کی بندش کے امکانات: کون سی ایپس متبادل ہوسکتی ہیں؟
دی اٹلانٹک کے جیفری گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ سگنل گروپ میں شامل کیے گئے کچھ پیغامات ایک ہفتے بعد غائب ہو گئے۔
اس سے ریکارڈ رکھنے سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا سگنل ایپ سگنل ایپ کے خطرات سنگل ایپ کتنی محفوظ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا سگنل ایپ سگنل ایپ کے خطرات واٹس ایپ بات چیت کرتا ہے کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
مشکل فیصلے کرنے کا وقت ہے!
دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ ہٹلر ‘ پورے یورپ کو روند رہا تھا۔ برطانیہ‘ اس جنگ میں ہٹلر کے خلاف بھرپور طاقت سے لڑ رہا تھا۔ مگر لگتا ایسا تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں یو کے بھی جرمنی کے ہاتھوں فنا ہو جائے گا۔
اس خوفناک جنگ کے شروع میں آرتھر چیمبر لین برطانیہ کا وزیراعظم تھا۔ اسے کینسر کا موذی مرض لاحق ہو چکا تھا۔ اس میں وہ قائدانہ صلاحتیں نہیں تھیں کہ برطانوی عوام میں خود اعتمادی پیدا کر سکے۔ دس مئی 1940کو خرابی صحت کی بدولت‘ چیمبرلین نے استعفیٰ دے دیا۔ دگرگوں حالات کی بدولت ‘ کوئی بھی سمجھدار سیاست دان‘ وزیراعظم نہیں بننا چاہتا تھا۔ کنزرویٹو پارٹی کے پاس صرف ایک شخص بچا تھا‘ جو وزیراعظم بن سکتا تھا۔ مگر وہ حد درجہ متنازعہ شخص تھا۔
اس کی مہ نوشی‘ ناشتہ سے شروع ہوتی تھی اور پھر یہ سلسلہ پورا دن جاری رہتاتھا۔ اس کے علاوہ‘ وہ اپنے مخالف اور ساتھی سیاست دانوں کے متعلق حد درجہ ذو معنی جملے کستا رہتا تھا۔ مجموعی طور پر وہ لندن کی اشرافیہ کا ایک ناپسندیدہ انسان تھا۔ مگر تمام سیاست دان‘ اس کی ذہانت اور جرأت مندانہ فیصلوں کے قائل تھے۔
چیمبرلین نے جب اپنا استعفیٰ ‘ اس وقت کے بادشاہ کنگ جارج VIکے سامنے پیش کیا تو وہ تو قبول کر لیا گیا۔ مگر جب‘ چیمبر لین نے نئے وزیراعظم کے طور پر ونسٹن چرچل کا نام دیا۔ تو کنگ جارج حیرت زدہ رہ گیا۔ چرچل کی ذاتی لاپرواہیوں کی وجہ سے بادشاہ اسے شدید ناپسند کرتا تھا۔ بہر حال‘ کنگ جارج جمہوری نظام میں کسی بھی طاقت سے محروم تھا۔ لہٰذا اس نے چرچل کو وزیراعظم بنانے پر رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ جس متنازعہ شخص کا شروع میں ذکر کیا وہ چرچل ہی تھا۔1940میں ‘ چرچل وزیراعظم بن گیا۔ ہاؤس آف کامنزکی پہلی تقریر میں اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ تاریخ کے اس موڑ پر ‘ برطانیہ کو آتش اور خون کے علاوہ کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ مگر وہ ہٹلر کو فنا کر کے رکھ دے گا۔ حسب دستور‘ جنگی کابینہ بنائی گئی ۔ لارڈ اٹیلی سے لے کر چیمبرلین تک تمام اہم سیاست دان شامل تھے۔
یہ ایک مخلوط کابینہ تھی۔ مگر اس میں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا ۔ چیمبر لین اور ہیلی فکس جو وزارت خارجہ کو چلا رہا تھا۔ ہٹلر سے امن معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دونوں ‘ اندر سے برطانیہ کی شکست کا اعتراف کر چکے تھے اور برملا کہتے تھے کہ یو کے کو اٹلی کے مرد آہن ‘ میسیولینی کے توسط سے اس جنگ کو ختم کر دینا چاہیے۔
