80 کی دہائی کے آخر تک اسلام آباد کی ادبی فضا میں نعت نگاری کا رجحان بہت کم کم تھا، صرف ربیع الاول کے مہینے میں ہی نعتیہ مشاعرہ کہیں منعقد ہوتا، ورنہ عام طور سے غزل کے طرحی/ غیر طرحی مشاعرے ہی باقاعدہ ہر ماہ منعقدکیے جاتے۔ پھر 1989 میں ہمارے دوست عرش ہاشمی نے کچھ دیگر احباب سے مل کر ماہانہ بنیادوں پر باقاعدہ شعری نشستوں کے لیے ایک تنظیم قائم کی یعنی محفلِ نعت، اسلام آباد۔ ہر ماہ کسی نعت گو شاعر یا علم دوست شخصیت کی میزبانی میں نعتیہ مشاعرے کا اہتمام ہونے لگا۔
غالباً اپریل 89ء میں جس کام کا آغاز چند نعت گو شعراء نے کیا تھا اسے اللہ عزوجل نے غیر معمولی برکت اورکامیابی سے نوازا۔ بعد میں محفلِ نعت کی تقلید میں ایک مزید نعتیہ ادبی تنظیم بزمِ حمد ونعت کے نام سے قائم کی گئی۔ اس طرح ہر ماہ کم ازکم دو نشستیں حمد و نعت کی منعقد ہونے لگیں۔
ان دونوں فورمزکے روح رواں یعنی عرش ہاشمی اور حافظ نور احمد قادری نعت نگار ہونے کے ساتھ دیرینہ دوست بھی تھے، لہٰذا ان دونوں تنظیموں میں بھی مسابقت یا مقابلے کے بجائے باہمی رفاقت سے ایک دوسرے کی کامیابی میں تعاون دیکھنے میں آیا۔ بعض موقعوں پر ان دونوں تنظیموں کے مشترکہ مشاعرے بھی منعقد ہوئے۔
یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ ماہانہ نشستوں کے انعقاد میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں تاریخ کا ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ باہم ایک دوسرے کی نشستوں میں شرکت اور اپنے پروگرام میں دوسری بزم کی تقریب کا اعلان بہت اچھا تاثر دیتا ہے۔ باہمی تعاون میں ظاہر ہے بڑی برکتیں ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام آباد میں اب ایک مستحکم نعتیہ ادبی فضا تشکیل پا چکی ہے۔
یہاں یہ امر خاص طور سے تحسین کے لائق ہے کہ گزشتہ 36 برسوں کے دوران محفلِ نعت پاکستان کی ماہانہ ادبی محافل کے انعقاد میں کوئی التوا یا ناغہ نہیں ہے۔ کورونا جب زوروں پر تھا اس وقت چند ماہ یہ محفل آن لائن منعقد کی گئی تاہم اس وقت بھی ماہانہ نعتیہ نشست میں تعطل نہیں ہونے دیا۔ الحمد للہ محفلِ نعت کے 36 ویں سال کا تکمیلی اور مسلسل 432 واں ماہانہ نعتیہ مشاعرہ ماہِ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں نعتیہ مشاعرہ تنظیم کے سیکریٹری محترم عرش ہاشمی کے دولت خانہ پر انعقاد پذیر ہوا۔
صدرِ تنظیم سید ابرار حسین مقررہ وقت سے پہلے ہی تشریف فرما ہوئے۔ عصر کا وقت داخل ہوتے ہی نمازِ عصر باجماعت سید صاحب کی اقتدا میں پڑھی گئی اور فوراً کارروائی کا آغازکر دیا گیا۔ نظامت کے فرائض نصرت یاب نصرت نے انجام دیے۔
صدارتی نشست پر صدرِ محفل نعت پاکستان متمکن ہوئے۔ آغاز میں میزبانِ مشاعرہ کے بیٹے مجاہد الاسلام ہاشمی نے آیاتِ قرآنی کی خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کی سعادت حاصل کی۔ بارگاہِ رسالت مآب میں نعت نذرانہ پیش کرنے والوں میں سید ابرار حسین، صدرِ مشاعرہ، شرف الدین شامی، پروفیسر عرفان جمیل، میاں تنویر قادری، عبد القادر تاباں، ڈاکٹر عزیز فیصل، عرش ہاشمی (میزبانِ محفل)، پروفیسر رفیع الدین احمد صدیقی، حافظ نور احمد قادری، شہاب ظفر، عبد الرشید چوہدری، محمد نور آسی اور ناظمِ مشاعرہ نصرت یاب نصرت شامل تھے۔
محفلِ نعت پاکستان کے سابق جوائنٹ سیکریٹری سید آصف اکبر مرحوم کے فرزند سید حسن آصف جن کا تعلق کارپوریٹ سیکٹر سے ہے، نے خاص طور سے محفل میں شرکت کی۔ میزبانِ محفل عرش ہاشمی نے اس موقع پر سید آصف اکبر کی بطور جوائنٹ سیکریٹری محفلِ نعت کے لیے شاندار خدمات کا ذکر کیا اور ان کے کچھ نعتیہ اشعار بھی پیش کیے۔ 15 رمضان کی مناسبت سے عرش ہاشمی نے اپنی تازہ نعت شریف سے قبل حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی منقبت کے دو اشعار بھی پیش کیے۔
