نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا کر پیچھے مڑ کر دیکھا‘ میرے سامنے ایک دہان پان سا گورا کھڑا تھا‘ اس نے گندی سی ٹی شرٹ اور نیکر پہن رکھی تھی‘ کندھے پر کپڑے کا تھیلا لٹکا رکھا تھا اور پاؤں میں چمڑے کے کھلے جوتے تھے‘ وہ دانت نکال کر میری طرف دیکھ رہا تھا‘ ہمارے دائیں بائیں سالسبرگ کا قدیم شہر بکھرا ہوا تھا‘ میں نے اس سے مسکرا کر پوچھا ’’کیا تمہیں پنجابی آتی ہے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’لٹل لٹل‘ میں چار سال اسلام آباد رہا ہوں‘‘ وہ مجھے دل چسپ کردار لگا‘ میں نے اسے کافی کی آفر کی اور وہ چھلانگ لگا کر بینچ پر میرے سامنے بیٹھ گیا‘ یہ فرینکی کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔
میری اس کے ساتھ مزید دو ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن پھر وہ فوت ہو گیا‘ فرینکی یو ایس ایڈ میں کام کرتا تھا‘ آسٹریا سے تعلق تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان میں تعینات ہوا‘ چار سال اسلام آباد رہا‘ اس کا زیادہ وقت راولپنڈی میں گزرتا تھا چناں چہ وہ پوٹھوہاری زبان سیکھ گیا‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور لاہورمیں اس کے بے شمار دوست تھے‘ وہ انھیں مس کر رہا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’تم کتنی مرتبہ پاکستان گئے؟‘‘ اس نے بتایا وہ 1975 میں پاکستان پوسٹ ہوا تھا اور 1979تک اسلام آباد رہا‘ 1984 میں اس نے ریٹائرمنٹ لے لی‘ 1992میں وہ وزٹ کے لیے پاکستان گیا‘ آخری مرتبہ اسے چھوٹی سی اسائنمنٹ ملی اور وہ 2008 میں دو ہفتوں کے لیے پاکستان گیا‘ یہ اس کی آخری وزٹ تھی۔
میں نے اس سے پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں پوچھا‘ اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا‘ اس کا کہنا تھا 1975 کا پاکستان ایک نارمل ملک تھا‘ بلیو ایریا میں نیف ڈیک ہوتا تھا‘ اس میں انگریزی فلمیں لگتی تھیں‘سیمینار بھی ہوتے تھے اور ڈبیٹس بھی‘ بلیوایریا میں امریکن سینٹر تھا‘ اس کی لائبریری نوجوانوں سے بھری ہوتی تھی‘ میلوڈی میں برٹش کونسل تھی‘ اس کے ہالز اور لائبریری میں درجنوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بحث مباحثہ کر رہے ہوتے تھے‘ راولپنڈی کے تین ہوٹلز میں بارز اور ڈانسنگ فلورز تھے‘ لوگ وہاں شام کے وقت ’’گڈ ٹائم‘‘ گزارتے تھے‘ اسلام آباد میں بھی ڈسکوز اور پبز تھے۔
سفارت خانوں میں روز کلچرل شوز ہوتے تھے‘ ان میں پاکستان کی ایلیٹ شریک ہوتی تھی‘ قائداعظم یونیورسٹی یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں کا مقابلہ کرتی تھی‘ سڑکوں پر پولیس اور فوج دور دور تک نظر نہیں آتی تھی‘ گھروں کی باؤنڈریز چھوٹی تھیں اور کھڑکیاں دروازے نازک‘ لوگ اپنی گاڑیاں گلیوں میں کھڑی کرجاتے تھے‘ لڑکیاں سائیکل اور موٹر سائیکل چلاتی تھیں‘شہر میں درجنوں سوئمنگ پولز تھے اور لوگ ان میں تیراکی کرتے تھے‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان والوو بسیں چلتی تھیں اور لڑکیاں اور لڑکے مکس ہو کرکھڑے ہوتے تھے اور کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی‘ راولپنڈی صدر کا علاقہ گورے سیاحوں سے بھرا ہوتا تھا‘ لوگ وہاں بالٹی گوشت کھاتے تھے‘ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ہائیکنگ ہوتی تھی۔
