پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ ضرور بنائیں لیکن بنیادی مسائل بھی حل کریں
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
18 مارچ 2025 کو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے کے لیے ہارڈ اسٹیٹ بننا ہو گا۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ اسی اجلاس میں جنرل عاصم منیر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان آرمی کے جواب گورننس کی ناکامی کی وجہ سے جانوں کی قربانی دے رہی ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اسی اجلاس سے پی ٹی آئی کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور سردار اختر مینگل نے بائیکاٹ کیا تھا۔ سیکیورٹی کے اہم ایشو پر سیاسی تقسیم یہ بتانے کو کافی ہے کہ عدم اتفاق کی اس حال کے ساتھ ریاست دہشت گردی کے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی کی اٹھتی لہر، وقتی ہے اور ختم ہو جائےگی
خیبر پختونخوا حکومت ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات خارجہ امور سے متعلق ہے جو صوبائی حکومت کے دائرہ کار سے باہر ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اگر صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتا بھی ہے تو یہ وفاق کی پالیسی سے بالکل الٹ پالیسی ہے۔ ایسی ڈھیلی ڈھالی حالت کے ساتھ دہشتگردی علیحدگی پسندی کے بڑے مسائل سے نہیں نپٹا جا سکتا۔ پاکستان کا عدالتی نظام نہ تو بے گناہوں کو جلدی ریلیف دیتا ہے نہ ہی دہشتگردوں کے خلاف موثر ثابت ہوا ہے۔
ہارڈ اسٹیٹ سے مراد اگر فیصلے لینے اور ان پر عمل کرنے کا فوری اور تیزرفتار سسٹم اختیار کرنا ہے تو ٹھیک ہے ۔ ہر لیول (صوبائی وفاقی ) پر پالیسی یکساں ہونی چاہیے۔ تضادات کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان اگر ہارڈ سٹیٹ کی جانب جاتا ہے تو اسے لازمی آئینی تضادات کا بھی سامنا ہو گا۔ پاکستان کا آئین صوبائی حکومتوں کو وسیع اختیارات دیتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے الٹ پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کی عوام میں ٹکے کی ویلیو نہیں ہے۔
بلوچستان حکومت لیویز اور صوبائی فورسز کے علاوہ صوبائی ملازمین کے دہشتگردوں کے ساتھ رابطے رکھنے والوں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔ صوبائی حکومت سے عوامی لاتعلقی بہت بڑھی ہوئی ہے۔ عوامی مشکلات کے جتنے اقدامات صوبائی حکومت کی اپنی ڈومین میں آتے ہیں۔ وہ ان پر بھی عمل کرتے دکھائی نہیں دیتی۔
مزید پڑھیے: مرحلہ وار تمام افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائےگا
رینڈ کارپوریشن نے سنہ 2013 میں اپنی ریسرچ رپورٹ شائع کی۔ اس میں دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سنہ 2010 تک 71 مسلح تحریکوں کی جانچ کی گئی تھی۔ 24 میں سے 17 ایسی تحریکوں کا جو کامیابی سے ختم کی گئی تھیں ان کے کامن پوائنٹس بتائے گئے تھے۔
صرف فوجی آپریشن سے کوئی تحریک کم ہی ختم ہوتی ہے۔ اس کے لیے ملٹی ڈائمنشنل پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ عسکریت پسندوں کے بدلتے ٹیکٹک کے ساتھ حکمت عملی کو اپ گریڈ بہتر اور تبدیل کیا جاتا ہے۔ سب سے مؤثر کام نئی بھرتی اور فنڈنگ روکنا ہوتا ہے جس سے تحریک سکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا بی ایل اے کے خلاف ایک مضبوط کیس ہے۔ یو این سلامتی کونسل کی کمیٹی 1267 میں پاکستان بی ایل اے کو دہشتگرد قرار دینے کے لیے اپنا کیس پیش کر سکتا ہے ۔ سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے چین اس تنظیم کا ٹارگٹ ہے۔ امریکا اس کو پہلے ہی دہشتگرد قرار دے چکا ہے۔ روس شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر ہے جو علیحدگی پسندی، دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ہے۔ پاکستان کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کام ہو گیا تو بی ایل اے کے لیے اسپیس بہت کم ہو جائے گی۔
