(گزشتہ سے پیوستہ)
طئی زمانی کی ایک اور مثال قرآن حکیم نے حضرت عزیر علیہ السلام کے قصے میں بیان کی ہے۔ انہوں نے حصولِ حق الیقین کیلئے اللہ تعالیٰ سے طئی زمانی کے بارے میں سوال کیا۔ ان کے سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بطورِ مشاہدہ ان پر ایک سو سال کیلئے موت طاری کر دی اور پھر بعد ازاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے۔ قرآن کہتا ہے :
سو(اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کیلئے) اسے سو برس تک مردہ رکھا۔ پھر اسے زندہ کیا۔ (بعد ازاں)پوچھا : تو یہاں (مرنے کے بعد)کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟(البقرہ، 2:259)
ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوتے رہنے کے بعد جب حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ رب العزت کی طرف سے نئی زِندگی عطا ہوئی، توان سے یہ پوچھا گیا کہ کتنا عرصہ لیٹے رہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی)کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ فرمایا :(نہیں)بلکہ تو سو برس پڑا رہا (ہے)۔(البقرہ، 2:259)
حضرت عزیر علیہ السلام کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا گیا کہ انہیں تو لیٹے ہوئے 100 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کے پاس کھانے کا جو سامان تھا وہ بھی جوں کا توں تر و تازہ رہا اور اس میں کوئی عفونت پیدا نہ ہوئی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کی توجہ اس طرف دِلانے کیلئے اِرشاد ہوا :
پس اب تو اپنے کھانے اور پینے(کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر(باسی)بھی نہیں ہوئیں۔ (البقرہ، 2:259)قدرتِ خداوندی ہے کہ ایک طرف تو حضرت عزیر علیہ السلام کے طعام اور مشروب میں عفونت اور سرانڈ تک پیدا نہ ہوئی اور وہ جوں کے توں تر و تازہ رہے جبکہ دوسری طرف اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ پھراللہ تعالی کے حکم سے آپ کے سامنے اس گدھے کی ہڈیاں اکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔
جدید ترین سائنسی تحقیقات بھی طئی زمانی کی تصدیق کر رہی ہیں اور اِس کوشش میں ہیں کہ کسی لاعلاج مریض پر مصنوعی موت طاری کر کے اسے طویل مدت تک سرد خانے میں محفوظ رکھا جائے اور جب اس کے مرض کا علاج دریافت ہو جائے تو اس کے جسم میں دوبارہ سے زِندگی کی لہر دوڑا کر اس مریض کا علاج کیا جائے اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اسے ایک بار پھر روزمرہ کے معمولات کی ادائیگی کے قابل بنا دیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت تک اس کی اپنی اولاد میں سے کئی نسلیں موت سے ہمکنار ہو چکی ہوں۔ اِنسان کا یہ خواب اب خواب نہیں رہے گا۔
جدید سائنس اپنے اِرتقا کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید میں درج سائنسی حقائق کی توثیق کرتی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے سائنسدان اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود قرآن کو اِلہامی کتاب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ آج نہیں تو کل عقلی بنیادوں پر تشکیل پانے والا ذہنِ جدید تعلیماتِ اِسلامی کی سچائیوں کے اِعتراف میں پیش پیش ہو گا، اِس لئے آنے والی ہر صدی اِسلام کی صدی ہے۔ مغربی دنیا کے پاس اِسلامی تعلیمات کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے کے سِوا کوئی چارہ نہ ہو گا اور مصطفوی اِنقلاب کا سورج مغرب کے افق پر بھی اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو گا۔ زمین پر اترنے والا ہر لمحہ اللہ کی توحید اور حضور ﷺکی رسالت کی گواہی دے رہا ہے۔
قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیر علیہ السلام کی اِس مثال میں طئی زمانی کا کیا منظر تھا کہ 100سال کا عرصہ گزر گیا اور اس کے باوجود ان کے مادی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچا اور وہ موسموں کے تغیر و تبدل سے پیدا ہونے والے اثرات سے محفوظ رہا۔ وقت ان کے کھانے پینے کی اشیا پر بھی اِس طرح سمٹ گیا کہ ان کی تروتازگی میں بھی کوئی فرق نہ آیا، لیکن وہی ایک صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اِس طرح گزری کہ اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ حتی کہ اس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اِحیائے موتی کا نظارہ کرانے کیلئے ان کے گدھے پر تجلی کی تو 100 سالہ مردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، ان پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زِندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو طئی زمانی اور اِحیائے موتی کے منظر دِکھلا دیئے۔
خدا کی ذات اگر بنی اِسرائیل کے ایک پیغمبر کو اپنی قدرتِ خاص کے کرِشمے دِکھا سکتی ہے تو اپنے حبیب نبی آخر الزماں ﷺ کی خاطر اِس سے بڑھ کر معجزے کیوں برپا نہیں کر سکتی ؟ اِس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ شبِ معراج صاحبِ لولاک فخرِموجودات حضوررحمتِ عالمﷺ کو زمان و مکاں(ٹائم وسپیس)کی مسافتیں طے کروانے کے بعد خدائے لم یزل نے اپنے قرب و وصال کی بے پایاں نعمتیں عطا فرما دیں۔ مقامِ قاب قوسین پر اپنی ہمکلامی اور بے حجاب دِیدار کا شرف اِس طرح ارزانی فرمایا۔علامہ اقبال کیا خوب فرماگئے:
وہ دانائے رسل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں، وہی طہ
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لال
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی کے بعد
پڑھیں:
نکاح؛ رضامندی کا یکساں حق
(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)
اسلام دین عدل ہے، جو کسی طرح کی ناانصافی کو گوارا نہیں کرتا۔ معاشرے کی بقا کےلیے اسلامی تعلیمات میں ’نکاح‘ کو جزو لازم قرار دیا گیا ہے۔
