Juraat:
2025-03-25@23:46:01 GMT

شبِ معراج: مقامِ قاب قوسین کی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

شبِ معراج: مقامِ قاب قوسین کی حقیقت

سمیع اللہ ملک

تاریخ شاہدعادل ہے کہ جمیع مسلمانانِ عالم اِیمان بالغیب اور قدرتِ اِلہیہ کے ظہور پراِیمان رکھنے کی وجہ سے بغیر دلیل معجزاتِ مصطفی ۖ کے ہمیشہ قائل رہے۔ عہدِ حضور ۖ، عہدِ صحابہ اور بعد میں آنے والے ان مسلمانوں کا اِیمان قابلِ رشک اور قابلِ داد تھا کہ ظہورِ قدرتِ اِلہیہ کے ناقابلِ فہم و اِدراک ہونے کے باوجود ان کا اِیمان کبھی متزلزل نہیں ہوا،ان کے آئین دل پر کبھی بھی شبہات کی گرد اور وسوسوں کی دھول نہیں پڑی،ان کے آئین شعورمیں بھی کبھی کوئی بال نہیں آیا۔ آج سے1400سال قبل عقلی بنیادوں پر دورانِ معراج آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدود سے گزرکرلامکاں تک جاپہنچنااوراسی لمحے میں اس کھربوں نوری سال کی مسافت کوطے کر کے واپس سرزمینِ مکہ پرتشریف لے آناتو کجازمین کی بالائی فضامیں پروازکاتصوربھی ناقابلِ یقین محسوس ہوتاہے اوردوسری طرف آج کا اِنسان اللہ رب العزت کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت عالمِ اسباب کے اندررہتے ہوئے اپنی کی سی اِتباعِ معجز معراج میں کائنات کومسخرکرنے کاعزم لے کرنکلاہے۔ اگرچہ آج کااِنسان صبح وشام فضائے بسیط میں محوِپروازہے لیکن اگرواقع معراج کواپنی تمام ترجزئیات کے ساتھ حیط شعورمیں لایاجائے توخلائی سفرکے مخصوص لوازمات کے بغیرکر فضاسے باہرایتھر(Ather)میں کروڑوں نوری سال کا سفر طے کرنے کاتصور آج بھی ناممکن دِکھائی دیتاہے۔
ہوائی سفرکی مشکلات پربتدریج قابوپایاجا رہاہے اوراب یہ سفرکسی حد تک محفوظ خیال کیاجاتاہے لیکن خلائی سفرمیں اِنسان کوفنی اور تیکنیکی پیچیدگیوں کاہی سامنانہیں کرناپڑتابلکہ نفسیاتی الجھنیں بھی اس کا دامن تھام لیتی ہیں۔خلا کاسفرخطرات سے خالی نہیں،لیکن جذب تسخیر ِکائنات عزم کوعمل کے سانچے میں ڈھالتاہے تواِنسان چاندکی سطح پراپنی عظمت کا پرچم نصب کرنے کے بعداپنے خلائی سفرکے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوجاتاہے۔بیسویں صدی میں یہ کارنامہ سراِنجام دیاجاچکاہے۔
خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے(NASA)کی طرف سے تسخیرِماہتاب کیلئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کے تحت جولائی 1969میں چاندکا پہلاکامیاب سفرکرنے والیاپالو11کے مسافرامریکی خلانوردنیل آرمسٹر انگ(Neil Armstrong)اورایڈون بز (Edwin Buzz) تاریخِ اِنسانی کے وہ پہلے افراد تھے جو چاند کی سطح پر اترے جبکہ ان کا تیسرا ساتھی کولنز (Collins)اس دوران مصنوعی سیارے کی مانند چاند کے گرد محوِ گردش رہا۔ اِس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز (Kennedy Space Center)(KSC)میں موجود سائنسدان انہیں براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چندپتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر،روانگی سے محض دودن بعدخلانوردوں کایہ مہم جوقافلہ واپس زمین پرآگیا۔ اِس مہم کے دوران پل پل کی خبرٹی وی اورریڈیوکے ذریعہ زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی جاتی رہی۔عالم اِنسانیت کی اِن خلائی فتوحات اورتسخیرِماہتاب کاذِکرچودہ صدیاں قبل صحیف کمال یعنی قرآنِ مجید میں پوری وضاحت کے ساتھ کردیا گیاتھا۔ اِرشادِ خداوندی ہے:قسم ہے چاندکی جب وہ پورادکھائی دیتاہے، تم یقیناطبق درطبق ضرورسواری کرتے ہوئے جاگے،توانہیں کیاہوگیاہے کہ قرآنی پیشینگوئی کی صداقت دیکھ کر بھی اِیمان نہیں لاتے۔(الانشقاق، 18-20)
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
قرآنِ حکیم کے علاوہ بائبل سمیت دیگر صحائفِ آسمانی اور مذہبی کتب میں اِس قدر درست سائنسی حوالے بالکل نہیں ملتے۔درج بالا آیتِ مبارکہ میں تسخیرِ ماہتاب کاجوواضح اِشارہ ہے، بیسویں صدی کے اِنسان نے اس اِشارے کی عملی تفسیراپنی آنکھوں سے دیکھی۔آج کے اِنسان نے کامیابی وکامرانی کی ان گنت منازِل طے کرلی ہیں۔علومِ جدیدہ اِنسان کے ذِہن کوکشادگی بخش رہے ہیں۔الجھی ہوئی گرہیں کھل رہی ہیں اورکائنات اپنی ازلی صداقتوں کے ساتھ نکھرکر ا س کے سامنے بے نقاب ہوتی چلی آرہی ہے لیکن اپنی تمام ترمادی ترقی کے باوجودابھی تک اِنسان روشنی کی رفتارسے سفرکرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکا ۔روشنی1,86,000میل(تین لاکھ کلومیٹر)فی سیکنڈکی رفتارسے سفرکرتی ہے اورسائنس کی زبان میں اِس قدررفتارکاحصول کسی بھی مادی شے کیلئے محال ہے ۔
