دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگری دشمن ممالک کی فنڈنگ سے ہورہی ہے۔ حکومت کو دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کی باتیں ختم کرکے سخت مؤقف اپنانا چاہیے اور بیرونی ایجنڈے پر فتنہ پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کرنی چاہیے۔

ملکی سیکیورٹی صورتحال، دہشتگردی اور بدامنی پر دفاعی تجزیہ کار محمود شاہ نے وی نیوز سے تفیصلی بات چیت کی، جو خود بھی بلوچستان تعیناتی کے دوران عملی طور پر آپریشنز میں حصہ لے چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ پر اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن کو ساتھ ملائے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ

عمران خان طالبان کو مذاکرات کے نام استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہاکہ دہشتگردی اور ملک میں فتنہ پھیلانے والوں کے خلاف سیاسی قیادت ایک پیچ پر نہیں ہے، جبکہ سیاسی مقاصد کے لیے مذاکرات کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ عمران خان کی جماعت تیسری بار خیبرپختونخوا میں حکومت کررہی ہے، وہ طالبان سے مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں اور قطر کی طرز پر ٹی ٹی پی کے لیے دفتر کھولنے کے خواہشمند ہیں۔ ‘وہ (عمران خان) دہشتگردوں کو مسلح ونگ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ‘

انہوں نے کہاکہ طالبان سے مذاکرات کیسے ممکن ہیں، جو افغانستان میں بیٹھ کر ملک میں دہشتگردی پھیلا رہے ہیں، علما کو نشانہ بنایا جارہا ہے، مساجد محفوظ نہیں اور ریل پر بھی حملہ کردیا جاتا ہے۔

محمود شاہ نے کہاکہ دہشتگردوں کو بھارت سے باقاعدہ فنڈنگ ہورہی ہے، اور کچھ حد تک امریکا بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ دشمن ممالک کی ایما پر ملک میں دہشتگردی اور فتنہ برپا کررہے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ممکن ہیں۔

محمود شاہ نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اور کہاکہ حکومت نے بھی ایک مضبوط، مؤثر پالیسی اور مؤقف نہیں اپنایا، اسی کمزور مؤقف کے باعث دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے۔ اب لگ رہا ہے کہ ریاست دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مؤثر پالیسی اپنا رہی ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں دہشتگردی افغانستان سے ہو رہی ہے

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ جو صوبے میں سیکریٹری داخلہ بھی رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی افغانستان سے ہورہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ٹی ٹی پی دہشتگردوں کی بھرتی افغانستان میں ہورہی ہے۔ وہ لوگ جو افغان طالبان کے لیے لڑتے رہے حکومت بننے کے بعد بے روزگار ہیں اور ٹی ٹی پی میں بھرتی ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں دہشتگردی میں افغان باشندے ملوث ہوتے ہیں اور تفتیش میں یہ ثابت بھی ہوچکا ہے۔

افغان طالبان سخت اندرونی اختلافات کا شکار ہیں

محمود شاہ نے بتایا کہ افغان طالبان کی وہ پرانی حثیت نہیں رہی جو ملا عمر کے دور میں تھی، موجودہ سربراہ کی بات کوئی نہیں مان رہا، اور وہ سخت اندرونی اختلافات کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہاکہ افغانوں کو غرور ہے کہ امریکا، روس اور دیگر ممالک کو انہوں نے شکست دی ہے، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ افغانستان کو صرف پاکستان ہی سمجھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں بلوچستان اور کے پی پر توجہ دینے کی ضرورت، تمام جماعتیں ملک کی خاطر متحد ہو جائیں، بلاول بھٹو

انہوں نے حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کی واپسی کے فیصلے کی حمایت کی اور کہاکہ اس سے امن و امان میں بہتری آئے گی۔

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے مزید کیا کہا؟ جانیے اس ویڈیو رپورٹ میں

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ بھارتی فنڈنگ دفاعی تجزیہ کار دہشتگردی ریاست سیاسی جماعتیں عمران خان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارتی فنڈنگ دفاعی تجزیہ کار دہشتگردی ریاست سیاسی جماعتیں وی نیوز کہ پاکستان میں انہوں نے کہاکہ سے مذاکرات کی میں دہشتگردی محمود شاہ نے ہورہی ہے ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

قراردادِ پاکستان دراصل اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے، ظفراللہ خان