محفل کے اختتام پر اپنے صدارتی کلمات میں صدرِ مشاعرہ سید ابرار حسین نے محفلِ نعت پاکستان کی فروغِ نعت گوئی کے لیے شاندار کارکردگی کا ذکر کیا اور کہا کہ بلا شبہ محفلِ نعت پاکستان وطن عزیز کی نعتیہ ادب کی ترویج کے لیے سرگرمِ عمل قدیم ترین تنظیموں میں شامل ہے۔ انھوں نے محفلِ نعت کے تمام اراکین کو خدمات کے 36 سال مکمل ہونے پر مبارکباد دی۔ محفل افطار کے وقت ختم ہوئی اور افطاری کے بعد باجماعت مغرب کی نماز ادا کی گئی جس کے بعد عشائیے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
اس یادگار نعتیہ محفل میں پیش کیے گئے گلہائے نعت سے چند منتخب اشعار:
سید ابرار حسین
(صدرِ محفل):
وہ، ذکر بھی جن کا جانفزا ہے، درود ان پر، سلام ان پر
کہ یاد بھی جن کی غم کشا ہے، درود ان پر، سلام ان پر
عبد القادر تاباں:
یکتا نے ان کو نکہتِ یکتائی بخش دی
لائے کوئی جواب رخِ لاجواب کا
عرش ہاشمی
(میزبان مشاعرہ):
(منقبت امام حسن):
کریم ابن کریم و حلیم، دل کے غنی
کشادہ دست سدا، سید امام حسن
(نعت):
کل عالم تخلیق میں آپ اپنی مثال آپ
سیرت ہے کسی کی، نہ ہی اس شان کی صورت
سابق جوائنٹ سیکریٹری محفلِ نعت سید آصف اکبر مرحوم کی نعت شریف پڑھ کر سنائی گئی جو خاصی طویل بحر میں تھی، ایک شعر دیکھیے:
مملکتِ خیال میں،
دائرہ سوال میں،
عالمِ ماہ و سال میں،
ممکن و احتمال میں،
جراتِ عشق کی قسم،
حرمتِ رزق کی قسم،
عظمتِ صدق کی قسم،
آپ سا دوسرا نہیں!
ڈاکٹر رفیع الدین صدیقی:
(حمدیہ)
وہ موجد، وہ باری، وہ اعلم، وہ احکم، وہ اعظم، وہ اکبر، مہیمن، مکرم
اسی کے صفاتی سبھی نام احسن، اسی ایک کو ہے تعظم، تصور!
(نعت)
ترفع مسلسل ہے ذکرِ نبی کو، اذان و نماز و درود و تلاوت
عطائے خدائے جلیل وکریم و مجیدالولی، لا تعین، تصور!
میاں تنویر قادری:
حروف وجد میں ہوں قافیے ہوں سر بسجود،
ردیف جھوم رہی ہو، تو نعت ہوتی ہے!
پروفیسر عرفان جمیل:
کچھ تو ہے جو یثرب آج چھتوں پر ہے
آنکھوں میں دیدار کی حسرت یونہی نہیں
شرف الدین شامی:
اہلِ غزہ کے بارے میں خوبصورت نظم پیش کر کے داد وصول کی
ڈاکٹرعزیز فیصل:
فکر سرکش تھی، اسے مکتبِ سرکار ملا
خزرج و اوس کو بھی منصبِ انصار ملا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نعت پاکستان عرش ہاشمی ہاشمی نے نعت کے کے لیے
پڑھیں:
صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کے اغوا کیخلاف نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج
اسلام ٹائمز: احتجاج میں شریک افراد نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر آزادیٔ صحافت کے حق میں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کا فوری نوٹس لیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: نادر بلوچ
نیشنل پریس کلب کے باہر صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کے مبینہ اغوا کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں صحافی برادری، انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔ احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے سینیئر صحافی اعزاز سید نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنانا آزادیٔ صحافت پر سنگین حملہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اغوا ہونے والے افراد کو فوری بازیاب کرایا جائے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری نے بھی احتجاج میں شرکت کی اور کہا کہ یہ واقعہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آزادیٔ اظہار کو دبانے کے لیے خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے، جو ناقابل قبول ہے۔
احمد نورانی کی والدہ اور بہن نے بھی مظاہرے سے خطاب کیا اور حکومت سے اپیل کی کہ ان کے پیاروں کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک آزاد ملک میں کسی بھی شہری کو یوں لاپتہ کر دینا غیر آئینی اور غیر انسانی ہے۔ احتجاج میں شریک افراد نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر آزادیٔ صحافت کے حق میں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کا فوری نوٹس لیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial