نئی جرمن پارلیمان کا اولین اجلاس، ژولیا کلؤکنر اسپیکر منتخب
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مارچ 2025ء) عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی نئے ایوانِ زیریں(بنڈس ٹاگ) کاپہلا اجلاس منگل کو منعقد ہوا۔ اس موقع پر ایوان نے کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی ژولیا کلؤکنر کو نیا اسپیکر منتخب کیا۔ بنڈس ٹاگ میں اسپیکر کو پارلیمان کا صدر کہا جاتا ہے۔
دوسری جانب اس وقت چانسلر کی ذمہ داریاں انجام دینے والے اولاف شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اور حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی سی ڈی یو کے درمیان اتحادی حکومت کے قیام کے لیے بات چیت جاری ہے۔
نئے اسپیکر کا انتخابمنگل کے روز بنڈس ٹاگ کے پہلے اجلاس کے موقع پر اسپیکر کے عہدے کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ جس میں ایوان نے سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والی رہنما ژولیا کلؤکنر کو اسپیکر منتخب کیا۔
(جاری ہے)
انہوں نے 382 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ بُنڈس ٹاگ کی صدارت کو وفاقی صدر کے بعد دوسرا اعلیٰ ترین آئینی عہدہ سمجھا جاتا ہے، تاہم دونوں عہدے زیادہ تر علامتی نوعیت کے ہیں اور اصل اختیارات چانسلر اور کابینہ کے پاس ہوتے ہیں۔
انتخاب کے بعد ژولیا کلؤکنر نے اپنے خطاب میں کہا، ''میں یہ عہدہ خوشی سے قبول کرتی ہوں اور آپ کے اعتماد اور ووٹوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘‘
گریگور گِیسی کا خطاب، جنگ، امن اور مشرقی جرمنوں کے زخمبُنڈس ٹاگ کے اس وقت سب سے سینیئر رکن اور بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کے رہنما گریگور گِیسی نے اپنے خطاب میں یوکرین میں امن کے حوالے سے جرمنی کے رویے پر بات کی اور کہا، ''امن کے حصول کے حوالے سے مختلف نظریات ہیں اور ہمیں ان اختلافات کا احترام سیکھنا ہوگا۔
‘‘انہوں نے کہا کہ وہ سیاستدان جو دفاعی اخراجات کی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں، انہیں ''جنگی جنون میں مبتلا‘‘ کہنا درست نہیں۔ اسی طرح، جو لوگ سفارت کاری اور روس کے ساتھ گفتگوکی بات کرتے ہیں یا یورپ کے لیے نئی سکیورٹی ساخت کی بات کرتے ہیں، انہیں ''پوٹن کے خادم‘‘ کہنا بھی ناانصافی ہے۔
گیسی نے مزید کہا، ''اگر ہم عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی رائے کا احترام کرنا ہوگا اور ہر مختلف سوچ رکھنے والے کو بدترین نام نہ دینا سیکھنا ہوگا۔
‘‘ نئی حکومت کی تشکیل اور اولاف شولس کی رخصتیجرمن قانون کے مطابق، جب نئی پارلیمان تشکیل دی جاتی ہے تو سابقہ حکومت کو باقاعدہ طور پر ختم کیا جاتا ہے۔
صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر آج شام ساڑھے پانچ اولاف شولس اور ان کی 14 رکنی کابینہ کو سبک دوشی کے سرٹیفکیٹس پیش کریں گے۔
جب تک نئی مخلوط حکومت باضابطہ طور پر تشکیل نہیں پاتی، شولس نگراں چانسلر کی حیثیت میں کام کرتے رہیں گے۔
ان کا سیاسی کردار اب پسِ منظر میں ہے اور یہ واضح نہیں کہ وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کیا کریں گے۔ اولاف شولس کی چانسلرشپ: ایک مشکل دوراولاف شولس کی 2021 میں غیر متوقع کامیابی کے کچھ ہی ماہ بعد روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، جبکہ دنیا ابھی بھی کورونا وبا کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔
ان کی حکومت نے روسی جارحیت کے خلاف، روسی تیل اور گیس کی درآمدات بند کیں، یوکرین کو مالی امداد اور ہتھیار فراہم کیے جبکہ جرمنی خود مہنگائی کی شدید لہر کا شکار ہوا، جس سے حکومت کے خلاف عوامی ناراضی میں اضافہ ہوا۔
آخرکار، مخلوط حکومت کے اندرونی اختلافات نے شولس کی حکومت کو گرا دیا۔
مخلوط اتحاد کی ایک جماعت، فری ڈیموکریٹک پارٹی (FDP)، جسے لگتا تھا کہ وہ حکومت میں رہ کر اپنا ووٹر بیس کھو رہی ہے، نے ٹیکس کم کرنے، اصلاحات روکنے اور ماحولیاتی قوانین ختم کرنے کی کوشش کی، جسے حکومت کے خلاف بغاوت سمجھا گیا۔
شولس نے آخرکار ایف ڈی پی کے سربراہ کرسچن لنڈنر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے برطرف کر دیا، جس سے قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔
یاد رہے کہ یہ انتخابات اصل میں 2025 کے آخر میں ہونا تھے، مگر اس سے پہلے ہی شولس کی حکومت ختم ہو گئی اور وہ اپنی مدتِ اقتدار پوری نہ کر سکے۔
ادارت: عاطف بلوچ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حکومت کے کے بعد
پڑھیں:
وفاقی حکومت نے بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی کی پیشکش مان لی
نجی ٹی وی سے گفتگو میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری تحریک انصاف سے اجلاس میں شرکت کی یقین دہانی حاصل کرلیں تو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں کوئی حرج نہیں، بلاول بھٹو زرداری خود حکومت میں ہیں اگر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ہماری ہی کامیابی ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی کی پیشکش مان لی۔ حکومت نے پی ٹی آئی سے بات کرنے کی ذمے داری بھی بلاول بھٹو کو دے دی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ بلاول بھٹو پی ٹی آئی سے بات کرلیں، حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری تحریک انصاف سے اجلاس میں شرکت کی یقین دہانی حاصل کرلیں تو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں کوئی حرج نہیں۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو زرداری خود حکومت میں ہیں اگر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ہماری ہی کامیابی ہوگی۔ اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اہم معاملہ ہے، اس پر جتنی گفتگو ہو اچھی بات ہے۔ ایک سوال پر وزیراعظم کے مشیر نے یہ بھی کہا کہ پیکا قانون کے غلط استعمال کی شکایت کسی حد تک درست ہے، ضرورت ہے قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے۔