غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف امریکی شہریوں اور تارکین وطن کے ایک گروپ نے مقدمہ دائر کر دیا ہے اور اس پالیسی کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 5 لاکھ 30 ہزار تارکین وطن کی عارضی قانونی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جن میں کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے باشندے شامل ہیں، اس فیصلے کا اطلاق 24 اپریل سے ہوگا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف امریکی شہریوں اور تارکین وطن کے ایک گروپ نے مقدمہ دائر کر دیا ہے اور اس پالیسی کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ اقدام سابق صدر جو بائیڈن کی حکومت کے دوران دیے گئے دو سالہ “پیرول” پروگرام کو قبل از وقت ختم کر دے گا، جس کے تحت ان ممالک کے شہری امریکی اسپانسرز کے ذریعے فضائی راستے سے ملک میں داخل ہو سکتے تھے۔ تاہم ٹرمپ نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا اعلان کیاہے، جنوری میں جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر میں انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام وفاقی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ جلد ہی ان 2 لاکھ 40 ہزار یوکرینی باشندوں کے مستقبل کے بارے میں بھی فیصلہ کریں گے، جو روس، یوکرین جنگ کے دوران امریکا پہنچے تھے۔ دوسری جانب وینزویلا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکا سے واپس آنے والے تارکین وطن کے لیے ریپٹریئیشن (واپسی) پروازیں دوبارہ شروع کرے گی۔ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق پیرول اسٹیٹس کے خاتمے کے بعد ان افراد کو “ایکسپیڈائٹڈ ریموول” یعنی تیز رفتار ملک بدری کے عمل میں شامل کرنا آسان ہو جائے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: تارکین وطن کرنے کا دیا ہے

پڑھیں:

امریکی یونیورسٹیوں میں آزادی ِ اظہار پر پابندیاں

امریکہ میں ایک فلسطینی طالب علم لیڈر ، محمود خلیل کی گرفتاری نے امریکی سول سوسائٹی میں صدمے کی لہر دوڑا دی کیونکہ اس کے امیگریشن اور آزادی اظہار پر گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں۔

اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے شہری حقوق کی تنظیمیں امریکی عدالتوں میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمے کھڑے کر رہی ہیں۔ان مقدمات کی وجہ سے ٹرمپ حکومت کو اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

محمود خلیل کون ہے؟

محمود خلیل ایک ممتاز فلسطینی کارکن ہیں جنہوں نے حال ہی میں امریکہ کی ممتاز کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز سے گریجویٹ کی تعلیم مکمل کی ہے۔ اپنی تعلیم کے دوران وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف کیمپس میں ہونے والے طلبہ وطالبات کے مظاہروں میں راہنما بن کر سامنے آئے اور انتظامیہ و مظاہرین کے درمیان مذاکرات کار کے طور پر کام کیا جو یونیورسٹی سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کیے جائیں۔  وہ گرین کارڈ ہولڈر ہیں، یعنی ایک مستقل امریکی رہائشی اور اس کی شادی ایک امریکی شہری سے ہوئی ہے جو اگلے ماہ بچے کی توقع کر رہی ہیں۔

انھیں کیا ہوا؟

انھیں مارچ کے دوسرے ہفتے ٹرمپ حکومت نے گرفتار کیا تھا۔ اسرائیل کے حامی کارکن عوامی طور پر ٹرمپ انتظامیہ سے خلیل کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان کی گرفتاری سے ایک دن قبل وہ اس ہراسانی سے اتنا پریشان تھا کہ اس نے یونیورسٹی سے مدد کی درخواست کی۔ "میں سو نہیں پایا، اس ڈر سے کہ پولیس یا کوئی اور خطرناک فرد میرے گھر آجائے۔

مجھے فوری طور پر قانونی مدد کی ضرورت ہے، اور میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ مداخلت کریں اور مجھے پہنچنے والے مزید نقصان کو روکنے کے لیے ضروری تحفظات فراہم کریں،" انہوں نے کولمبیا کے عبوری صدر کو لکھا۔ خلیل کی بیوی بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