آبپارہ کے قریب کیمپنگ سائٹ تھی‘ اس میں سارا دن گورے اور گوریاں آدھے ننگے لیٹے رہتے تھے‘ آبپارہ ہی میں یوتھ ہاسٹل تھا‘ اس میں کمرہ نہیں ملتا تھا‘ میلوڈی میں ریستوران تھے‘ ان کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا‘ شہر میں چھ سات لکر شاپس تھیں اور ان پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا‘ شہر میں لال مسجد سب سے بڑی مسجد تھی‘ اس میں بڑے بڑے اسکالرز لیکچر دیتے تھے اورگورے بھی یہ لیکچر سنتے تھے‘ مسجد کے سامنے مسلمان چینی عورتیں چھوٹے چھوٹے اسٹال لگاتی تھیں‘ اسلام آباد کا اتوار بازار بہت پر رونق ہوتا تھا‘ ہم سب وہاں سے خریداری کرتے تھے لیکن پھر اس شہر کو نظر لگ گئی‘ فرینکی کا کہنا تھا‘ میں جب دوسری مرتبہ 1992میں اسلام آباد گیا تو ماحول بدل چکا تھا‘ مجھے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مولوی نظر آئے۔
کلچرل شوز ختم ہو چکے تھے‘ سینماؤں کی رونق بجھ چکی تھی اور سڑکوں پر پولیس اور ہتھیار بند فوجی نظر آتے تھے‘ راولپنڈی میں بھی ہر طرف وحشت‘ ویرانی اور شدت تھی‘پورے شہر میں برقعے اور داڑھیاں تھیں‘ لاؤڈ اسپیکروں کی بھرمار تھی اور وہ دن رات چلتے رہتے تھے‘ میں 2008میں تیسری مرتبہ پاکستان گیا تو پورے ملک میں بم دھماکے ہو رہے تھے‘ لوڈ شیڈنگ بے انتہا تھی ‘ سڑکیں غیر محفوظ ہو چکی تھیں اور شام کے بعد پورے ملک میں ہول ناک سناٹا ہو جاتا تھا‘ ہر طرف فوج ہی فوج دکھائی دیتی تھی یوں محسوس ہوتا تھا پاکستان میں کوئی جنگ چل رہی ہے یا پھر جنگ کی تیاری ہو رہی ہے‘ میرا دل ٹوٹ گیا اور پھر میں دوبارہ کبھی پاکستان نہیں گیا‘ وہ خاموش ہو گیا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں آنسو دکھائی دے رہے تھے۔
فرینکی کی داستان نے مجھے بھی اداس کر دیا‘ پاکستان واقعی کبھی ایک نارمل ملک ہوتا تھا‘ اس میں اسپورٹس بھی تھیں‘ کلچر بھی‘ رواداری بھی اور کھلا پن بھی لیکن پھر یہ سب ختم ہو گیا‘ اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان تھا‘ ہم بلاوجہ اور بلاجواز افغانستان کی جنگ میں کود پڑے‘ امریکا اس زمانے میں سوویت یونین سے براہ راست لڑنا نہیں چاہتا تھا‘ اسے کرائے کا کوئی ایسا ملک چاہیے تھا جو اس کے مقاصد پر قربان ہو جائے‘ ہم ان دنوں فارغ تھے لہٰذا ہم نے اپنی گردن آگے کر دی اور اس کے بعد ہم ایک ابنارمل معاشرہ بنتے چلے گئے‘ آپ یہاں یہ یاد رکھیں جنگیں فوجیں نہیں لڑا کرتیں قومیں لڑتی ہیں چناں چہ ان کا سارا ملبہ بھی قوموں کے سروں پر گرتا ہے‘ امریکا کو 1980 میں پوری پاکستانی قوم چاہیے تھی اور ہم نے یہ قوم پلیٹ میں رکھ کر اس کے حوالے کر دی تھی۔
ہمارے اسکولوں کا سلیبس تک یونیورسٹی آف نبراسکا میں تیار ہوا‘ 1980سے قبل مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کی جگہ معاشرتی علوم اور دینیات کے مضامین ہوتے تھے‘ دینیات میں تمام مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا اور مذہبی رواداری کی بات کی جاتی تھی جب کہ معاشرتی علوم میں معاشرے کو بہتر بنانے اور انسانیت پروان چڑھانے کے سبق ہوتے تھے پھر امریکا آیا اور اس نے معاشرتی علوم کو مطالعہ پاکستان اور دینیات کو اسلامیات میں تبدیل کر کے انھیں لازمی قرار دے دیا‘ مطالعہ پاکستان میں جان بوجھ کر افغانی حملہ آوروں کو مجاہدین بنا کر پیش کیا‘ یہ بھی ثابت کیا گیا افغانستان کبھی فتح نہیں ہوا جب کہ یہ سراسر جھوٹ تھا‘ افغانی حملہ آور مجاہد نہیں تھے‘ یہ صرف ہندوستان کو لوٹنے آتے تھے۔
