امریکی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے دورہ چین کی تازہ لہر غیر معمولی ہے ، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
امریکی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے دورہ چین کی تازہ لہر غیر معمولی ہے ، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 25 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین کا دورہ کرنے والے پہلے سیاستدان کے طور پر ریپبلکن سینیٹر سٹیو ڈیانس کے دورہ چین نے بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔ ڈیانس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران امریکہ چین اقتصادی اور تجارتی مذاکرات میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس وقت ڈیانس کی چین آمد کو بیرونی دنیا چین اور امریکہ کے درمیان رابطے کو برقرار رکھنے کے لیے تازہ ترین اقدام سمجھتی ہے۔ منگل کے روز چینی میڈیا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈیانس اور ان کے وفد سے ملاقات میں چین کی اعلی قیادت کا بیان سیدھا اور واضح تھا:
چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں جتنی مشکلات ہوں گی اتنا ہی چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کی حفاظت و ترقی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہو گی تاکہ فریقین کے درمیان تعلقات میں استحکام لایا جائے۔ تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے اورمحصولات عائد کرنے سے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں ہوتی۔ ہمیں تعاون کو بڑھانے سے حاصل ہونے والے فوائد کے ذریعے تجارتی عدم توازن جیسے مسائل کو حل کرنا چاہیئے۔
یہ نہ صرف امریکہ کو تجارتی جنگ نہ بڑھانے کے لئے ایک انتباہ ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور تجارتی مسائل کا حل بھی فراہم کرتا ہے۔ ڈیانس کے دورہ چین کے ساتھ ساتھ ایلی، کوالکوم، ایپل، بلیک اسٹون، کارگل اور فیڈ ایکس سمیت کئی معروف امریکی کمپنیوں کے سربراہان بھی سالانہ چائنا ڈیویلپمنٹ فورم میں شرکت کے لئے چین پہنچے۔ موجودہ فورم میں غیر ملکی کمپنیوں کی بہتات ہے ، جن میں سے تقریباً ایک تہائی امریکہ سے ہے۔درحقیقت، بہت سی بڑی امریکی کمپنیوں کی جانب سے بڑی رکاوٹوں کے باوجود بھی چین کے دورے سے ظاہر ہوا ہے کہ وہ کھلی عالمی تجارت کے تصور کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
بہت سے تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ “اقتصادی قوم پرستی” کے جھنڈے تلے امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی تجارتی جنگ ، امریکی تجارتی عدم توازن کو ختم نہیں کرسکتی اور نہ ہی مینوفیکچرنگ کی صنعت کی امریکا واپسی کو عملی جامہ پہنائےگی، بلکہ اس کے برعکس اس سے معاشی سست روی اور عوام کی روزی روٹی کےلئے مشکلات کا خطرہ بڑھ جائے گا، جس سے امریکہ بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہو جائے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ سینیٹر ڈیانس نے چین میں جو کچھ دیکھا اور سنا، اسے وہ امریکہ واپس لے جائیں گے اور “امن سے فوائد اور لڑائی سے تباہی” کا پیغام امریکا تک پہنچائیں گے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کے دورہ چین
پڑھیں:
امریکہ نے سراج الدین حقانی پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا: طالبان کا دعویٰ
امریکہ نے سراج الدین حقانی پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا: طالبان کا دعویٰ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 March, 2025 سب نیوز
مریکا نے سراج الدین حقانی سمیت طالبان قیادت کے سینئر رہنماؤں کے سروں کی مقرر کی گئی قیمت واپس لے لی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سراج الدین حقانی نے جنوری 2008 میں کابل کے سرینا ہوٹل پر حملے کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا تھا، جس میں امریکی شہری تھور ڈیوڈ ہسلا سمیت 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اب سراج الدین حقانی کی تصویر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی انعامات برائے انصاف کی ویب سائٹ پر نظر نہیں آتی، تاہم اتوار کے روز بھی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی ویب سائٹ پر اب بھی ان کے لیے ’مطلوب‘ کا پوسٹر موجود ہے۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے سراج الدین حقانی، عبدالعزیز حقانی اور یحییٰ حقانی پر عائد انعامات واپس لے لیے ہیں۔
عبدالمتین قانی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’ان تینوں افراد میں سے 2 سگے بھائی اور ایک ان کے چچا زاد بھائی ہیں۔
حقانی نیٹ ورک 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد طالبان کے مہلک ترین ہتھیاروں میں سے ایک بن گیا۔
اس گروپ نے سڑک کنارے بم، خودکش بم دھماکوں اور دیگر حملوں کا استعمال کیا، جن میں بھارتی اور امریکی سفارتخانوں، افغان صدر اور دیگر اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا، ماضی میں گروپ کا تعلق اغوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں سے بھی رہا۔
وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار ذاکر جلالی نے کہا کہ طالبان کی جانب سے امریکی قیدی جارج گلیزمین کی رہائی اور طالبان قیادت پر انعامات کے خاتمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق جنگ کے دور کے اثرات سے آگے بڑھ رہے ہیں اور دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت کی راہ ہموار کرنے کے لیے تعمیری اقدامات کر رہے ہیں۔
ذاکر جلالی نے کہا کہ افغانستان اور امریکا کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت دونوں حکومتوں کے درمیان عملی اور حقیقت پسندانہ روابط کی اچھی مثال ہے۔
ایک اور عہدیدار شفیع اعظم نے اس پیشرفت کو 2025 میں معمول پر لانے کے آغاز کے طور پر سراہا، اور طالبان کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ناروے میں افغان سفارت خانے کا کنٹرول ان کے پاس ہے۔
اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے چین اپنے ایک سفارت کار کو قبول کرنے والا سب سے نمایاں ملک رہا ہے۔
دیگر ممالک نے طالبان کے حقیقی نمائندوں کو قبول کیا، جیسے قطر، جو امریکا اور طالبان کے درمیان ایک اہم ثالث رہا ہے، امریکی سفیروں نے بھی طالبان سے ملاقات کی ہے۔
طالبان کی حکمرانی، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں پر پابندی نے بڑے پیمانے پر مذمت وصول کی ہے، اور ان کی بین الاقوامی تنہائی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
سراج الدین حقانی اس سے قبل بھی طالبان کے فیصلہ سازی کے عمل، آمریت اور افغان عوام کی علیحدگی کے خلاف بول چکے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر ان کی بحالی طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کی حیثیت کے برعکس ہے، جنہیں خواتین پر ظلم و ستم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