فرمان رسولؐ ہے ’’نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔
نکاح ایک نہایت سنجیدہ اور حساس کنٹریکٹ ہے جس پر نہ صرف دو افراد کی زندگیاں جڑی ہیں بلکہ آنے والی نسل بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ لہٰذا اس کےلیے شریعت میں بہت سی شرائط اور حدود و قیود کو لازم قرار دیا گیا ہے ،جن میں سے سب سے بڑی شرط ’’ولی‘‘ اور ’’مرد و عورت‘‘ کی باہمی رضامندی شامل ہے۔
شریعت میں ولی سے مراد وہ قریبی رشتہ ہوتا ہے جو خون، نسب اور ذمے داری ہر لحاظ سے اولاد کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، چنانچہ سب سے پہلے والدین، ان کی عدم موجودگی میں باپ کی طرف کے رشتے دار، دادا، چچا اور دیگر، پھر ماں کی طرف کے رشتے دار جیسا نانا، ماموں اور دیگر۔ ولی کی اجازت نکاح کےلیے سرفہرست ہے ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘ اس حدیث کو متواتر احادیث کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔ نکاح میں والدین کی رضامندی اسلام کے خاندانی نظام کی ایک بنیادی کڑی ہے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح باطل، باطل، باطل (یعنی کالعدم ) ہے۔‘‘ اس حدیث کو سنن ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی اوردیگر 100 کتبِ حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔
لیکن یہ نکاح کے منعقد ہونے کا ایک پہلو ہے۔ اسلام میں جہاں نکاح میں والدین کی رضامندی کو لازم قرار دیا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ نکاح میں لڑکی اور لڑکے کی رضامندی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ ولی کی۔ اور زبردستی کیا جانے والا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کا مکمل احترام کیا گیا ہے۔
لہٰذا شریعت میں جہاں مردوں کو پسند کی عورتوں سے شادی کرنے کا حکم ہے اسی طرح لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اللہ ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے‘‘ (صحیح بخاری)
سماج میں عموماً مرد اپنی پسند کا اظہار بھی کردیتے ہیں اور نکاح میں ان کی مرضی کا ایک حد تک لحاظ بھی رکھا جاتا ہے، لیکن لڑکی کے معاملے میں ہمارا معاشرہ اس کی مرضی کے خلاف نکاح کو اس پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں شریعت کے اس بارے میں کیا احکام ہیں۔
رسول اللهؐ کی بارگاہ میں جب بھی کسی لڑکی کی مرضی کے خلاف کیے گئے نکاح کا کیس آیا تو آپؐ نے اس نکاح کو منسوخ فرما دیا اور لڑکی کو اختیار دے دیا کہ وہ اس نکاح کو رکھ لے یا ردّ کردے۔ یعنی کبھی بھی لڑکی کی مرضی کے خلاف نکاح کو لڑکی پر مسلّط نہیں کیا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ جبری شادی کی حوصلہ شکنی کا درس ملتا ہے۔
رسول اللہؐ نے خود حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح منسوخ قرار دیا جو کہ حضرت خنساء کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف کیا تھا (صحیح بخاری)
اس طرح آپؐ نے لڑکی کی مرضی کے خلاف باپ کا کیا ہوا نکاح منسوخ فرما کر لڑکی کی پسند ضروری قرار دے دی۔ اور یہ حدیث نبویؐ جبری شادی کے عدم جواز پر ٹھوس دلیل ہے۔
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرے چچا زاد بھائی نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن میرے والد نے اس رشتے کو رد کردیا اور میری شادی ایسی جگہ کرادی جو مجھے پسند نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والد کو بلایا اور اس سے اس بارے میں سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کا نکاح کرایا ہے اور اس کےلیے خیر کا ارادہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تیرا نکاح نہیں ہوا، جاؤ اور جس سے چاہو نکاح کرلو۔ (ابن ابی شیبہ)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب لڑکی کی رضامندی کے خلاف نکاح کیا جائے تو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ فرماتی ہیں: ایک لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کردیا ہے تاکہ میرے ذریعہ سے (بھتیجے کی مالی معاونت حاصل کرے اور) اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ اُس کے اختیار میں دے دیا (چاہے نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے علیحدگی کرلے)۔ اس نے عرض کیا: میں اپنے والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا (اولاد کی مرضی کے خلاف زبردستی کی صورت میں) کوئی حق لازم نہیں ہے۔ (احمد بن حنبل)
شریعت میں کنواری، مطلقہ اور بیوہ تمام عورتوں کا نکاح اُن کی مرضی کے خلاف کرنا جائز نہیں, جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کردیے تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں کے نکاح کو رَدّ فرما دیا۔
لہٰذا نکاح میں ’ولی‘ اور ’اولاد‘ دونوں کی رضامندی یکساں لازم ہے۔ جہاں پر ولی کی اجازت کے بنا نکاح منعقد نہیں ہوتا اور اولاد اپنی ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابند ہے، اس طرح ولی بھی اولاد کی رضامندی حاصل کرنے کا پابند ہے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر دونوں کی رضامندی انتہائی ضروری ہے اور کسی کی ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں۔
یہ ہے وہ دین اسلام جو اپنے ماننے والوں کو مکمل عدل اور انصاف مہیا کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اس میں اپنی پسند و ناپسند اور انا کو دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام کا یہ مزاج ہی نہیں ہے کہ کسی طرح سے بھی کسی کی بھی حق تلفی ہو، چاہے وہ والدین ہوں یا اولاد۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