اب جدید سائنس بھی اپنی تحقیقات کوبنیادبناکراِس کائناتی سچائی تک رسائی حاصل کرچکی ہے کہ رفتارمیں کمی وبیشی کے مطابق کسی جسم پروقت کاپھیلنااور سکڑ جانااو جسم کے حجم اور فاصلوں کاسکڑنااورپھیلناقوانینِ فطرت اورمنشائے خداوندی کے عین موافق ہے۔ربِ کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید میںطی ٔ زمانی اورطی ٔمکانی کی بعض صورتوں کاذِکرفرماکربنی نوع اِنسان پریہ واضح کر دیا ہے کہ اِنسان توبیسویں صدی میں اپنی عقل کے بل بوتے پروقت اورجگہ (Time & Space)کے اِضافی (Relative) تصورات کواپنے حیط اِدراک میں لانے میں کامیاب ہوگالیکن ہم ساتویں صدی عیسوی کے اوائل ہی میں اپنی وحی کے ذریعہ اپنے محبوب رسولۖپر اِن کائناتی سچائیوں کومنکشف کررہے ہیں۔
لاکھوں کروڑوں کلومیٹرزکی وسعتوں میں بکھری مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کواِصطلاحاً”طی ٔ مکانی”کہتے ہیں۔ صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کواِصطلاحا”طی ٔ زمانی”کہتے ہیں۔خدائے قدیروخبیر اپنے برگزیدہ انبیائے کرام میں سے کسی کو معجزہ اورکرامت کے طورپرطی زمانی اورکسی کوطی مکانی کے کمالات عطاکرتاہے لیکن حضور رحمتِ عالم ۖکا سفرِ معراج معجزاتِطی ٔ زمانی اورطی ٔ مکانی دونوں کی جامعیت کامظہرہے۔ سفرکاایک رخ اگرطی ٔ زمانی کاآئینہ دارہے تواس کادوسرارخطی ٔ مکانی پرمحیط نظر آتا ہے۔ معراج النبیۖکے دوران میں اِن معجزات کاصدورنصِ قرآن و حدیث سے ثابت ہے،جن کی صحت میں کسی صاحبِ اِیمان کیلئے اِنحراف کی گنجائش نہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ملک سبابلقیس کے تخت کے بارے میں اپنے درباریوں سے سوال کرتے ہیں :
(حضرت سلیمان علیہ السلام )نے فرمایا :اے درباروالو!تم میں سے کون اس(ملکہ)کاتخت میرے پاس لاسکتاہے،قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردارہوکرمیرے پاس آجائیں۔ (النمل، 27:38)
ملک سبا بلقیس کا تخت دربارِ سلیمان علیہ السلام سے تقریبا 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ ملک سبا جو مطیع ہو کر ان کے دربار میں حاضر ہونے کیلئے اپنے پایہ تخت سے روانہ ہو چکی ہے، اس کا تخت اس کے آنے سے قبل ہی سرِدربار پیش کر دیا جائے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے :ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا : میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس (کے لانے)پر طاقتور (اور)امانتدار ہوں۔(النمل، 27:39)
قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار کے ایک جن کو قاعدطی ٔ مکانی کے تحت یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے 900 میل کی مسافت سے تختِ بلقیس لاکر حاضر کر دے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو اِتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی۔ اس موقع پر آپ کا ایک صحابی آصف بن برخیا جس کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا، خود کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ اِس انداز کو قرآنِ کریم نے اِس طرح بیان فرمایا :
(پھر)ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی)کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے۔ پھر جب سلیمان (علیہ السلام)نے اس (تخت)کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو)کہا یہ میرے رب کا فضل ہے۔(النمل، 27:40)
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک برگزیدہ صحابی آنکھ جھپکنے سے پیشتر تختِ بلقیس اپنے نبی کے قدموں میں حاضر کر دیتا ہے۔ یہطی ٔ مکانی کی ایک نا قابلِ تردِید قرآنی مثال تھی کہ فاصلے سمٹ گئے، جسے قرآن حکیم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک امتی سے منسوب کیا ہے۔ اگر اِس کرامت کا صدور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک امتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبی ٔ آخرالزماں ۖکی امت کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی کیا حد ہو گی! مردِ مومن کا اِشارہ پاتے ہی ہزاروں میل کی مسافت اس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اس کے قدم اٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِ پا آ جاتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال رحم اللہ علیہ :
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