خلیل کی بیوی کے مطابق اس رات جب خلیل اوروہ کھانا کھانے کے بعد واپس آ رہے تھے، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئس) کے ایک افسر نے نیویارک سٹی میں ان کی عمارت میں ان کا پیچھا کیا، خود کو پولیس کے ساتھ ہونے کا بتایا، اور خلیل کو ساتھ آنے کا کہا۔ ایجنٹوں نے خلیل کے وکیل کو فون پر بتایا کہ وہ اس کے اسٹوڈنٹ ویزا کو منسوخ کرنے کے لیے محکمہ خارجہ کے حکم پر عمل کر رہے ہیں۔ جب اطلاع دی گئی کہ اس کے پاس گرین کارڈ ہے تو آئس ایجنٹس نے کہا کہ اسے بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔

اس کی بیوی کے مطابق انہوں نے خلیل کو ہتھکڑیاں لگائیں اور اسے بغیر نشان والی گاڑی میں بٹھا دیا۔ اس نے کہا کہ انہوں نے وارنٹ نہیں دکھائے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ، "یہ کسی فلم کے ایک سین کی طرح محسوس ہوا جسے میں نے دیکھنے کے لیے کبھی سائن اپ نہیں کیا۔"خلیل کو لوزیانا میں ایک جیل میں منتقل کرنے سے پہلے پہلے نیو جرسی بھیجا گیا تھا۔

انھیں کیوں گرفتار کیا گیا؟

سوشل میڈیا پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ یہ گرفتاری ان کی مہم کا حصہ ہے جس میں ان بین الاقوامی طلبہ کو ملک بدر کیا جائے گا جنہوں نے فلسطینی حامی مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ انتظامیہ فلسطین کے حامی مظاہرین کو یہود دشمن اور جہادی فلسطینی تنظیم، حماس کا ہمدرد سمجھتی ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی وعدہ کر چکے کہ خلیل کی طرح "آنے والے بہت سے لوگوں کی پہلی گرفتاری" ہوگی۔

کیا گرین کارڈ آپ کو ملک بدر ہونے سے نہیں بچاتا؟

عام طور پر، ہاں۔ گرین کارڈ کو مقدس تصّور کیا جاتا ہے، امریکہ میں مستقل طور پر رہنے اور کام کرنے کا حق حاصل کرنے والے تارکین وطن کے لیے مقدس کارڈ۔ عام طور پر گرین کارڈ ہولڈرز کی حیثیت صرف اس صورت میں چھین لی جا سکتی ہے جب وہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہوں اور خلیل پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا ۔

تاہم ٹرمپ انتظامیہ اسے ملک بدر کرنے کی کوشش کے لیے امریکی امیگریشن قانون کے شاذ و نادر ہی استعمال ہونے والی شق پر انحصار کر رہی ہے۔ خلیل کو مخاطب کرتے ہوئے ایک چارجنگ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے پاس یہ ماننے کی معقول بنیادیں ہیں کہ امریکہ میں آپ کی موجودگی یا سرگرمیوں سے امریکہ کے لیے خارجہ پالیسی کے ممکنہ طور پر سنگین منفی نتائج برآمد ہوں گے۔

نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ محکمہ خارجہ کا استدلال یہ ہے کہ خلیل کی امریکہ میں مسلسل موجودگی سے دنیا بھر میں سامیت دشمنی سے نمٹنے کے لیے امریکی خارجہ پالیسی بری طرح متاثر ہوگی۔

یہ اتنی بڑی بات کیوں ہے؟

خلیل کی گرفتاری نے اس خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ آزادی اظہار کے امریکی اصول پر ہتھوڑا لگا رہی ہے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین کے ایک سینئر سٹاف اٹارنی ، برائن ہاس نے کہا، "یہ عمل سب سے بڑے خطرات میں سے ایک لگتا ہے، اگر پچاس سالوں میں پہلی ترمیم کی آزادیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں بھی ہے۔یہ آزادی اظہار کو پابند کرنے کی براہ راست کوشش ہے کیونکہ اسی نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے۔"