چرچل جنگ بندی پر آمادہ نہیں تھا ‘ وہ ہٹلر کے ذہن کو بخوبی سمجھتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر ہٹلر امن معاہدہ پر آمادہ ہو بھی جاتا ہے ، تب بھی وہ برطانیہ کو فنا کر کے رکھ دے گا۔ بہر حال‘ اب اقتدار ‘ چرچل کے ہاتھ میں تھا۔ دوران جنگ اس کی کارکردگی حد درجہ بہادرانہ تھی۔ لندن پر بمباری کے دوران بغیر چھت کی گاڑی میں بیٹھ کر لوگوں کے سامنے چلا جاتا تھا۔
اسے خطروں سے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا۔ وکٹری کا نشان اس کی پہچان بن چکا تھا۔ لوگوں کو حوصلہ دیتا تھا کہ انھیں ہرگز ہرگز بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔ ہٹلر‘ سیکڑوں کی تعداد میں جنگی ہوائی جہاز‘ لندن پر روز بمباری کے لیے بھیجتا تھا۔ عمارتیں اور انفرااسٹرکچر تباہ کر ڈالتا تھا۔ مگر اسی دوران چرچل اپنا مخصوص ہیٹ پہن کر‘ اور سگار مونہہ میں لیے‘ لندن کی شاہراہوں پر گھومنا شروع کر دیتا تھا۔ اپنے جرنیلوں اور عوام کو حوصلہ دیتا تھا کہ یہ جنگ برطانیہ جیت کر دکھائے گا۔
چیمبرلین اور ہیلی فکس ‘ فکری طور پر حد درجہ کمزور لوگ تھے۔ وار کیبنٹ کی ایک میٹنگ میں انھوں نے چرچل کو کہا کہ وہ پاگل ہے۔ برطانیہ عملی طور پر جنگ ہار چکا ہے ۔ اس وقت امن معاہدہ کی ضرورت ہے تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے۔ یہ لمحہ چرچل کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ جنگی کابینہ میں شامل آرمی چیف نے بھی چرچل کو واشگاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ برطانوی فوج کے لیے ‘ مزید لڑنا ناممکن ہے۔ چرچل اپنی کابینہ کے ہاتھوں مجبور تھا۔
اس نے بادل ناخواستہ ‘ امن کے مسودے کی حتمی تیاری کا حکم دے دیا۔ مگر اس کے بعد ایک حد درجہ عجیب حرکت کی۔ دفتر جاتے ہوئے ‘ گاڑی سے اترا اور نزدیکی انڈر گراؤنڈ ٹرین میں سوار ہو گیا۔ مسافروں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ برطانوی وزیراعظم‘ ایک عام آدمی کی طرح ‘ ٹیوب ٹرین میں سفر کر رہا ہے۔ چرچل نے مسافروں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا وہ لڑنا چاہتے ہیں یا جرمنی کے استبداد کے سامنے ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں۔ عورتوں ‘ بچوں ‘ بوڑھوں اور نوجوانوں نے ببانگ دہل کہا کہ وہ مرنا پسند کریں گے، مگر ہٹلر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
چرچل نے اس ٹرین میں بیس پچیس منٹ سفر کیا ۔ پھر ویسٹ منسٹر آ گیا۔کابینہ کے ساتھی‘ جنگ بندی کا معاہدہ ہاتھ میں لیے‘ انتظار کر رہے تھے۔مگر چرچل کچھ اور سوچ رہا تھا۔ اس نے اسی دن ‘ ہاؤس آف کامنز کا اجلاس بلایا اور اپنی زندگی کی بہترین تقریر کی۔ لب لباب یہ تھا کہ برطانوی قوم اپنی آزادی بچانے کے لیے‘ فضا‘ زمین ‘ پانی‘ میدان‘ یعنی ہر جگہ بھرپور طریقے سے لڑے گی۔ اور کسی بھی وجہ سے ہٹلر کے سامنے سرنگوں نہیں ہو گی۔
چرچل کے اس فیصلے نے دوسری جنگ عظیم کا پانسہ پلٹ ڈالا۔ چرچل کی کمال ذہانت نے امریکی صدر‘ فرینکلن روز ویلٹ کو قائل کر لیا کہ وہ برطانیہ کو جدید اسلحہ فراہم کرے اس نے برطانیہ کو نئے جنگی طیارے اور گولہ بارود دینا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ ‘ ایف ڈی آر کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔ امریکی صدرٹرومین نے بھی جنگ میں بھرپور شمولیت کا اعلان کر دیا۔ تفصیل میں جائے بغیر ‘یہ عرض کروں گاکہ اگر چرچل جیسا دانا شخص برطانیہ کا وزیراعظم نہ ہوتا اور وہ مشکل ترین وقت میں حد درجہ دشوار فیصلے نہ کرتا ۔ تو آج دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ کچھ اور ہوتا۔ مگر چرچل وہ واحد جہاندیدہ سیاست دان تھا‘ جس نے ہاری ہوئی جنگ کو فتح میں بدل ڈالا۔