قرآن ہر علم، حکمت اور دانائی کا سرچشمہ ہے جو کائنات کے رازہائے سربستہ کو ذہنِ اِنسانی پر منکشف کرتا ہے اور اس میں شعور و آگہی کے ان گنت چراغ روشن کرتا ہے۔طی ٔ زمانی کا ذِکر بھی ربِ ارض و سماوات کی آخری اِلہامی کتاب میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اصحابِ کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعاتطی ٔ زمانی کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ اِن دونوں واقعات میں خرقِ عادت اور محیرالعقول میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات اِسی کر ارضی پر وقوع پذیر ہوئے اورطی ٔی زمانی کے حصول کیلئے سماوِی کائنات (Outer Cosmos)میں روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کیا گیا، مگر پھر بھی ظہورِ قدرتِ اِلہیہ کا نظارہ کیا عجب ہے کہ وقت تھم گیا اور مادی اجسام بھی محفوظ رہے اور صدیوںپر محیط عرصہ بھی بیت گیا۔
قرآنِ حکیمطی ٔ زمانی کی مثال اصحابِ کہف کے حوالے سے یوں بیان کرتا ہے کہ تین سو نو سال تک وہ ایک غار میں لیٹے رہے اور جب سو کر اٹھے تو انہیں یوں گمان ہوا گویا وہ محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے رہے ہیں۔ قرآنِ مجید اِس محیرالعقول واقعہ کو اِن الفاظ میں بیان کرتا ہے :ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا : تم(یہاں)کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم (یہاں)ایک دن یا اس کا (بھی)کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔(الکہف، 18:19)
309 سال گزر جانے کے باوجود انہیں یوں محسوس ہوا کہ ایک دن بھی نہیں گزرنے پایا اور ان کے اجسام پہلے کی طرح تروتازہ اور توانا رہے۔طی ٔ زمانی کی یہ کتنی حیرت انگیز مثال ہے کہ مدتِ مدید تک اصحابِ کہف اور ان کا کتا غار میں مقیم رہے اور مرورِ ایام سے انہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔ قرآنِ مجید کے اِس مقام کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک ان کے جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اثرات سے کلیتا ًمحفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر ان کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ ان کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309قمری سال 300شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کر ارضی کے 300 سالوں کے شمسی موسم ان پر گزر گئے مگر ان کے اجسام تروتازہ رہے۔ تین صدیوں پر محیط زمانہ ان پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا اور وہ بیدار ہونے پر صدیوں پر محیط اس مدت کو محض ایک آدھ دِن خیال کرتے رہے۔ یہ اللہ تعالی کی خاص نشانی اور قدرتِ الہیہ کا ظہور تھا جس سے عادتِ الہیہ کے پیمانے سمٹ گئے۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے :
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو ان سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس کشادہ میدان میں (لیٹے)ہیں۔(الکہف، 18:17)
اللہ کی وہ خاص نشانی جس کا ظہور اس نے اصحابِ کہف کی کرامت کے طور پر کیا، یہ ہے کہ اس نے اپنے مقربین کو ظالم بادشاہ کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اصول تک بدل دیئے اور ذلِک تقدِیر العزِیزِ العلِیمِ کی رو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی 300 مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کیلئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا۔
خدائے رحمن و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پرکیف نیند سلا دیا اور ان پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کردی۔ پھر انہیں ایک ایسے مشاہد حق میں مگن کردیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن بھیطی ٔ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں پچاس ہزار سال کا دِن اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رکعتوں کی ادائیگی جتنے وقت میں گزر
جائے گا، جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اذیت کا حامل ہو گا۔ مشاہد حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ
جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
طی ٔ زمانی کی ایک اور مثال قرآن حکیم نے حضرت عزیر علیہ السلام کے قصے میں بیان کی ہے۔ انہوں نے حصولِ حق الیقین کیلئے اللہ تعالی سیطی ٔی زمانی کے بارے میں سوال کیا۔ ان کے سوال کے جواب میں اللہ تعالی نے بطورِ مشاہدہ ان پر ایک سو سال کیلئے موت طاری کر دی اور پھر بعد ازاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے۔ قرآن کہتا ہے :
سو(اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کیلئے) اسے سو برس تک مردہ رکھا۔ پھر اسے زندہ کیا۔ (بعد ازاں)پوچھا : تو یہاں (مرنے کے بعد)کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟(البقرہ، 2:259)
ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوتے رہنے کے بعد جب حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ رب العزت کی طرف سے نئی زِندگی عطا ہوئی، توان سے یہ پوچھا گیا کہ کتنا عرصہ لیٹے رہے؟ تو انہوں نے جواب دیا :
میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی)کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ فرمایا :(نہیں))بلکہ تو سو برس پڑا رہا (ہے)۔(البقرہ، 2:259)
حضرت عزیر علیہ السلام کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا گیا کہ انہیں تو لیٹے ہوئے 100 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کے پاس کھانے کا جو سامان تھا وہ بھی جوں کا توں تر و تازہ رہا اور اس میں کوئی عفونت پیدا نہ ہوئی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کی توجہ اس طرف دِلانے کیلئے اِرشاد ہوا :پس اب تو اپنے کھانے اور پینے(کی چیزوں)کو دیکھ (وہ) متغیر(باسی)بھی نہیں ہوئیں۔(البقرہ، 2:259)قدرتِ خداوندی ہے کہ ایک طرف تو حضرت عزیر علیہ السلام کے طعام اور مشروب میں عفونت اور سرانڈ تک پیدا نہ ہوئی اور وہ جوں کے توں تر و تازہ رہے جبکہ دوسری طرف اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ پھراللہ تعالی کے حکم سے آپ کے سامنے اس گدھے کی ہڈیاں اکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔
جدید ترین سائنسی تحقیقات بھی طی ٔ زمانی کی تصدیق کر رہی ہیں اور اِس کوشش میں ہیں کہ کسی لاعلاج مریض پر مصنوعی موت طاری کر کے اسے طویل مدت تک سرد خانے میں محفوظ رکھا جائے اور جب اس کے مرض کا علاج دریافت ہو جائے تو اس کے جسم میں دوبارہ سے زِندگی کی لہر دوڑا کر اس مریض کا علاج کیا جائے اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اسے ایک بار پھر روزمرہ کے معمولات کی ادائیگی کے قابل بنا دیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت تک اس کی اپنی اولاد میں سے کئی نسلیں موت سے ہمکنار ہو چکی ہوں۔ اِنسان کا یہ خواب اب خواب نہیں رہے گا۔
جدید سائنس اپنے اِرتقا کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید میں درج سائنسی حقائق کی توثیق کرتی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے سائنسدان اپنے
تمام تر تعصبات کے باوجود قرآن کو اِلہامی کتاب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ آج نہیں تو کل عقلی بنیادوں پر تشکیل پانے والا ذہنِ جدید تعلیماتِ اِسلامی کی سچائیوں کے اِعتراف میں پیش پیش ہو گا، اِس لئے آنے والی ہر صدی اِسلام کی صدی ہے۔ مغربی دنیا کے پاس اِسلامی تعلیمات کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے کے سِوا کوئی چارہ نہ ہو گا اور مصطفوی اِنقلاب کا سورج مغرب کے افق پر بھی اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو گا۔ زمین پر اترنے والا ہر لمحہ اللہ کی توحید اور حضور ۖکی رسالت کی گواہی دے رہا ہے۔
قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیر علیہ السلام کی اِس مثال میں طی ٔ زمانی کا کیا منظر تھا کہ 100سال کا عرصہ گزر گیا اور اس کے باوجود ان کے مادی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچا اور وہ موسموں کے تغیر و تبدل سے پیدا ہونے والے اثرات سے محفوظ رہا۔ وقت ان کے کھانے پینے کی اشیا پر بھی اِس طرح سمٹ گیا کہ ان کی تروتازگی میں بھی کوئی فرق نہ آیا، لیکن وہی ایک صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اِس طرح گزری کہ اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ حتی کہ اس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالی نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اِحیائے موتی کا نظارہ کرانے کیلئے ان کے گدھے پر تجلی کی تو 100 سالہ مردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، ان پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زِندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو طی ٔزمانی اور اِحیائے موتی کے منظر دِکھلا دیئے۔
خدا کی ذات اگر بنی اِسرائیل کے ایک پیغمبر کو اپنی قدرتِ خاص کے کرِشمے دِکھا سکتی ہے تو اپنے حبیب نبی ٔ آخر الزماں ۖ کی خاطر اِس سے بڑھ کر معجزے کیوں برپا نہیں کر سکتی ؟ اِس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ شبِ معراج صاحبِ لولاک فخرِموجودات حضوررحمتِ عالم ۖ کو زمان و مکاں(ٹائم وسپیس)کی مسافتیں طے کروانے کے بعد خدائے لم یزل نے اپنے قرب و وصال کی بے پایاں نعمتیں عطا فرما دیں۔ مقامِ قاب قوسین پر اپنی ہم کلامی اور بے حجاب دِیدار کا شرف اِس طرح ارزانی فرمایا۔علامہ اقبال کیا خوب فرماگئے:
وہ دانائے رسل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں، وہی طہ
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالہ

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: حضرت عزیر علیہ السلام کو حضرت سلیمان علیہ السلام علیہ السلام کو ا علیہ السلام کے اللہ تعالی کے باوجود زمانی اور زمانی کی گیا اور کے ساتھ کرتا ہے ہے لیکن کیلئے ا ہے کہ ا ہے تو ا اور اس سال کا والے ا کے بعد کے ایک کے پاس اور وہ ہے اور سال تک ایک دن

پڑھیں:

کابینہ اراکین کی تنخواہوں کا معاملہ، حقیقت کیا ہے؟

ملکی معاشی حالات کے پیش نظر وفاقی کابینہ اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات پر ہر دور میں سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں، وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے وی نیوز کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ کا کوئی بھی رکن تنخواہ وصول نہیں کررہا۔

جس کے بعد اگلے ہی روز وفاقی کابینہ نے وزرا، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں میں 188 فیصد تک اضافے کی منظوری دی، جس کے بعد وفاقی وزرا کی تنخواہ 2 لاکھ سے بڑھ کر 5 لاکھ 19 ہزار ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تنخواہوں میں غیرمعمولی اضافہ، کابینہ نے سمری کی منظوری دیدی

وفاقی کابینہ کی جانب سے سرکولیشن سمری کے ذریعے تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے، جس کے بعد وفاقی وزیر، وزیر مملکت اور مشیر کی تنخواہ 5 لاکھ 19 ہزار روپے ہوگئی ہے۔

وزرا، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہ میں 188 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، اس سے قبل وفاقی وزیر 2 لاکھ اور وزیر مملکت ایک لاکھ 80 ہزار روپے تنخواہ وصول کرتا تھا۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کی موجودہ تعداد اب بھی قانونی گنجائش سے کم ہے، رانا ثنا اللہ

واضح رہے کہ 2 ماہ قبل اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات وفاقی سیکریٹری کے برابر کرنے کی منظوری فائنانس کمیٹی نے متفقہ طور پر دی تھی۔

وی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کابینہ ایک سال سے کام کر رہی ہے، کابینہ ارکان تنخواہ نہیں لے رہے ہیں اور وفاقی کابینہ کو جو مراعات دی جارہی ہیں وہ بھی ویسی نہیں، جو ماضی میں کابینہ ارکان کو فراہم کی جاتی تھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

تنخواہ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کابینہ مراعات وزرا وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • موکب عزادارانِ امام حسینؑ کی جانب سے یومِ شہادتِ امام علیؑ کے موقع پر نمازِ مغربین اور افطار کا اہتمام
  • قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے
  • سوشل میڈیا پر فیروز خان کا ہمشکل' وائرل؛ جانیے حقیقت کیا ہے؟
  • کابینہ اراکین کی تنخواہوں کا معاملہ، حقیقت کیا ہے؟
  • پاراچنار میں یوم علی علیہ السلام
  • قرآن کریم اور اطاعت علی علیہ السلام 
  • وارث قرآن امام علی (ع) قرآن کی عملی تفسیر ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • کوئٹہ، یوم علی علیہ السلام کا مرکزی جلوس علمدار روڈ سے برآمد
  • مقامِ قاب قوسین کی حقیقت