مزید یہ کہ خلیل کو ملک بدر کرنے کے لیے "خارجہ پالیسی کے منفی نتائج" کی دلیل کافی مبہم ہے کہ نظریاتی طور پر یہ نہ صرف غزہ کے احتجاج میں حصہ لینے والے کسی بھی بین الاقوامی طالب علم تک پھیل سکتی ہے بلکہ فلسطینیوں کی جانب سے احتجاج کرنے والے کسی بھی غیر شہری کے بارے میں بھی ہو سکتی ہے۔ قانونی جریدہ جسٹ سیکیورٹی بتاتا ہے: "اگر حکومت کا مقصد پوری دنیا میں فوسلز یا رکازی ایندھن کے استعمال کو فروغ دینا ہے، مثال کے طور پر، تو سیکرٹری آف سٹیٹ موسمیاتی سائنس کے حامیوں کو یا یہاں تک کہ گرین ٹیکنالوجی فرموں کے مالک غیر شہریوں کو بھی اس بنیاد پر ملک بدر کر سکتے ہیں کہ ان کی رہائش فوسلز کو فروغ دینے کی سرکاری پالیسی کے مقصد کو کمزور کرتی ہے۔‘‘

آگے کیا ہوگا؟

خلیل کی نمائندگی امریکہ میں شہری حقوق کے متعدد سرکردہ گروپ کر رہے ہیں جو اس کی حراست اور اسے ملک بدر کرنے کے حکومت کے ارادے دونوں کو عدالتوں میں چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ اسے لوزیانا سے واپس نیو یارک منتقل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں جہاں اسے فی الحال رکھا جا رہا ہے.

امریکی محکمہ خارجہ صرف یکطرفہ طور پر گرین کارڈ کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ خلیل کے پاس قانونی کارروائی کے حقوق ہیں اور اس کے امیگریشن کیس کی سماعت امیگریشن جج کرے گا۔ اس کے وکلا یقینی طور پر ان دلائل میں موجود سقم کی نشاندہی کریں گے جن پر ٹرمپ انتظامیہ انحصار کر رہی ہے۔ اس سے قبل ایک عدالت نے ان دلائل کو غیر آئینی پایا تھا اور دلیل دی تھی کہ وہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت محفوظ کردہ آزادیوں سے متضادم ہیں۔

محمود خلیل نے اپنی گرفتاری سے دو دن پہلے اپنی بیوی سے پوچھا تھا کہ کیا وہ جانتی ہیں اگر امیگریشن ایجنٹ ان کے دروازے پر آتے ہیں تو کیا کرنا ہے؟خلیل کی دو سال سے بیوی چلی آ رہی نور عبد اللہ نے صحافیوں کو بتایا، اس سوال پر وہ الجھن میں پڑ گئیں۔ امریکہ کے قانونی مستقل باشندے کے طور پر یقیناً خلیل کو اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے بہرحال شوہر کو کہا۔’’میں نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ نور عبداللہ ایک امریکی شہری اور آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں۔

نور کا استدلال ہے، صدر ٹرمپ نے بغیر ثبوت کے کہا ہے کہ 30 سالہ خلیل نے غزہ پر حکومت کرنے والے فلسطینی اسلام پسند گروپ حماس کو فروغ دیا ۔ ان کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ خلیل پر کسی جرم کا الزام نہیں لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس کی امریکہ میں موجودگی "قومی اور خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف ہے۔‘‘

'مہربان، حقیقی روح'