ان کا ہندوستان میں اسلام پھیلانے کا کنٹری بیوشن دو فیصد سے زیادہ نہیںتھا‘ اس خطے میں اسلام صوفیاء کرام اور مسلمان تاجروں نے پھیلایا ‘ افغانستان کو ناقابل شکست ثابت کرنا بھی سفید جھوٹ تھا‘ سکندر اعظم سے لے کر اشوک اعظم اور چنگیز خان تک ہر چھوٹے بڑے وارئیر نے نہ صرف افغانستان فتح کیا بلکہ اسے مکمل طور پر تاراج بھی کیا‘ قندہار آباد ہی سکندراعظم نے کیا تھا اور یہ اسکندریہ کہلاتا تھا‘ غزنوی ہوں یا غوری یہ ترک تھے اور یہ افغانستان پر قابض ہوئے تھے‘ ازبک طویل عرصے تک افغانوں پر حکومت کرتے رہے‘ یہ مغلوں کے قبضے میں بھی رہا اور1839میں اسے برطانوی فوج نے بھی فتح کر لیا تھا تاہم یہ درست ہے برطانیہ زیادہ عرصہ یہ قبضہ برقرار نہیں رکھ سکا۔
1980میں روس افغانستان آ گیا‘ اس وقت اگر ہم قربانی نہ دیتے اور امریکا آگے نہ آتا تو شاید یہ آج بھی روس کا حصہ ہوتا اور آخر میں امریکا بھی بیس سال افغانستان پر قابض رہا لہٰذا افغان ناقابل تسخیر ہیں یہ مکمل غلط اور جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ 1980 کی دہائی میں پاکستان کو افغان جہاد کی فیکٹری بنانے کے لیے نبراسکا میں گھڑا گیا تھا‘ اسی طرح اسلامیات میں جہاد سے متعلق مواد شامل کیا گیا اور اس کے ذریعے پاکستانی قوم کی ذہن سازی کی گئی‘ امریکا کی مدد سے نیم خواندہ مولوی حضرات کو بھی قوم کا ہیرو بنا دیا گیا‘ ان کے ہاتھ میں رائفل اور زبان پر شعلے بھی اگائے گئے‘ انھیں بڑی بڑی گاڑیوں اور رقبوں کا مالک بھی بنایا گیا جس کے نتیجے میں مولوی نے پاکستان کے ذہن اور ثقافت دونوں پر قبضہ کر لیا ‘اس کا نتیجہ یہ نکلا ہم آج خوف سے وہ سوال بھی نہیں کر سکتے جو رسول اللہ ﷺاور خلفاء راشدین کے زمانے میں عام بدو بھی کر لیا کرتے تھے اور اس سے دین پر حرف آتا تھا اور نہ حرمت رسول مجروح ہوتی تھی۔
پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جس میں جنگ اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے‘ جس میں محمد بن قاسم اور محمود غزنوی سلیبس کا حصہ ہیں لہٰذا اس کا یہ نتیجہ نکلا پوری قوم کا مزاج جنگی ہو چکا ہے‘ لوگ اب سبزی اور نان خریدتے ہوئے بھی دوسروں کو قتل کر دیتے ہیں‘ دوسرا ہم افغانوں سے ذہنی طور پر مغلوب ہو چکے ہیں‘ ہم افغانوں سے لڑتے ہوئے یا انھیں بے دخل کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ 45 سال کا ڈیٹا دیکھ لیں‘ ہم نے آدھی صدی میں افغانستان کی وجہ سے کتنی لاشیں اٹھائیں؟ کیا یہ اس خوف کا نتیجہ نہیں اور تیسرا اور آخری نتیجہ مولوی ملک کا قانون اور آئین بن چکے ہیں‘ یہ جب چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں اسے گستاخ رسول قرار دے کر زندہ جلا دیتے ہیں اور ریاست منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔
آپ حکومت کی کم زوری ملاحظہ کیجیے‘ گورنمنٹ قبضے کی زمین پر بنائی مسجد کے خلاف بھی آپریشن کا حکم جاری نہیں کر سکتی‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور آرمی چیف جنرل باجوہ کو غیرمسلم قرار دے دیا جاتا ہے اور ریاست میں الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جرات نہیں ہوتی‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا ہماری ریاست اس ملک میں مصوری‘ مجسمہ سازی‘ موسیقی اور تھیٹر کے حق میں قانون سازی کر سکتی ہے؟ کیا یہ اسلام آباد میں مندر‘ گوردوارہ اور ٹمپل بنانے کی اجازت دے سکتی ہے اور کیا یہ اسلامیات کو دوبارہ دینیات اور مطالعہ پاکستان کو معاشرتی علوم میں تبدیل کر سکتی ہے؟ جی نہیں! جو ریاست مدارس کی رجسٹریشن پر بلیک میل ہو جاتی ہے وہ اتنے بڑے بڑے فیصلے کیسے کرے گی ؟یہ ہے پاکستان‘ ایک نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معاشرتی علوم میں پاکستان پاکستان میں اسلام آباد تھیں اور ہوتی تھی ہوتا تھا تھے اور تھا اور اور اس
پڑھیں:
احمد نورانی کے بھائیوں کی بازیابی کیس: عدالت کا ایس ایچ او کی رپورٹ پر اظہارِ عدم اطمینان
---فائل فوٹوامریکا میں مقیم صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کی بازیابی کے لیے صحافی کی والدہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے سماعت کی۔
ایس ایچ او کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے جیو فنسنگ کی ہے، سی ڈی آر منگوائی ہے، اس گھر کے قریب سے کیمرے بھی چیک کروائے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ایچ او کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو 26 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
امریکا میں مقیم صحافی احمد نورانی کے 2 بھائیوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔
احمد نورانی کی والدہ نے عدالت میں سوال اٹھایا کہ میرے بچوں کو اگر کچھ ہو جاتا ہے تو کیا ہائی کورٹ ذمے دار ہو گی؟
اس پر ایس ایچ او نے کہا کہ ہم تمام دستیاب ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔
جسٹس انعام امین منہاس نے ایس ایچ او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے فائنڈنگ دینی تھی وہ نہیں دی۔
اسلام آباد پولیس کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کی مقدمہ اندراج کی درخواست نہیں ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ابھی پرچے کی بات نہیں کر رہے، ان کے پاس متبادل فورم موجود ہے۔
درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ 5 دن سے پرچہ درج نہیں کر رہے تو تفتیش کیسے کر رہے ہیں۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ میں آئی جی کو بلا رہا ہوں وہ انویسٹیگیشن کرائیں گے۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ 6 دن ہو گئے ہیں ابھی تک انہوں نے کچھ نہیں کیا۔
پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، پاکستان فیڈرل یونین آف جنرل (پی ایف یو جے) اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ آر سی پی) نے سینئر صحافی احمد نورانی کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کی مذمت کی ہے۔
اس پر جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ اختیار کے مطابق ہی آرڈر کر سکتا ہوں۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ اس کیس میں ڈائریکٹ الزام خفیہ اداروں پر ہے، احمد نورانی کی اسٹوری کے سبب بھائیوں کو اٹھانے کا الزام ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ کوئی ایسا آرڈر پاس نہیں کروں گا جس پر عمل نہ ہو۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کی آج یا کل تک کیس ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 26 مارچ تک ملتوی کر دی۔