معروف ماہر تعلیم، مصنف، محقق اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے کہا ہے کہ قراردادِ پاکستان یا قراردادِ لاہور برصغیر کے دستوری یا آئینی حل کے طور پر پیش کی گئی اور اُس میں جس زونل فیڈریشن کی بات کی گئی ہے اُس فیڈریشن کے اندر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ اگر دستور پر عمل کیا جائے، اِس ملک کی کثیر القومیتی شناخت کو تسلیم کیا جائے تو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر ہم کثیر القومیتی تصور کو تسلیم نہیں کریں گے تو اُس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ قراردادِپاکستان کے اندر علیحدہ ملک اور صوبائی خودمُختاری دونوں تصورات موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں یوم پاکستان پریڈ اس بار محدود پیمانے پر کیوں ہوگی؟

ظفر اللہ خان نے کہاکہ قراردادِ پاکستان کے اندر ان دونوں تصورات کو سمجھنا ہوگا۔ قراردادِ پاکستان وہ وقت ہے جب 1935 کا آل انڈیا ایکٹ آ چُکا ہے، دو گول میز کانفرسیں ہو چکی ہیں، وزارتوں کا تجربہ ہو چُکا ہے۔ قرارداد پاکستان کی تیاری میں کئی ایسے لوگ شامل تھے جو ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے اور قائدِاعظم خود بھی لکھنؤ معاہدے کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد پر یقین رکھتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ اُن لوگوں نے شمال مغربی اور جنوب مشرقی علاقوں کو مشرقی اور مغربی زون بنانے کی بات کی اور کہاکہ ان کو ملا کر ریاستیں بنائی جائیں۔ اُس وقت اُن لوگوں میں یہ تصور راسخ ہو چُکا تھا کہ ہم نے اکثریت کا استبداد وزارتوں کی شکل میں دیکھ لیا اور اب اگر انگریز ایسے اس ملک کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو اقلیتوں کا کیا ہوگا۔

ظفر اللہ خان نے کہاکہ سابق بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ اپنی کتاب میں لکھ چُکے ہیں کہ نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کابینہ مشن پلان ناکام ہوا جس کی وجہ سے تقسیم ہوئی۔

پاکستان میں بھارت کی نسبت اقلیتوں کی نمائندگی زیادہ ہے

ظفر اللہ خان نے کہاکہ بھارت میں مسلم آبادی 15 فیصد ہے جبکہ وہاں کی لوک سبھا یا ایوان زیریں میں مسلمانوں کی نمائندگی 4.40 فیصد ہے جبکہ حکمران جماعت میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں 2023 کی مردم شماری کے مطابق اقلیتوں کی آبادی 3.27 فیصد ہے۔ جبکہ اقلیتوں کی کچھ نشستیں خالی ہونے کے باوجود اسمبلی میں اُن کی نمائندگی 3.80 فیصد ہے جو کہ اُن کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے، اگر سینیٹ کو بھی شامل کر لیں تو یہ تناسب 4.20 تک چلا جاتا ہے۔

تقسیم برصغیر کے وقت ہمارے خطے میں تمام مذاہب کے لوگ تھے

انہوں نے کہاکہ برصغیر کی تقسیم اِس اعتبار سے قدرتی ہے اگر آپ یہاں کی اکثریتی آبادی کا مذہب دیکھیں، لیکن ایسا نہیں کہ یہاں ایک ہی مذہب کے افراد آباد تھے، فاٹا میں آج بھی سکھ برادری کے افراد موجود ہیں، بلوچستان میں ہندو تھے کچھ تو ہماری پارلیمنٹ کا حصہ بھی رہے، سندھ میں ہندو کمیونٹی کی آبادی تھی اور پنجاب میں بھی تھی، جب پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی بات کی جارہی تھی تو اُس وقت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ایس پی سنگھا مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، اور ہمارا خطہ ایک کثیر المذہبی خطہ تھا۔

قائدِاعظم نے کوشش کی پنجاب تقسیم نہ ہو

ظفر اللہ خان نے بتایا کہ قائدِاعظم محمد علی جناح نے کوشش کی تھی کہ پنجاب تقسیم نہ ہو لیکن اُس وقت ہمارے سکھ بھائیوں کا نقطہ نظر کچھ اور تھا، اب وہ بھی کرتار پور آنا چاہتے ہیں اور ہم بھی بُلانا چاہتے ہیں اور اُنہوں نے بھی دیکھ لیا کہ بھارت میں اُن کے ساتھ کیا ہوا۔

انہوں نے کہاکہ تقسیم صرف دو صوبے ہوئے پنجاب یا بنگال، خیبرپختونخوا تب بھی ایسے ہی موجود تھا جیسے اب موجود ہے۔ بلوچستان کمشنریٹ صوبے کی شکل میں تب بھی موجود تھا اب بھی موجود ہے۔ اسی وجہ سے مشرقی پنجاب میں تڑپ ہے وہ ریفرنڈم کراتے پھر رہے ہیں، اُس وقت اگر تقسیم نہ ہوتا تو شاید فسادات بھی نہ ہوتے۔