نور عبد اللہ اور خلیل کی ملاقات 2016 ء میں لبنان میں ہوئی جب وہ ایک رضاکارانہ پروگرام میں شامل ہوئیں ۔وہ شامی نوجوانوں کو تعلیمی وظائف فراہم کرنے والے ایک غیر منافع بخش گروپ کی نگرانی کر رہی تھیں۔ انہوں نے سات سالہ طویل تعلقات سے پہلے دوست کے طور پر شروعات کی تھی۔ اس کے بعد 2023ء میں ان کی نیویارک میں شادی ہوئی۔’’وہ سب سے ناقابل یقین شخص ہے جو دوسرے لوگوں کا بہت خیال رکھتا ہے۔‘‘ نور کہتی ہے ۔’’وہ سب سے زیادہ مہربان، حقیقی روح ہے۔"

جوڑا اپریل کے آخر میں اپنے پہلے بچے کی توقع کر رہا ہے۔ نور کے نزدیک اسے امید ہے، خلیل تب تک آزاد ہو جائے گا۔’’میرے خیال میں شیشے کے پردے کے پیچھے اپنے پہلے بچے سے ملنا میرے اور اس کے لیے بہت تباہ کن ہوگا۔" نور کہتی ہے۔ خلیل نے اس کے حمل کے دوران کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور صفائی ستھرائی کے تمام کا م خود کرنے پر اصرار کیا تھا۔وہ کہتا ہے "میں جس سے پیار کرتا ہوں، اس کے ساتھ اپنا پہلا بچہ پیدا کرنے کے لئے میں ہمیشہ بہت پُرجوش رہا ہوں۔"

کیمپس سے جیل تک وکالت

خلیل شام میں ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑھا اور پھر تعلیم پانے 2022 ء میں اسٹوڈنٹ ویزے پرامریکہ آیا۔ گزشتہ سال اسے مستقل رہائش کا گرین کارڈ ملا۔ اس نے دسمبر میں کولمبیا کے اسکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز میں اپنی تعلیم مکمل کی لیکن ابھی تک اس نے ماسٹر ڈگری ڈپلومہ حاصل نہیں کیا ۔

وہ آئیوی لیگ یونیورسٹی کی طلبہ احتجاجی تحریک کا ایک اعلیٰ سطحی رکن بن گیا۔وہ اکثر مظاہرین کے برسوں سے جاری مطالبات پر کولمبیا انتظامیہ کے ساتھ اہم مذاکرات کار کے طور پر میڈیا سے بات کرتا تھا جن کا مطالبہ تھا، اسکول ہتھیار بنانے والوں اور اسرائیل کی حکومت کی حمایت کرنے والی دیگر کمپنیوں میں اپنے 14.8 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ختم کردے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حامی مظاہروں میں حماس کی حمایت کی گئی جسے امریکہ ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کرتا ہے۔نیز یہودی طلبہ کو یہود دشمنی کے ذریعے ہراساں کیا گیا ۔ طلبہ احتجاج کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر تنقید کو غلط طور پر یہود دشمنی سے ملایا جا رہا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں یہودی فیکلٹی نے یونیورسٹی کی عمارت کے باہر خلیل کی حمایت میں ایک ریلی اور پریس کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں نشانات تھے کہ "یہودی (خلیل کی )ملک بدری کو نہیں کہتے۔"نور عبد اللہ کا کہنا ہے، کولمبیا کی انتظامیہ کی طرف سے کسی نے بھی مدد کی پیشکش کے لیے ان سے رابطہ نہیں کیا، جس سے انھیں مایوسی ہوئی۔انہوں نے کہا "محمود فلسطینی ہیں اور وہ ہمیشہ سے فلسطینی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔وہ اپنے لوگوں کے لیے کھڑا ہے، وہ اپنے لوگوں کے لیے لڑ رہا ہے۔"

ٹرمپ انتظامیہ نے بار بار غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے خلاف مظاہروں میں شرکت کو حماس کی حمایت کے ساتھ ملایا ہے۔ اس نے مظاہرین پر "دہشت گردوں" کی حمایت کا الزام بھی لگایا ۔مگر امریکہ میں شہری آزادی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گرفتاریوں کا مقصد آزادی اظہار کے حقوق کو دبانا ہے۔خلیل امریکہ کا مستقل رہائشی ہے جس کے پاس گرین کارڈ ہے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کا گرین کارڈ چھیننے کا منصوبہ ہے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم نے ایک بیان میں کہا:

" ریاستہائے متحدہ امریکہ میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے ویزا ملنا ایک اعزاز کی بات ہے ۔ لیکن جب آپ تشدد اور دہشت گردی کی وکالت کرتے ہیں تو اس استحقاق کو منسوخ کر دینا چاہیے اور آپ کو اس ملک میں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

ٹرمپ انتظامیہ نے ناپسندیدہ قرار دئیے گئے لوگوں کو منصوبہ بند ملک بدری کے جواز کے طور پر امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کے ایک چھوٹے سے استعمال شدہ حصے کا حوالہ دیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ سکریٹری آف سٹیٹ کو "مخصوص حالات میں غیر ملکی شہریوں کو خارج کرنے کا حق حاصل ہے جن کے امریکہ میں داخلے سے امریکہ کے لیے خارجہ پالیسی کے ممکنہ طور پر سنگین منفی نتائج ہوں گے"۔

لیکن وکلا نشاندہی کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے امریکہ میں تارکین وطن کے لیے آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کو بارہا برقرار رکھا ہے۔خلیل کے وکیل رمزی قاسم نے امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) کے ساتھ ایک حالیہ بیان میں کہا ’’محمود کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ غیر معمولی، چونکا دینے والا اور اشتعال انگیز سے کم نہیں ۔اس سے ہر اس شخص کو ناراض ہونا چاہیے جو یہ مانتا ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں تقریر کی آزادی ہونی چاہیے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے ’’محمود خلیل کا اغوا امریکی یونیورسٹیوں کے لیے ریڈ الرٹ ہے۔اب امریکہ بھر کے اسکولوں کے پاس ایک انتخاب ہے: ٹرمپ کے خلاف اپنے طلبہ کا دفاع کریں یا اس کے جرائم میں شریک ہو جائیں۔‘‘

خلیل کے اغوا ، ان پر ہونے والے ظلم اور غیر قانونی طور پر نظربندی نے امریکہ بھر کے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا ۔ آئیے واضح کریں: فاشزم ایسا ہی نظر آتا ہے اور یہ ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے۔اپنے افتتاح کے بعد سے، چونکانے اور خوفزدہ کرنے کے لیے بنائے گئے ایک طوفانی طاقت کے قبضے میں ٹرمپ نے درجنوں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں، جن میں سے بہت سے بنیادی آئینی حقوق اور پہلے ہی پسماندہ کمیونٹیز پر حملہ آور ہیں۔

اب ICE، DOJ اور دیگر ایجنسیوں میں اس کے وفادار حملہ آور ان پر عمل درآمد کر رہے ہیں، خاص طور پر طلبہ کی تحریک کو مجرمانہ بنانے پر زور دینے کے ساتھ جو اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ بھر کے کیمپسز میں تیز ہوئی، جب ہزاروں طلبہ اور اساتذہ فلسطین میں اسرائیل کی امریکی حمایت یافتہ نسل کشی اور لبنان، شام اور ایران کے خلاف جنگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

مثال کے طور پر 29 جنوری کے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں ٹرمپ نے حکومتی ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ وہ فلسطینیوں کے حامی طلبہ اور عملے کو ملک بدری اور قانونی کارروائی کے لیے نشانہ بنائیں، جس میں جزوی طور پر یونیورسٹیوں کو سینسر اور چھیننے والوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ اس کے بعد انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہ کولمبیا یونیورسٹی کے لیے وفاقی گرانٹس اور معاہدوں میں 400 ملین ڈالر کی کٹوتی کر دے گی کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ یہود دشمنی کے خلاف تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی اور دوسرے اسکولوں کو بھی اس سے خطرہ ہے۔