اس واقعہ کا پاکستان کے موجود ہ حالات سے شاید کوئی تعلق نظر نہ آئے مگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اس میں ایک کمال نکتہ پنہاں ہے۔ وہ ہے کہ صرف وہ قومیں شاد رہتی ہیں جن کے حکمران کٹھن لمحے پر‘ سخت فیصلے کرتے ہیں اور عوام کی فلاح اور حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ آج تیسری جنگ عظیم کے بنیادی آثار مکمل ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔مگر ہمارے ملک کے قائدین کس فکری سطح کے ہیں اور ان کی قوت فیصلہ کیسی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں۔
جن کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ ہمارا ملک اس وقت اندرونی سطح پر جنگ کا شکار ہے۔ ہمارے دو صوبوں میں آگ‘ خون ‘ دہشتگرد ی کا کھیل تسلسل سے کھیلا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے لوگ ہر جگہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ وہ نسلی عصیبت کے تحت‘ لوگوں اور سیکیورٹی سے منسلک افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اور درست بات تو یہ ہے کہ دونوں صوبوں کی انتظامیہ اور وزراء اعلیٰ صرف اور صرف مذمتی بیانات داغنے تک محدود ہیں۔ کسی میں اتنا ویژن نہیں ہے کہ موت کے اس کھیل کو ختم کر سکے۔ حکومتِ وقت سے عوام خوش نہیں ہیں ۔ بدقسمتی سے نفرتوں کی خلیج بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ حل کیا ہے؟ یہ وہ نکتہ ہے جو توجہ طلب بھی ہے اور اس پر دلیل سے بات کرنی ضروری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عسکری اداروں کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔
دہشت گردی کے مسلسل بڑھاوے سے سب لوگ پریشان ہیں۔ ایک حل تو یہ ہے کہ مرکزمیں قومی حکومت قائم کی جائے۔ جس میں بلوچستان اور کے پی کے قوم پرست عمائدین کی بھرپور نمایندگی ہو۔ اس میں ریاستی اداروں کے ریٹائرڈ لوگ بھی شامل کر دیے جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ تمام سیاسی اسیران کو آزاد کر دیا جائے تاکہ عام لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے۔ پاکستان کسی کی بھی ذاتی انا سے بڑا ہے۔ اختر مینگل یا محمود اچکزئی کی سطح کے قوم پرست سیاست دان قومی حکومت کا حصہ بن جائیں تو دہشت گردی کے خلاف عوامی تائید حاصل ہو جائے گی۔
یہ حد درجہ مشکل فیصلے ہیں۔ مگر جس طرح چرچل نے نازک معاملات پر عوامی تائید سے بہت زیادہ سنجیدہ فیصلے کیے۔ بالکل اسی طرح‘ ہمارے ملک کے حکمرانوں کو دور رس فیصلے کرنے چاہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو شاید معاملات درست ہو جائیں۔ورنہ قتل و غارت کا عفریت ہمیں نگل تو رہا ہے۔ اس درندگی کو بہادرانہ فیصلوں اور عوامی تائید سے شکست دی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی دوسرا راستہ ہے تو ہمیں بھی بتادیجئے ؟