پاکستان میں شناخت کے بحران کی بنیاد کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ظفراللہ خان نے کہاکہ پاکستان کا کوئی صوبہ کسی ایک مخصوص نسلی گروہ پر مشتمل نہیں بلکہ مختلف نسلی گروہ اُس کو آباد کرتے ہیں۔ اِس لیے کوئی اگر یہ کہے کہ یہ خطہ ارضی صرف اِس مخصوص نسلی گروہ کا مسکن ہے تو یہ بات درست نہیں۔

ظفراللہ خان نے کہاکہ اس مُلک کے بحران کی بنیاد دستوری ہے، دستور کو چلنے ہی نہیں دیا گیا، قوموں کو جو چیز جوڑتی ہے وہ اُس کا دستور ہوتا ہے۔ قراردادِ پاکستان کا متن بھی دستوری ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ ہمیں دستور بنانے میں 9 سال لگے اور ہم نے اُس میں بڑے سمجھوتے بھی کیے۔ 1973 کا دستور دو بار معطل ہوا لیکن اُس پر اِس ملک کی تمام سیاسی قیادت کے دستخط ہیں، ڈنڈے کے زور پر تمام لوگوں کو ایک نہیں بنایا جا سکتا۔

بھارت کی جمہوریت بھی بیمار ہے اور ہماری بھی

بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اُس کے جمہوریت پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ظفراللہ خان نے کہاکہ بھارت میں زیادہ عرصہ ایک جماعت یعنی کانگریس کی حکومت رہی ہے اور جہاں زیادہ عرصہ ایک ہی جماعت کی حکومت رہے وہاں مذہبی عنصر غالب آ جاتا ہے، لیکن پھر بھی وہاں جمہوری تسلسل رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی خرابیوں کو مزید جمہوریت سے درست کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تو لمبے لمبے جمہوری تعطل آتے رہے، ایسے کئی سال ہیں جب پاکستان میں جمہوریت تھی ہی نہیں۔ بھارت کی جمہوریت بھی بیمار ہے اور ہماری جمہوریت بھی، لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جمہوریت سے رخصت لے لی جائے۔

یہ بھی پڑھیں تمام اقلیتیں آزادہیں، ہمیں رنگ و نسل، ذات پات سے بالا تر ہو کر آگےبڑھناہوگا، وزیراعظم شہبازشریف

تمام متفق ہیں کہ دستور پر عمل ہی واحد حل ہے

ظفر اللہ خان نے کہاکہ پاکستان میں تمام طبقات اور تمام قوتیں اس اتفاقِ رائے پر پہنچ چُکی ہیں کہ ملک کو دستور کے مطابق چلانا ہی مسائل کا حل ہے، دستور کی تعلیم ایک مسئلہ ہے، لوگوں کو دستور کی تعلیم دی جانا ضروری ہے لوگوں کو اُن کے حقوق و فرائض سے آگاہی ہو، آئین کی چھتری کے نیچے چلیں گے تو آگے منزلیں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اقلیتیں برصغیر بھارت پاکستان تقسیم برصغیر جمہوریت قرارداد پاکستان مختلف مذاہب وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • جو لوگ عمران خان سے ملنا چاہتے ہیں انہیں نہیں ملنے دیا جارہا، علیمہ خان
  • دہشتگرد ملک کو توڑنا چاہتے ہیں، ان کے خلاف پوری طاقت سے جنگ لڑیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عمران خان 9 مئی واقعات پر کوئی معافی نہیں مانگیں گے، پی ٹی آئی نے واضح کردیا
  • پاکستان کو مضبوط ومستحکم بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اداکرنے کی ضرورت : سردار عتیق احمد
  • کشمیریوں کو ریاستی دہشتگردی کا سامنا، پاکستان ان کی مدد کیلئے پرعزم: اسحاق ڈار 
  • کچھ عناصر دہشتگردوں کی لاشوں پر سیاست کررہے ہیں، عزائم ناکام بنائیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • خیبرپختونخوا: دہشتگردوں کے خلاف کارروائی، ٹھکانے نذر آتش، کیا کلین اپ آپریشن شروع ہوگیا؟
  • یوم پاکستان پر دہشتگردی کیخلاف مل کر لڑنے کا عہد کیا ہے: گورنر ، وزیراعلیٰ سندھ
  • قراردادِ پاکستان دراصل اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے، ظفراللہ خان