یہ اسرائیلی اور امریکی پالیسی پر تنقید کرنے والے طالب علموں کے آزادانہ تقریر کے حقوق پر سیدھے سیدھے حملے ہیں، اور جو یونیورسٹیاں اپنے طلبہ کی بامعنی حمایت کرنے کا انتخاب کرتی ہیں ،ان کے پاس ان زیادتیوں کے خلاف مضبوط دفاع ہوگا۔ لیکن بہت سی امریکی یونیورسٹیاں اب تک ان فاشسٹ رجحانات اور پالیسیوں کے لیے سرخ قالین بچھا رہی ہیں جن کو ٹرمپ اور ان کے اتحادی فخر سے فروغ دیتے ہیں۔وہ ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ان کی اطاعت کر رہی ہیں۔

سیاست دانوں، عطیہ دہندگان، ٹرسٹیز، اور اسرائیل نواز لابی گروپوں کے دباؤ کے تحت زیادہ تر یونیورسٹیوں نے اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف طلبہ کی تحریک کو فلسطینی مخالف نسل پرستی، آزادی اظہار، علمی آزادی، اور مشترکہ حکمرانی کے اصولوں کو ترک کرنے کے ساتھ جواب دیا ہے۔ انہوں نے اپنے طلبہ اور فیکلٹی کو McCarthyist کانگریس کی سماعتوں، نسل پرستانہ اور عسکری قانون نافذ کرنے والے اداروں، اور سخت تادیبی عمل میں سیاسی عظمت کے لیے قربان کر دیا ہے۔ عام طریقہ کار سے ہٹ کر انہوں نے پہلے سے زیادہ پابندی والے اسپیچ کوڈز اور مخالف احتجاجی پالیسیاں منظور کی ہیں۔

ان فیصلوں سے فلسطین کی تحریک ختم نہیں ہوئی۔ نہ ہی انہوں نے ٹرمپ اور ان کے پیروکاروں کو کانگریس میں مقبول کیا ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے طالب علموں کو فاشسٹ حکومت کے جبر کا بنیادی ہدف بنانے میں مدد کی ہے۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ محمود خلیل ٹرمپ کے ریڈار پر تھے۔ کولمبیا نے پہلے ہی اس کے اور دیگر فلسطینی اور اس سے منسلک طلبہ کے لیے ایک مثال پیش کی تھی،اور انھیں اغوا کیے جانے سے بہت پہلے ان کو سخت ترین تادیبی عمل سے مارا تھا۔ دائیں بازو کے اسرائیل کے حامی گروپوں نے بھی عوامی طور پر ٹرمپ حکام پر زور دیا کہ وہ انہیں نشانہ بنائیں جیسا کہ کولمبیا بورڈ کے اراکین نے کیا تھا۔

کولمبیا جانتا تھا کہ خلیل کو خطرہ ہے۔ اپنے اغوا سے صرف ایک دن پہلے، خلیل نے خود یونیورسٹی کو بتایا تھا کہ اسے خدشہ ہے کہ "آئی سی ای یا کوئی خطرناک شخص میرے گھر آ سکتا ہے۔"لیکن یہ صرف کولمبیا نہیں جو اپنے طلبہ کو اچھی طرح دفاع کرنے میںناکام رہا ہے۔ تنظیم، فلسطین لیگل کو اکتوبر 2023 ء سے قانونی مدد کے لیے 3,500 سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جن میں سے بہت سے طلبہ کو واقعات کی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور مضحکہ خیز الزامات پر ان کے مظاہروں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

سینکڑوں مثالوں میں سے ایک، پومونا کالج کے صدر نے فلسطین کے حامی طلبہ کو بغیر ثبوت یا مناسب کارروائی کے مبینہ طور پر عمارت پر قبضہ کرنے کے الزام میں معطل کر دیا۔ جارج میسن پولیس اور منتظمین نے اسپرے سے پینٹ شدہ گرافٹی کی وجہ سے طلبہ کو ایف بی آئی کی زیرقیادت ان کے گھر پر چھاپوں کا نشانہ بنایا۔ شکاگو یونیورسٹی کی پولیس نے ایک طالب علم کو مظاہرے میں گرفتار کرنے کے بعد کیمپس ہاؤسنگ سے بے دخل کر دیا۔ نیویارک یونیورسٹی کے منتظمین نے طلبہ کو پُرامن دھرنے کے دوران لائبریری میں موجود ہونے کی وجہ سے معطل کر دیا۔ یونیورسٹیوں نے اسی طرح فیکلٹی کو تحقیقات، معطلی اور برطرفوں کے ذریعے سزا دی ہے۔ کہانیاں لامتناہی اور دردناک ہیں۔

