ٹرمپ انتظامیہ نے یمن میں حوثی باغیوں پر فوجی حملوں کی خبر کیوں لیک کی؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ نے کہا کہ انہیں یمن میں حوثی باغیوں پر بمباری کے بارے میں ایک نجی چیٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ اٹلانٹک میگزین کے ایک صحافی کو یمن میں حوثی مسلح گروپ پر ہونے والے حملوں کے بارے میں ایک نجی سوشل میڈیا چیٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
اٹلانٹک کے ایڈیٹر انچیف جیفری گولڈ برگ نے اپنے تازہ مضمون میں اس حیرت انگیز حقیقت کا ذکر کیا کہ انہیں ایک گروپ چیٹ میں شامل کیا گیا تھا جہاں اعلیٰ سطح حکومتی عہدیدار فوجی کارروائیوں پر بات کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ نے 5 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کردی
گولڈ برگ نے اپنے مضمون کی ابتدائی سطور میں لکھا کہ دنیا نے 15 مارچ کو مشرقی وقت کے مطابق 2 بجے کے قریب جانا کہ امریکا حوثی اہداف پر یمن بھر میں بمباری کر رہا ہے لیکن مجھے بمباری کے دو گھنٹے قبل ہی اس حملے کے بارے میں پتا تھا۔ مجھے یہ بات اس لیے معلوم تھی کہ وزیر دفاع پیٹ ہیگ سیٹھ نے مجھے صبح 11:44 بجے جنگی منصوبہ ٹیکسٹ کیا تھا۔
گولڈ برگ نے وضاحت کی کہ انہیں سگنل ایپ پر ’مائیکل والز‘ نام کے صارف سے ایک پیغام موصول ہوا تھا۔ شروع میں انہیں شک تھا کہ یہ مائیکل والز واقعی ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر ہوسکتے ہیں۔ لیکن جلد ہی وہ 18 حکومتی عہدیداروں کے درمیان گفتگو میں شامل ہوگئے، جن میں سے کچھ کا تعلق وزیر خارجہ مارکو روبیو، نائب صدر جے ڈی وینس اور ہیگ سیٹھ سے تھا۔
گولڈ برگ نے لکھا کہ میں نے کبھی ایسی خلاف ورزی نہیں دیکھی۔ آخرکار انہوں نے وائٹ ہاؤس کو اس سیکیورٹی خلاف ورزی کے بارے میں اطلاع دی اور خود کو اس چیٹ سے نکال لیا۔
مزید پڑھیں: یمنی حوثیوں نے مزید حملے کیے تو ایران کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی
ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے، اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے ایک بیان میں کہا کہ جو رپورٹ کیا گیا ہے وہ حقیقی معلوم ہوتا ہے، اور ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کس طرح ایک غیر ارادی نمبر چیٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایک پریس کانفرنس کے دوران، وزارت خارجہ کی ترجمان ٹیممی بروس نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صحافیوں کو وائٹ ہاؤس سے رجوع کرنے کے لیے کہا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اٹلانٹک میگزین امریکا بمباری ٹرمپ ٹیممی بروس حوثی باغی یمن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ٹیممی بروس انتظامیہ نے کے بارے میں گولڈ برگ نے
پڑھیں:
چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط ہشتم)
برطانیہ کے شاہی پیل کمیشن کی جانب سے فلسطین کی تقسیم اور آبادی کے تبادلے کی اشتعال انگیز سفارشات کے خلاف غصہ ستمبر انیس سو سینتیس میں پہلی عظیم فلسطینی مزاحمت کے دوسرے دور کی شکل میں پھٹ پڑا۔آنے والے پندرہ ماہ نہائیت متشدد ثابت ہوئے۔ بارہ سو سے زائد فلسطینی پولیس اور فوج کے ہاتھوں جاں بحق اور ساڑھے پانچ سو زخمی ہوئے۔
فلسطینیوں نے دو سو چھتیس یہودیوں اور یہودیوں نے چار سو پینتیس فلسطینیوں کی جان لی۔ان پندرہ ماہ میں فائرنگ کے دو ہزار سے زائد واقعات کے علاوہ چار سو بہتر بم دھماکے ، تین سو چونسٹھ مسلح ڈکیتیاں ، تین سو تئیس اغوا اور ڈیڑھ ہزار سرکاری اور کاروباری املاک کی تباہی ریکارڈ پر ہے ۔
ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ تھا۔ہزاروں قیدی اپنے گھروں سے بہت دور قائم نظربندی کیمپوں میں رکھے گئے۔برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے انیس سو چوبیس سے فلسطین میں نافذ اجتماعی ذمے داری کے فوجداری قانون میں ترمیم کر کے اس میں بھاری جرمانہ بھی شامل کر دیا۔معاشی طور پر ادھ موئے کسی بھی دیہات کے آس پاس حکومت دشمن مسلح واردات کی سزا جانوروں اور گھریلو سامان کی ضبطی کے علاوہ اجتماعی جرمانے کی وصولی بھی تھی۔یوں سرکار نے کنگلے کسانوں سے لگ بھگ دس لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کمایا ( آج کے اعتبار سے تقریباً پچاس کروڑ پاؤنڈ )۔جرمانے کی یہ مالیت سالانہ سرکاری ٹیکسوں کی وصولی سے بھی دوگنا تھی۔
( اجتماعی ذمے داری کی سزا انگریزوں نے دیگر نوآبادیات میں بھی مختلف ناموں سے نافذ کر رکھی تھی۔جیسے کینیا کے علاوہ برٹش انڈیا کے سرحدی علاقوں میں فرنٹیرز کرائمز ریگولیشن ( ایف سی آر ) بھی اجتماعی جزا و سزا کا سفاک قانون تھا )۔
گھروں کی مسماری کی روائیت بھی اسرائیل کو برطانیہ سے ورثے میں ملی۔سولہ جون انیس سو چھتیس کو جافا کے قدیم محلوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اچانک حملے کے ردِعمل میں سرکاری دستوں نے جیلاٹن نما آتش گیر مادے سے چند ہی گھنٹے میں لگ بھگ ڈھائی سو گھر اور دکانیں پھونک ڈالے۔یوں مزید چھ ہزار افراد آناً فاناً بے گھر ہو گئے۔
فلسطین کے چیف جسٹس سر مائیکل میکڈونلڈ نے قانون کے نفاذ کے نام پر ایسی حرکات کو غیر ذمے دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ عمل قرار دیا تو برطانوی گورنر اور فوجی کمانڈر کو یہ تنقید پسند نہ آئی اور کچھ ہی دنوں میں جسٹس میکڈونلڈ کو لندن واپس بلا لیا گیا۔
بغاوت کچلنے کے دوران متعدد گاؤں مسمار ہوئے۔ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت کے انتقام میں ضلع ایکر میں ال بسا اور مغربی کنارے پر ہیبرون کے نزدیک ایک گشتی دستے پر حملے کے ردِعمل میں ہلہل گاؤں کے تمام مردوں کو مار دیا گیا اور رپورٹ یہ لکھی گئی کہ یہ سب تلاشی سے بچنے کے لیے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔اس قتلِ عام کے بعد آس پاس کے دیہاتیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایک بڑا سا گڑھا کھود کے اجتماعی قبر بنائیں۔
البسا گاؤں میں تو یہ ہوا کہ پچاس مردوں کو جمع کر کے فوجی بس میں بٹھایا گیا اور پھر انھی میں سے ایک بے بس کو بس چلانے کا حکم دیا گیا اور بس کو بارودی سرنگوں پر سے گزار کے مسافروں سمیت اڑا دیا گیا۔
اگست انیس سو اڑتیس میں فوج نے نابلس کے پانچ ہزار شہریوں کو دو دن بڑے بڑے پنجروں میں رکھ کے تفتیش کی ۔بارودی سرنگیں پھٹنے کے خدشات کے پیشِ نظر فلسطینیوں کو بطور انسانی ڈھال فوجی ٹکڑی یا قافلے کے آگے آگے چلایا جاتا یا فوجی گاڑی کے بونٹ یا ریلوے انجن کے آگے ابھری مسطح جگہ پر لٹا کے باندھ دیا جاتا۔ فوجی گاڑی یا لاری کو گشت کے اختتام پر اکثر اتنے زور سے بریک لگائی جاتی کہ بونٹ پر بندھا شخص گر پڑتا اور وہی جیپ یا لاری اسے کچلتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔
کئی مقامات پر ہلاک شدگان کی لاشیں ورثا کو سونپنے کے بجائے خاموشی سے جلا دی گئیں تاکہ ان کے جنازے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔زخمی حریت پسندوں کو وہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا اور جب کسی زخمی کے ساتھی اسے اٹھانے کے لیے آتے تو ان پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی۔کئی دیہاتوں کو مکینوں سے خالی کروا کے گھروں میں سرکاری فوجی ہفتوں مہینوں قیام کرتے۔ پورے فلسطین میں ستر نئی فوجی قلعہ بندیاں ( چیک پوسٹیں ) تعمیر کی گئیں تاکہ ’’ تخریب کاروں ’’ پر زیادہ بہتر نظر رکھی جا سکے۔
مفرور اور جلاوطن فلسطینی قیادت دمشق میں ڈیفنس کمیٹی کے نام سے فعال تھی۔نیز لبنان اور شام کے راستے فلسطین میں اسلحے اور رضاکاروں کی اسمگلنگ بھی ہوتی تھی۔چنانچہ سدِ باب کے لیے شام اور لبنان سے متصل فلسطینی سرحدی پٹی پر دو ملین پاؤنڈ کے صرفے سے دو رویہ خاردار باڑھ لگا کے سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں فلسطینی قیدیوں کو بطور بیگار استعمال کیا گیا۔منصوبے کا ٹھیکہ ایک مقامی یہودی کمپنی ’’ سولیل بونیہہ ‘‘ کو دیا گیا۔( سولیل بونیہہ آج بھی اسرائیل میں بطور قدیم ترین تعمیراتی کمپنی فعال ہے )۔
برطانیہ نے مشتبہ فلسطینیوں سے تفتیش کے لیے خصوصی مراکز بھی قائم کیے۔ اسیروں کو برقی جھٹکے دیے جاتے ، تلووں پر ضربات لگائی جاتیں ، ناخن اکھاڑے جاتے اور بعضوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کے تختے پر لٹا کر ایک خاص زاویے سے پانی مسلسل پیشانی پرٹپکایا جاتا۔کچھ دیر بعد قیدی کو لگتا جیسے وہ ڈوب رہا ہے۔اس ٹارچر کو آج ہم سب ’’ واٹر بورڈنگ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔اور اسے سن کر گوانتانامو کا عقوبت خانہ اور اسرائیلی اذیتی مراکز یاد آتے ہیں۔
قیدیوں کی تفتیش میں مدد کے لیے جنوبی افریقہ سے ڈوبر مین نسل کے کتے درآمد کیے گئے اور ان کی تربیت کے لیے یروشلم میں خصوصی مرکز قائم کیا گیا۔
برطانوی رائل ایرفورس کو بھی شورش دبانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ سینتیس بار مختلف علاقوں پر بمباری کی گئی۔کچھ دیہاتوں پر ڈھائی سو اور پانچ سو پاؤنڈ وزنی بم گرا کے مٹا دیا گیا۔ طیاروں پر مشین گنیں بھی نصب ہوتی تھیں جن سے بھاگتے لوگوں یا ہجوم کو بھونا جا سکتا تھا۔فضائیہ شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کی نگرانی بھی کرتی ، فضائی فوٹوگرافی ہوتی اور عام شہریوں کو خبردار و خوفزدہ کرنے والے اشتہارات بھی گرائے جاتے۔چودہ بمبار طیارے مغربی کنارے پر رملہ اور اردن کے دارالحکومت عمان کے ایر بیس پر تعینات تھے۔
حیفہ کے ساحلی شہر کا انتظام برٹش نیوی کے سپرد کیا گیا۔بحریہ اسلحہ اور فوجی کمک کی رسد پہنچانے کے علاوہ ساحل کے نزدیک اجنبی کارگو جہازوں کی تلاشی بھی لیتی۔ایک بار جنگی فریگیٹ سے حیفہ کے عرب محلوں پر گولہ باری بھی ہوئی ۔انیس سو تینتیس میں تعمیر ہونے والی حیفہ بندرگاہ عسکری اعتبار سے یوں بھی اہم تھی کہ وہاں برٹش پٹرولیم اور ڈچ کمپنی شیل کی مشترکہ آئل ریفائنری میں فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے عراق سے حیفہ بذریعہ پائپ لائن آنے والا تیل صاف ہوتا۔
اس احوال سے آپ کو کچھ کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ پچھلے ستتر برس سے جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ دراصل نوآبادیاتی دور سے جاری بہیمانویت کی زیادہ بہتر متشدد فوٹوکاپی ہے۔ مگر فلسطینی بھی جانے کس سیارے کی مخلوق ہیں کہ جھکنے کے بجائے مرنا غنیمت جانتے ہیں (داستان جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)