Express News:
2025-03-26@05:25:18 GMT

ببل گم چبانا خطرناک بیماری کا سبب بن سکتا ہے!

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ وہ افراد جو باقاعدگی سے ببل گم چباتے ہیں ان کے ہر سال لاکھوں کروڑوں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات جسم میں لینے کے امکان ہوتے ہیں۔

مائیکروپلاسٹکس پلاسٹک کے ایسے باریک ذرات ہوتے ہیں جن کا سائز پانچ ملی میٹر سے کم ہوتا ہے۔ یہ ذرات ہوا، پانی، غذا اور چیونگ گم سمیت تقریباً ہر چیز میں پائے جا سکتے ہیں۔

مطالعے بتاتے ہیں کہ ان خطرناک پلاسٹک کے ذرات کا ہمارے جسم میں جگہ بنانا خلیوں اور ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتا ہے جس کے سبب جینیاتی عمل میں تبدیلی آسکتی ہے اور کینسر کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں کی جانےو الی تازہ ترین تحقیق میں محققین کو معلوم ہوا ہے کہ چیونگ گم لعاب میں مائیکرو پلاسٹکس کو خارج کرتی ہے جو بعد میں جسم میں جا کر نظامِ ہاضمہ میں جگہ بنا سکتے ہیں۔

اوسطاً ایک گم چبانے والے کے جسم میں سالانہ 15 کریڈٹ کارڈز کے برابر پلاسٹک کے ذرات جمع ہوتے ہیں ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پلاسٹک کے

پڑھیں:

گلیشیئرز کا پگھلنا میدانی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے خطرناک

اگر گلیشیئر موجودہ رفتار سے پگھلتے رہے تو رواں صدی کے دوران بہت سے خطوں میں ان کا وجود مٹ جائے گا، جس سے میدانی علاقوں میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:موسمیاتی بحران: 2025 گلیشیئرز کے تحفظ کا سال قرار

گرین لینڈ اور انٹارکٹکا (قطب جنوبی) میں برف کی تہیں اور دنیا بھر کے گلیشیئر دراصل کرہِ ارض پر تازہ پانی کے 70 فیصد ذخائر ہیں۔ ان کی صورتحال سے موسمیاتی تبدیلی کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ مستحکم موسمیاتی حالات میں ان کا حجم تبدیل نہیں ہوتا جبکہ بڑھتی حدت کے نتیجے میں یہ برف پگھلنے لگتی ہے۔

گلیشیئر 9,000 ارب ٹن سے زیادہ برف کھو چکے ہیں

گلیشیئروں کی نگرانی کے عالمی ادارے (ڈبلیو جی ایم ایس) کا اندازہ ہے کہ 1975 کے بعد دنیا بھر کے گلیشیئر 9,000 ارب ٹن سے زیادہ برف کھو چکے ہیں۔ ان میں گرین لینڈ اور انٹارکٹکا کی برفانی تہیں شامل نہیں ہیں۔ یہ مقدار جرمنی کے رقبے سے مساوی 25 میٹر برفانی تہہ کے برابر ہے۔

ہر سال اوسطاً 273 ارب ٹن برف پگھل رہی ہے

ادارے کے ڈائریکٹر مائیکل زیمپ نے بتایا ہے کہ 2000 کے بعد ہر سال اوسطاً 273 ارب ٹن برف پگھل رہی ہے۔ اسے پانی کی اتنی بڑی مقدار کے مساوی قرار دیا جا سکتا ہے جو دنیا بھر کے لوگ 30 سال میں پیتے ہیں۔

وسطی یورپ میں باقی ماندہ برف کا 40 فیصد پگھل چکا ہے اور یہ صورتحال اسی رفتار سے جاری رہی تو رواں صدی میں کوہ الپس پر کوئی گلیشیئر باقی نہیں رہے گا۔

کروڑوں لوگوں کے روزگار کو خطرہ

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی سائنسی افسر سلگانہ مشرا نے انہی خدشات کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت اور انسان کی لائی موسمیاتی تبدیلی کے باعث عالمی حدت میں اضافے سے برف کی تہیں اور گلیشیئر غیرمعمولی رفتار سے پگھل رہے ہیں۔

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی نہ آئی اور عالمی حدت میں اسی شرح سے اضافہ ہوتا رہا تو رواں صدی کے آخر تک یورپ، مشرقی افریقہ، انڈونیشیا اور دیگر جگہوں پر 80 فیصد چھوٹے گلیشیئر ختم ہو جائیں گے۔

