مشہور شخصیت کے بیٹے ہونے کا انڈسٹری میں فائدہ نہیں ہوا : شہزاد شیخ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
معروف اداکار جاوید شیخ کے بیٹے اور اداکار شہزاد شیخ نے انکشاف کیا ہے کہ ان پر مشہور شخصیت کے بیٹے ہونے کا کوئی مثبت اثر نہیں پڑا بلکہ بعض اوقات اس کا منفی اثر زیادہ محسوس ہوا ایک نجی ٹی وی کی رمضان ٹرانسمیشن میں شرکت کے دوران میزبان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے شہزاد شیخ نے اپنی جدوجہد اور انڈسٹری میں آنے کے تجربات پر بات کی شہزاد شیخ نے بتایا کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کسی کا تعلق شوبز انڈسٹری سے ہے تو اس کے بچوں کے لیے کامیابی کا سفر آسان ہو جاتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایک پلیٹ فارم ضرور مل جاتا ہے لیکن اداکاری کرنا سیکھنا اور خود کو منوانا اپنی محنت پر ہی منحصر ہوتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ ان کے والد جاوید شیخ نے انہیں انڈسٹری میں کام کرنے کے کچھ اصول ضرور بتائے تھے اور ہدایت کی تھی کہ اگر ان پر عمل کرو گے تو کامیابی کی راہ ہموار ہوگی اس موقع پر اداکارہ مومل شیخ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا اور اپنے شوبز کیریئر کے آغاز سے متعلق دلچسپ انکشافات کیے انہوں نے کہا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ انہیں اداکاری کرنے کی اجازت ملے گی یا نہیں کیونکہ ان کے گھر کا ماحول قدرے مختلف تھا مومل شیخ نے بتایا کہ انہوں نے شادی کے بعد اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا اور ان کے کیریئر کی شروعات ان کے شوہر کی دوست کے ذریعے ہوئی تھی جبکہ ان کے شوہر نے ہمیشہ ان کی مکمل سپورٹ کی دوران گفتگو شہزاد شیخ نے مزید کہا کہ شوبز انڈسٹری میں ہونے کے باوجود انہیں محنت اور جدوجہد کرنی پڑی کیونکہ آخرکار کامیابی کا دار و مدار ٹیلنٹ اور محنت پر ہوتا ہے نہ کہ کسی کے پس منظر پر انہوں نے کہا کہ اگر کسی میں صلاحیت نہیں ہوگی تو وہ زیادہ دیر تک خود کو انڈسٹری میں برقرار نہیں رکھ سکتا اسی لیے انہیں بھی اپنا لوہا منوانے کے لیے سخت محنت کرنا پڑی.
ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ترکیہ میں مظاہروں کی کوریج کرنیوالے صحافیوں کی گرفتاریاں
اپنے ایک بیان میں اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ انہیں حراسگی اور گرفتاری کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔ چاہے وہ ترکی میں ہوں یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ اسلام ٹائمز۔ تُرک پولیس نے پیر کی صبح ملک بھر میں 1130 سے زائد مظاہرین کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ متعدد معروف صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ جن میں مشہور ترک صحافی "بولنٹ کلیچ" اور "یاسین اکجول" شامل ہیں۔ ان کا تعلق فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے ہے۔ اس سلسلے میں تُرک صحافیوں کی یونین نے پیر کے روز ایک جاری بیان میں تصدیق کی کہ حکومت نے 9 صحافی اس وقت گرفتار کئے جب وہ استنبول کے میئر "اکرم اماماوغلو" کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کی کوریج کر رہے تھے۔ صحافیوں کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے گزشتہ شب اقوام متحدہ کے ترجمان "اسٹیفن دوجاریک" نے کہا کہ صحافیوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ انہیں حراسگی اور گرفتاری کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔ چاہے وہ ترکی میں ہوں یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ دوسری جانب تُرک حکام نے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان صحافیوں کی گرفتاری پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ بدھ سے ترکیہ میں ملک گیر سطح پر گزشتہ 10 سال کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک اُس وقت شروع ہوئی جب حکومت نے استنبول کے میئر "اکرم امام اوغلو" کو گرفتار کر کے انہیں قید کی سزا سنائی۔ جس کے بعد استنبول، انقرہ اور ازمیر سمیت کئی بڑے شہروں میں وسیع پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں۔ اکرم امام اوغلو، صدر "رجب طیب اردوغان" کے سب سے بڑے انتخابی حریف تصور کیے جاتے ہیں۔ تُرک عدلیہ نے انہیں بدعنوانی اور ان گروپوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جنہیں انقرہ "دہشت گرد" قرار دیتا ہے۔ تاہم اکرم امام اوغلو کی جماعت نے ان کی گرفتاری کو سیاسی مقاصد پر مبنی قرار دیا ہے۔ اُدھر ترک حکام کہتے ہیں کہ ان کی گرفتاری میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ عدلیہ نے آزادانہ طور پر یہ کارروائی کی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ گزشتہ شب ہونے والے مظاہرے پرتشدد ہو گئے۔ اس موقع پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے مرچ اسپرے، آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