جیسا کہ ٹرمپ فلسطینیوں کے حامیوں کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کا نفاذ کرتے ہیں ، یونیورسٹیوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کی دھمکیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے وہ انتظامیہ کی گرفت سے آزاد نہیں ہوں گے۔ (کولمبیا نے یہ سبق 400 ملین بار سیکھا ہے۔) بلکہ، وہ تنقیدی تفتیش، بحث اور مزاحمت کے لیے ایک بنیادی میدان کو ان لوگوں کے حوالے کر رہے ہیں جن کا بنیادی ایجنڈا اسے کچلنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی یونیورسٹیاں راستے کو تبدیل کریں گی اور طلبہ اور فیکلٹی کے حقوق اور آزادیوں کے لیے لڑیں گی جو انہیں متحرک، متنوع جگہیں تصّور کرنے اور ایک منصفانہ اور قابل عمل مستقبل کی تعمیر کے لیے بناتے ہیں؟مؤخر الذکر منزل پانے کے لیے یونیورسٹیوں کو کچھ بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔

سب سے پہلے، یونیورسٹیوں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ فلسطینی مخالف نسل پرستی سے ہم سب کو کس طرح خطرہ ہے۔ فلسطینی مخالف نسل پرستی کا ایک مظہر یونیورسٹیوں کا اس بات سے انکار اور لاعلمی ہے جو ایک سال سے زیادہ عرصے سے ان کے طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت اور عالمی برادری کے لیے واضح ہے کہ اسرائیل ایک نازک جنگ بندی کے باوجود غزہ اور پورے فلسطین میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے۔ انتظامیہ کو ایسے لوگوں کی شکایات کی وجہ سے جو یہ نہیں مانتے کہ فلسطینی اپنے وطن میں آزادی کے حقدار ہیں، پولیس کے مظاہروں اور نعروں سے زیادہ فلسطینیوں کے قتل عام سے فکر مند ہونا چاہیے۔

 ہم جمہوریت کی حفاظت صرف اسے نافذ کر کے کر سکتے ہیں، آمرانہ رجحانات کی عکس بندی کر کے نہیں۔ لہٰذا یہ سب کرنے اور ٹرمپ کے وسیع تر رجعتی ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ تجاوز کرنے والی کارپوریٹائزیشن اور مرکزیت کو مسترد کر دیں جس نے یونیورسٹیوں کو سیاسی اور مالی طور پر جبر کا شکار بنا دیا ہے۔ مشترکہ حکمرانی کے جمہوری طریقوں کو اپنانے سے وہ بے مثال حملوں کا مقابلہ کرنے اور اساتذہ اور طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے پوزیشن میں آجائیں گی۔

متعلقہ مضامین

  •  ٹرمپ انتظامیہ نے تارکین وطن کو 24 اپریل تک ملک چھوڑنے کی مہلت دیدی
  • 5 لاکھ تارکین وطن کو 24 اپریل تک امریکا چھوڑنے کا حکم
  • ٹرمپ کا بڑا اعلان: 5 لاکھ تارکین وطن کو 24 اپریل تک امریکا چھوڑنے کا حکم
  • امریکا نے 5 لاکھ تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کر دی
  • سعودی عرب میں مشترکہ کمیٹی کی کارروائیاں، 25 ہزار غیر قانونی تارکین گرفتار
  • امریکی یونیورسٹیوں میں آزادی ِ اظہار پر پابندیاں
  • امریکا، غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا فیصلہ
  • امریکا، غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا فیصلہ
  • ایران کے خلاف ممکنہ امریکی جنگ کا نتیجہ؟