دنیا کا تیسرا قطب

ہمالیہ کے مغرب میں واقع اور افغانستان سے پاکستان تک پھیلے 500 میل طویل کوہ ہندوکش کے خطے میں 120 ملین سے زیادہ کسانوں کے مویشیوں اور روزگار کو گلیشیئروں کے پگھلاؤ سے خطرہ لاحق ہے۔ یہاں پائے جانے والے پانی کے غیرمعمولی حد تک وسیع ذخائر کی وجہ سے اسے دنیا کا تیسرا قطب بھی کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ملک کے بیشتر علاقوں میں گلیشیئرز پھٹنے اور تباہ کن سیلاب کی وارننگ جاری

‘ڈبلیو جی ایم ایس’ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال سکینڈے نیویا، ناروے کے جزیرہ نما سالبارڈ اور شمالی ایشیا میں گلیشیئروں کے مجموعی حجم میں ریکارڈ کمی آئی۔ اس ادارے کے ماہرین ارضیات ہر سال گلیشیئروں پر پڑنے اور پگھلنے والی برف کو ماپ کر ان کے حجم میں آنے والی کمی بیشی کا اندازہ لگاتے ہیں۔

چڑھتے سمندر، ڈوبتی زمین

گلیشیئروں کے پگھلاؤ سے معیشت، ماحولیاتی نظام اور لوگوں پر فوری اور وسیع تر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تازہ ترین معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سطح سمندر میں کم از کم 25 تا 30 فیصد تک اضافے کا سبب گلیشیئروں کا پگھلاؤ ہے۔

‘ڈبلیو ایم او’ کے مطابق، برفانی چوٹیاں پگھلنے سے ہر سال سمندر کی سطح میں تقریباً ایک ملی میٹر اضافہ ہو جاتا ہے۔ بظاہر یہ بہت معمولی سی مقدار معلوم ہوتی ہے لیکن اس سے ہر سال 2 تا 3 لاکھ لوگوں کے مساکن زیر آب آ جاتے ہیں۔

سلگانہ مشرا کا کہنا ہے کہ سیلاب سے لوگوں کے روزگار متاثر ہوتے ہیں اور انہیں نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ مسئلہ کسی نہ کسی انداز میں سبھی کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے آگاہی بیدار کرنے، پالیسیوں میں تبدیلی لانے اور اس ضمن میں خاطر خواہ مقدار میں وسائل جمع کرنے کی ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں،؎ اس مقصد کے لیے بہتر تحقیق بھی درکار ہے تاکہ نئی تبدیلیوں کو روکنا اور ان کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنا ممکن ہو سکے۔

ناقابل تلافی نقصان

اگرچہ اس وقت تازہ پانی کے ان وسیع ذخائر کا وجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوا لیکن انہیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے میں شاید دیر ہو چکی ہے۔ ‘ڈبلیو ایم او’ نے بتایا ہے کہ سالہا سال تک جمی رہنے والی برف کی بڑی مقدار تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے اور گزشتہ 6 میں سے 5 سال کے دوران گلیشیئروں کی برف انتہائی تیزرفتار سے پگھلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:‎درجہ حرارت میں اضافہ: آزاد کشمیر میں گلیشیئرز سے بنی جھیلیں پھٹنے کا خطرہ

2022 سے 2024 تک جتنی مقدار میں برف ختم ہوئی وہ کسی بھی دور میں گلیشیئروں کے حجم میں 3 سال کے دوران آنے والی سب سے بڑی کمی ہے۔

سلگانہ مشرا کا کہنا ہے کہ گلیشیئروں کے حجم میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن میں بہت سی شاید کبھی واپس نہ ہو سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

تیسرا قطب سلگانہ مشرا گلیشیئر یورپ

متعلقہ مضامین

  • مغرب کیلئے خطرناک چیلنج
  • روزے میں ہائیکنگ کرنے کے کیا فوائد ہیں؟
  • ڈالر اپنا غلبہ کھو سکتا ہے!
  • سعودی حکومت نے حج 2025 کیلئے میننجائٹس ویکسینیشن لازمی قرار دیدی
  • کون سی غذائیں پرسکون نیند لاسکتی ہیں؟
  • غنودگی کا سامنا کرنیوالے مردو خواتین کو سنگین مرض ڈیمینشیا کا خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ، طبی ماہرین
  • گلیشیئرز کا پگھلنا میدانی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے خطرناک
  • اردو، پنجابی، سندھی اور بلوچی زبانوں کے خالق روسیِ، ماہر تحقیق
  • بلا تحقیق سوشل میڈیا پر غلط خبریں پھیلانا فتنے کا باعث ہے