بلوچستان کے مسائل اصلی ہیں۔ بلوچستان کو اپنے وسائل پر حق ملنا چاہیے۔ بلوچ اگر اپنے لیے زیادہ یا خصوصی اختیارات بھی مانگتے ہیں، تو بھی ان کا مؤقف سننا اور ماننا چاہیے۔ پر امن احتجاج ، اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت آئین دیتا ہے۔ قانونی حدود کے اندر احتجاج بھی جائز تسلیم کیا جاتا ہے۔ احتجاج میں جب تشدد کا رنگ آتا ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہو، یا احتجاج کرنے والوں کی جانب سے ادھر قانون باقاعدہ پردہ فرما کر نئی نویلی دلہن کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: یوکرین کی صورتحال اور پاکستان کا فائدہ
ہمارا عدالتی نظام نہ تو بے گناہ کی فوری مدد کو آتا ہے۔ نہ ہی یہ عدالتی نظام دہشتگردوں کو سزا کے انجام تک پہنچاتا ہے۔ یہ سافٹ سٹیٹ کی بھی گئی گزری حالت ہے۔ اگر ہم رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کی جانب ہی جائیں تو وہ صاف بتاتی ہے کہ صرف آپریشن کسی مسلح تحریک کو ختم نہیں کرتے۔
گورننس کے مسائل ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سویلین بھی، سیکیورٹی فورسز کے جوان بھی اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔ یہی بری گورننس ہے جو مسائل حل کرنے سے قاصر رہتی آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی بندوق اٹھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ ایسی ہارڈ اسٹیٹ ہمیں واقعی چاہیے جہاں قانون سب پر نافذ ہوتا ہو۔ ریاست کے ہر شہری کی جان ہر علاقے میں محفوظ ہو۔ اسے زندہ رہنے کسی بھی جگہ جانے اور کام روزگار کرنے کی آزادی ہو۔ اس کی مذہبی نسلی یا لسانی شناخت کی وجہ سے اسے ٹارگٹ نہ کیا جائے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
بلوچستان پارلیمانی کمیٹی اجلاس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سیّد عاصم منیر ہارڈ اسٹیٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان پارلیمانی کمیٹی اجلاس چیف ا ف ا رمی اسٹاف جنرل سی د عاصم منیر ہارڈ اسٹیٹ صوبائی حکومت پاکستان کا ہارڈ اسٹیٹ کی وجہ سے کے خلاف کی جانب جاتا ہے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
سائلین نظام انصاف کے بنیادی شراکت دار ہیں ان سے عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، چیف جسٹس
اسلام آباد:چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ سائلین نظام انصاف کے شراکت دار ہیں ان سے عزت و وقار سے پیش آنا چاہیے۔
عوام کو انصاف تک رسائی کو مزید وسعت دینے کی کوششوں کے تحت چیف جسٹس پاکستان کا مختلف شعبہ جات کے سربراہان کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار محمد سلیم خان، ڈائریکٹر جنرل فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی، سیکرٹری قانون و انصاف کمیشن سیدہ تنزیلہ صباحت نے شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں چیف جسٹس نے جاری عدالتی اصلاحات کا جائزہ لیا اور عدالتی طریقہ کار کی ڈیجیٹلائزیشن، آسان رسائی، احتساب اور شفافیت کو مزید بہتر بنانے پر زور دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے نشاندہی کی کہ اصلاحات کا مقصد صرف مقدمات کے بوجھ کو کم کرنا نہیں بلکہ سائلین کو بروقت اور مؤثر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، سائلین انصاف کے نظام کے بنیادی اسٹیک ہولڈرز ہیں، سائلین کے ساتھ عزت و وقار کے ساتھ پیش آنا عدالتی ادارے کی انصاف سے وابستگی اور مثبت عوامی تاثر کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں اب تک حاصل کیے گئے نمایاں اہداف پر روشنی ڈالی گئی، اجلاس میں ای فائلنگ نظام کے کامیاب عمل درآمد کا بھی جائزہ لیا گیا۔
مزید بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ نے عدالتی عمل کو مزید شفاف اور قابل رسائی بنانے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے انضمام اور نئے میکانزم کے قیام پر پیش رفت سے متعلق بریفنگ دی۔
Post Views: 1